بیرسٹر حمید باشانی
ہمارے ہاں ریاست اور حکومت میں فرق نہیں کیا جاتا۔ اور یہ فرق نہ کرنے سے گڈ گورننس سمیت زندگی کے ہر شعبے پر بہت فرق پڑتا ہے۔ سب سے بڑا فرق تو یہ پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں حکومتیں اپنے آپ کو ریاست سمجھنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اور اپنے آپ کو ریاست بنا کر پیش کرتی ہیں۔ جس کی وجہ سے حکومتوں کی نا اہلی، ناقص کارکردگی،وسائل کی لوٹ کھسوٹ، اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم جیسے حکومتی کاموں کو بھی ریاست کے ذمہ لگا دیا جاتا ہے۔ ان چیزوں کے خلاف جب عوام رد عمل پر اتر آتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں، سڑکوں پر آتے ہیں تو جواب میں ان کو ریاست کے نام پر ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اور ریاست کے نام پر ان کی تحریکوں کو کچل دیا جاتا ہے۔ حالانکہ عوام ریاست کے خلاف احتجاج نہیں کر رہے ہوتے، بلکہ ایک خاص وقت میں ایک خاص حکومت، حکمران طبقات اور حکمران اشرافیہ کے خلاف احتجاج کر رہے ہوتے ہیں۔
اسی طرح حکومت اپنے آپ پر تنقید کو ریاست کے خلاف تنقید قرار دیکر ریاستی طاقت کے استعمال سے اپنی بقا کی جنگ لڑتی ہے۔ تاریخ میں جس طرح حکومت مخالف دانشوروں، مفکروں، اور گاہے سیاست دانوں کو حکومت پر تنقید کرنے کی پاداش میں ریاست دشمن، ملک دشمن اور غیر محب وطن بنا کر پیش کیا جاتا رہا اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ بلکہ تاریخ میں جتنی بڑی بڑی ظلم و جبر کی داستانیں موجود ہیں، وہ حکومتوں کی طرف سے ریاستوں کے نام پر مخالفین کو کچلنے، ان کو پابند سلاسل کرنے، اور بسا اوقات موت کے گھاٹ اتار دینے کے واقعات پر مشتمل ہیں۔
لیکن ہمارے عہد میں جوں جوں شعور بڑھتا جا رہا ہے، معلومات تک رسائی، اور عوام کی آپس میں کمیونیکشن عام ہو رہی ہے، توں توں عوام ریاست اور حکو مت میں فرق کرنے کے قابل ہوتے جا رہے ہیں، اور یہ صورت حال حکمران اشرافیہ کے لیے باعث پریشانی ہے۔ عوام یہ جاننا شروع ہو گئے ہیں کہ حکومت اور ریاست میں بہت بنیادی نوعیت کا فرق ہے، اور حکومت اپنے آپ کو ریاست قرار دے کر اپنے اقتدار کو طول دینے کی مجاز نہیں ہے۔
عوام ریاست کی بڑے بڑے فلاسفرز اور سماجی سائنسدانوں کی طرف سے متعین کی گئی تعریف کی پیچیدگیوں میں پڑے بغیر یہ جانتے ہیں کہ ریاست ایک ایسی تنظیم کا نام ہے ، جس کے پاس علاقہ ، آبادی، اقتدار اعلی، اور حکومت ہوتی ہے۔ گویا سادہ زبان میں ریاست چار عناصر پر مشتمل ہوتی ہے۔ ریاست کے کئی عناصر ہوتے ہیں، اور حکومت ان میں سے سے محض ایک عنصر ہے۔ گویا یہ ریاست کا محض ایک حصہ ہے، جو ریاست کی ایما پر ریاست کے لیے کام کرتا ہے۔ محض ایک انتظامی ڈھانچہ ہے، جس کی حدود و قیود اور اختیارات کا تعین ریاست کی بنیادی دستاویز یعنی آئین میں کر دیا جاتا ہے۔حکومتیں آئے روزبدلتی رہیتی ہیں، اور بدل سکتی ہیں، جبکہ ریاست کی حیثیت ایک مستقل تنظیم کی ہوتی ہے، جب تک وہ کسی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر ختم نہ ہو جائے۔ اس طرح حکومت کی حیثیت محض ریاست کے اہل کار کی سی ہوتی ہے۔
حکومت ریاست کے تابع ہو کر اس کے لیے کام کرتی ہے۔ ریاست کے اہل کار کے طور پر حکومت کسی ریاست کے آئین اور قانون کے نفاذ اور اس پر عمل درامد کا فریضہ سر انجام دیتی ہے۔ اس طرح ایک حکومت جو بھی طاقت اور اختیارات رکھتی ہے، وہ ریاست اور اس کے آئین و قانون کی وجہ سے رکھتی ہے۔ آئین جو سب سے بڑا قانون ہے، وہ ریاست کا ہوتا ہے، حکومت کا نہیں ، حکومت کا کام تو محض اس قانون کی روشنی میں اپنے فرائض منصبی ادا کرنا ہے، جن کا واضح تعین اس بنیادی ریاستی دستاویز میں ہو چکا ہوتا ہے۔ گویا حکومت لوگوں کے افراد کے ایک ایسے گروپ کا نام ہے، جو آئین اور قانون کے تابع رہ کر ریاست کے اختیارات کا ستعمال کرتا ہے۔ حکومت لوگ بناتے ہیں، جو ریاست کا ایک بنیادی عنصر ہوتے ہیں۔
