پائندخان خروٹی
ہمارے ہاں سیاسی تنظیموں اور پالیسی ساز اداروں کی ایک بڑی کمزوری یہ بھی ہے کہ وہ بین الاقوامی قوتوں اور اداروں کے ساتھ رشتے استوار نہیں رکھتے جس کی وجہ سے ہمارے سیاسی امور و معاملات مقامی سطح تک محدود رہتے ہیں۔ اس طرح ہمارے سیاسی تجزیے بھی عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور خطے میں اُن کے اثرات سے واقف نہیں ہو پاتے۔ آج کی پل پل بدلتی دنیا میں کسی ملک کی صورتحال دنیا سے کٹی ہوئی اور الگ تھلگ نہیں رہتی۔ لہٰذا اپنے مسائل کو جاننے، بیرونی قوتوں کی مسلط کردہ پالیسیوں کو سمجھنے، ان کے محرکات کو پرکھنے اور اپنے قومی اہداف کے حصول کیلئے ضروری ہے کہ بین الاقوامی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور ملکی معاملات کے درمیان ربط کو اچھی طرح سمجھ جائیں جس کے بغیر کوئی نتیجہ خیز حکمت عملی مرتب نہیں کی جا سکتی۔
عالمی نظام کی تبدیلی پر گفتگو کرنے سے قبل اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ نیو ورلڈ آرڈر کیا ہے؟ ، عالمی سطح پر ممالک کے درمیان تعلقات کی نوعیت کیا ہے؟ اور عالمی سطح پر ہونے والے فیصلوں میں کس ملک کی پوزیشن کیا ہے؟ یوں تو ورلڈ آرڈر کا آغاز 17 ویں صدی میں براعظم یورپ کی قومی ریاستوں کے درمیان معاہدہ
(Treaty of Westphalia – 1648)
سے ہی ہوتا ہے لیکن اس کی حتمی شکل پہلی عالمی جنگ کے بعد واضح ہونا شروع ہوئی جب لیگ آف نیشنز کا قیام عمل میں آیا۔ بعدازاں دوسری عالمی جنگ کے فاتح ممالک نے لیگ آف نیشنز کو غیر موثر قرار دیکر اقوام متحدہ ،1945، قائم کی اس وقت ورلڈ بینک،آئی ایم ایف اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن وغیرہ جیسے ادارے وجود میں آئے۔ اس نئے نظام کا سربراہ امریکہ تھا جس نے اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں کو اپنے منافع اور تسلط کیلئے استعمال کرتے ہوئے اس نے نیو کالونیل ازم کا اجراء کیا۔ روز اول سے اقوام متحدہ پر دنیا کے ملکوں اور اقوام کا اعتماد بحال نہ ہو سکا کیونکہ صرف پانچ ملکوں کو ویٹو پاور کا اختیار دیا گیا جس سے موجودہ بقیہ ایک سو اٹھاسی ممالک اب تک محروم ہیں۔
دوسری عالمی جنگ کے اتحادی ممالک نے شکست خوردہ اور کمزور ممالک پر غیرمساویانہ معاہدے مسلط کیے اور اُن ممالک اور اقوام پر بےجا پابندیاں عائد کی گئیں۔ جاپان کو فوج نہ رکھنے کا پابند بنایا، پیسفک ایشیاء کے مختلف جزیروں کو فوجی اڈوں کیلئے پابند بنایا۔ متعدد جگہوں پر اتحادی ملکوں کی افواج برقرار رکھا گیا۔ اس طرح چھوٹے بڑے ملکوں میں قومی آزادی کی تحریکوں کی کامیابی کے باوجود اپنے نئے عالمی نظام کے تحت غلامی کا شکار رکھا گیا، نو آزاد ممالک میں فریڈم فائٹرز کی بجائے اپنے کٹھ پتلوں کو مسلط کیا گیا۔
اس میں شک نہیں کہ انسانی تاریخ کا ایک انوکھا بشردوست انقلاب یعنی بالشویک انقلاب ،1917، نے دنیا بھر کی محکوم اقوام اور مظلوم طبقات کیلئے اُمیدوں کی ایک نئی دنیا روشن کی جس کی توسط سے دنیا بھر میں قومی آزادی کی متعدد تحریکوں کو فتح مندی بھی حاصل ہوئی تاہم دنیا بھر کے محکوم اقوام کے علمبردار اور مرد آہن جوزیف اسٹالن کی وفات کے بعد صورتحال میں بدلاو آنا شروع ہوگیا۔ سوویت یونین کے انہدام کے نتیجے میں بظاہر دنیا یک رخی ہوگئی اور امریکہ واحد بالادست قوت کی صورت میں سامنے آیا۔ امریکی حکمرانوں سمیت کئی نامور شخصیات نے سوویت یونین کے انہدام کو سوشلزم کی ناکامی جبکہ سرمایہ دارانہ نظام کی فتح مندی سے تعبیر کیا۔ واضح رہے کہ جس طرح تاج برطانیہ نے سلطنت عثمانیہ کو توڑنے کیلئے وہابیت متعارف کرایا امریکہ نے اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے بالشویک انقلاب کو ناکام بنانے کیلئے اخوان المسلمین اور اور آیت اللہ خمینی کو بروئے کار لائے۔
امریکی حکمرانوں اور بورژوا دانشوروں کے سوشلزم کی ناکامی اور سرمایہ دارانہ نظام کی فتح کے دعوے جلد ہوا ہوگئے۔ بورژوا تجزیہ نگاروں کے اندازے اور اخذ کردہ نتائج غلط ثابت ہوئے۔ یہ سچ ہے کہ ایک ملک کی بالادستی سے دنیا بھر میں مایوسی کا ایک دور ضرور آیا لیکن 2001 میں شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) چین، روس اور سینٹرل ایشیا کی بعض ریاستوں پر مشتمل پانچ ممالک کی کانفرنس نے تمام معاملات کا بغور جائزہ لیکر امریکی پہل کاری کو واپس پھیرنے کا باقاعدہ عزم کیا اور اس کیلئے سنجیدہ حکمت عملی وضع کی جس پر عملدرآمد سے صورتحال میں تبدیلی کا آغاز ہوا۔ اس کے ساتھ ہی یورپی یونین کی جانب سے نئی کرنسی ” یورو” کا اجراء ڈالر کیلئے ایک بڑا ابتدائی چیلنج ثابت ہوا۔
سنہ 2008 میں جرمنی سے شروع ہونے والا فنانشل بحران عالمی نوعیت اختیار کرتا گیا اور خود امریکی ماہرین معیشت تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام ناقابل اصلاح خرابیوں کا شکار ہو چکا ہے۔ ایک جانب فتح مند عالمی سرمایہ داری کا زوال شروع ہوا تو دوسری جانب چائنا کی معیشت کی حیران کن ترقی کا آغاز بھی ہوگیا۔ اسی دور میں نہ صرف روس ایک بار پھر اپنی معیشت کو کھڑا کرنے میں کامیاب ہوا بلکہ ان پانچ ممالک میں شامل ہو گیا جو سرمایہ داری کی گراؤٹ کے زمانے میں ترقی کرتی ہوئی معیشت کے حامل تھے۔ ان پانچ ابھرتی ہوئی معاشی قوتوں نے ایک تنظیم بنائی جسے آج برکس کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔
امریکی حکمرانوں نے اپنی بقاء کیلئے اپنے ہی پیدا کردہ مذہبی قوتوں پر حملہ آور ہو کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ دنیا میں امریکہ اور جہادی قوتیں ہی موجود ہیں لیکن یہ دھوکہ دہی بھی بےنقاب ہوئی اور ارتقاء کی تاریخ اپنی جس راہ کا تعین کر چکی تھی اس پر آگے بڑھتی گئی اور دنیا میں مختلف مراکز قوت ابھر کر سامنے آئے جس سے یونی پولر نظام کی بجائے ملٹی پولرائزیشن کا عمل تیز سے تیز تر ہوتا گیا۔ مختلف خطوں میں پھیلائی گئی تباہ کن جنگوں اور جنونیت کے مقابلے میں ایک نئی پرامن، انسان دوست اور شراکت داری کی دنیا کا تصور ابھرنے لگا۔ اسلحہ کی تجارت پر یقین رکھنے، خودکش بمباروں اور دہشت گردی کے ذریعے پوری دنیا کو فتح کرنے کا خواب دیکھنے والے بالآخر ناکام ٹھہرے اور اس کے مقابلے میں روس، چین اور اس کے اتحادیوں نے نوآبادیاتی باقیات کو شکست دینے اور، دنیا کو آمن و انصاف کا گہوارہ بنانے اور بنی نوع انسان کے مشترکہ مسقبل کی تعمیر کرنے کا ویژن سامنے لا کر سارے ملکوں کو برابری کی سطح پر منظم کرنے لگے۔ آج بھی دنیا بھر درجنوں متنازعہ علاقے طاقتور ممالک کے زیرِ تسلط ہیں اور قومی آزادی کی تحریکیں استعماری اور استحصالی قوتوں کے خلاف سرگرم عمل ہیں اور اس بات کی امید پیدا ہو چکی ہے کہ نیو ورلڈ آرڈر کا پیش لفظ تمام محکوم اقوام کے حق خودارادیت اور مظلوم طبقات کے حقوق کی بحالی سے تحریر کیا جائیگا۔
واضح رہے کہ اگر نئی قوتیں خاص طور سے چین اور روس بھی اپنے پیش رو برطانوی اور امریکی سامراج کی راہ پر چل نکلے اور دنیا بھر کے محکوم اقوام اور مظلوم طبقات کی امنگوں سے بےوفائی کی تو ان کا حشر بھی اس سے بدتر ہوگا حال ہی میں روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘”جدید استعماری اقلیت اور دہائیوں پر محیط مغربی بالادستی کے خاتمے کی خواہاں عالمگیر اکثریت کے مابین کشمکش سے ایک نیا عالمی نظام جنم لے رہا ہے“۔‘ انہوں نے باقاعدہ اعلان کیا کہ برکس ممالک نیو ورلڈ آرڈر کو حتمی شکل دے رہا ہے۔ اس کے ساتھ برکس ممالک نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ دنیا کی واحد کرنسی ڈالر کے مقابلے میں نئی کرنسی متعارف کرایا جائے گا۔
اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ڈی– ڈالرائزیشن اگر مکمل ہوا تو امریکی معیشت خودبخود بیٹھ جائیگی۔ اس ضمن میں چیرمین ماوزے تنگ نے عالمی معاشرہ کا تجزیہ بھی مقامی معاشرے کی طرح معاشی بنیادوں پر کیا۔ چیرمین ماوزے تنگ کی “تین دنیاوں کا نظریہ” کے مطابق جب ترقی پذیر ممالک ورکنگ کلاس کی طرح منظم ہونا شروع ہو جاتے ہیں تو درمیانہ درجہ کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی ان کے حق میں آواز اٹھنا شروع ہوتی ہے اور بالادست ممالک کے آپس کے تضادات کو ترقی پذیر ممالک اس کو اپنے حق میں استعمال کر سکتے ہیں لہٰذا پورے اعتماد کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ طاقت دراصل ساکن نہیں متحرک رہتی ہے اور طاقتور ہمیشہ طاقتور نہیں رہتا۔ اس حوالے سے امریکہ کی انٹرنیشنل بالادستی کا دور ختم ہوتے ہی بہت جلد دنیا نسبتاً منصفانہ نظام حاصل کریں گی۔
انقلابی لیڈر ولادیمیر لینن نے بجا طور پر کہا تھا کہ جو قوم دوسری اقوام کو غلام بناتی ہے وہ بالآخر اپنی آزادی گنوادیتی ہے
♠