یہ عوام ہی ہوتے ہیں، جو ریاست میں آئین و قانون کی حکمرانی، اپنے جان و مال کے تحفظ اور روز مرہ کے انتظامی معاملات چلانے کے لیے کچھ لوگوں کو حکمرانی کا مینڈیٹ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم بادشاہتوں اور مطلق العنان حکومتوں کے بر عکس جدید جمہوریتوں میں منتخب نمائدوں کو حکمران کے بجائے عوام کے خادم سمجھا جاتا ہے، اور سچی جمہوریتوں میں منتخب ہو سامنے آنے والے نمائدہ افراد اپنے آپ کو عوام کا خادم کہلانے پر فخر محسوس کرتے ہیں، اور بار بار اس اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ عوام کے خدمت گزار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوری تصورات کے عام ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا میں حکمرانی کا تصور اور طریقہ کار بدل رہا ہے، اور یہ خدمت گزاری کا پیشہ بنتا جا رہا ہے۔
ریاست اور حکومت میں ایک بہت بڑا فرق یہ ہوتا ہے کہ ایک ریاست کے اندر رہنے والی پوری آبادی ریاست کا حصہ ہوتی ہے۔ تمام لوگ ریاست کے شہری ہوتے ہیں، سوائے چند استشناوں کے، جیسے سیاح، غیر ملکی، اور عارضی طور پر مقیم لوگ، جو شہریت کے حامل نہیں ہوتے۔ اس کے بر عکس حکومت ان افراد پر مشتمل ہوتی ہے، جن کو عوام اس مقصد کے لیے منتخب کرتے ہیں، یا جن ریاستوں میں جمہوریت نہین ہوتی، وہاں حکومتی افراد کے انتخاب یا نام زدگی کے دیگر طریقوں سے مخصوص افراد کو حکومت کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے۔
ریاست کا سب سے بڑا نشان اس کا اقتدار اعلی ہے۔ اقتدار اعلی ریاست کے پاس ہوتا ہے، اور حکومت ریاست کی ایما پر اس اقتدار اعلی کو بروئے کار لاتی ہے۔ ریاست کا اقتدار اعلی مطلق اور لامحدود ہے، حکومت کا اختیار محدود و مشروط ہوتا ہے۔ جس علاقے پر کوئی ریاست قائم ہے، وہ علاقہ ریاست کی ملکیت ہوتا ہے، حکومت کا نہیں۔ حکومت اس پورے علاقے پر آئین و قانون کے نفاذ کی ذمہ دار ہوتی ہے، لیکن اس علاقے کی ملکیت ریاست کے پاس ہوتی ہے۔ حکومتیں ہمہ وقت بدلتی رہتی ہیں۔ یہ تبدیلی کئی انتخاب کے ذریعےہوتی ہے، کئی انقلاب کے زریعے ہوتی ہے۔ اس کے بر عکس ریاست کی حیثیت مستقل ہوتی ہے۔ریاست و حکومت میں اس فرق کے باوجود آج بھی ہمارے ہاں حکمران اشرافیہ کے کچھ ممبران اپنے آپ کو ریاست ہی سمھجتے ہیں، اور اپنے آپ اور ریاست کو لازم و ملزوم قرار دیتے ہیں۔ اس کا ایک انداز حال ہی میں آزاد کشمیر میں بجلی کے بلوں پر بے تحاشا ٹیکس اور ، مہنگائی آور آٹے جیسی بنیادی ضرویات پر سبسڈی کے خاتمے کے خلاف عوامی مظاہروں کے دوران حکومت کے طرز عمل سے ہوتا ہے۔
عوام نے بجلی اور آٹے جیسی بنیادی ضروریات زندگی کی اشیا کے ساتھ کرپشن، بد انتظامی، رشوت، کمیشن، اقربا پروری اور غیر منصفانہ ٹیکسوں کے خلاف کسی قسم کا قانون توڑے بغیر انتہائی پر امن احتجاج کے دوران ایک نا قابل یقین استقلال اور حوصلہ مندی کا مظاہرہ کیا، لیکن حکمران اشرافیہ نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اپنی بنیادی ضروریات یا بنیادی حقوق کا مطالبہ کوئی ریاست مخالف سرگرمی ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کو غدار یا ملک دشمن قرار دے کر کچلا جا سکتا ہے۔
ہمارے ہاں حکمران اشرافیہ اس طرح کی سوچ اور مائنڈ سیٹ کو کسی قسم کے احتجاج، مظاہروں یا اختلاف رائے کو دبانے کے استعمال کرتی ہے۔ ملک میں گزشتہ چند سالوں کی سیاست میں اس کی واضح جھلک دکھائی دیتی ہے، جو حکومت مخالف اوازوں کو سننے کے بجائے دبانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہیں، اور اس مقصد کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار رہتے ہیں، یہاں تک کہ وہ خود اور ریاست کو لازم و ملزوم قرار دیکر مخا لفین کے خلاف ریاست طاقت اور اختیار کا غلط استعمال کرتے ہیں۔
♣