پائندخان خروٹی
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ پل پل بدلتی دنیا میں وقت کے تقاضے اور انسانی ضروریات مسلسل بدلتی رہتی ہیں۔ ہمیں بھی انٹرنیشنل، ریجنل اور نیشنل سطح پر بڑی تیزی سے رونما ہونے والی معاشی اور سیاسی تبدیلیوں کے پیش نظر اپنی نئی ترجیحات کا تعین کرنا چاہیے، نئے قومی اہداف مقرر کرنے چاہیے، قومی اور طبقاتی سیاست کے درمیان حسین امتزاج (صنوبری مفکورہ) قائم کرنے کیلئے نئے اقدامات اٹھانے چاہیے لیکن نئے اقدامات اٹھانے سے قبل بدلتے ہوئے رحجانات کا فوری اور بروقت درست ادراک کرنا بہت ضروری ہے۔
نت نئی ایجادات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے نئے ذرائع نے نوجوانوں کے رویوں پر نئے اثرات مرتب کیے ہیں۔ کئی حوالوں سے نئی نسل علم شعور کے معاملے میں اپنی پرانی نسل آگے نکل چکے ہیں۔ اس وقت کوئی بھی جوان پرانے ڈگر پر چلنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ ادبی انحطاط پذیری کی نوبت تو یہاں تک پہنچی ہے کہ ہمارے اہل علم وادب خود جا کر لوگوں کو بتاتے رہتے ہیں کہ مارکیٹ میں ہماری نئی کتاب آئی ہے، سوشل میڈیا پر لوگوں کو لنکس میں ٹیگ کرتے ہیں اور بعض قارئین کو تو کتاب تحفہ میں دیتے وقت یہ بھی لکھتے ہیں کہ قدرمن فلاں ۔۔۔۔۔ کے مطالعے کے ذوق وشوق کے نام وغیرہ وغیرہ لیکن اس کے باوجود بھی کوئی پڑھنے کی زحمت نہیں کرتا۔
جبکہ دوسری طرف انگلش اور دوسری زبانوں کے علمی و تحقیقی مواد (کتابی اور تصویری) پر اپنا قیمتی وقت، توانائی اور پیسہ بھی خرچ کر کے بڑی دلجمی کے ساتھ پڑھتے رہتے ہیں۔ میرے خیال میں اس کے پیچھے بنیادی وجہ نئی تقاضوں اور انسانی ضروریات سے ہم آہنگی کارفرما ہوتی ہے۔ قارئین کو بھی شرمانے اور صاحب کتاب کا محض دل رکھنے کی بجائے لکھاری/ شاعر کو سچ بولنا چاہیے کہ ہم اس لیے آپکی کتاب پڑھنے کی زحمت نہیں کرتے کیونکہ آپ کی کتاب سے زندہ انسانوں کی کوئی بھی ضرورت پوری نہیں ہوتی ۔اس طرح وہ بھی آئندہ اپنی اصلاح کریں گے۔
اس ضمن میں معاشرے کے تمام اہل ادب و سیاست پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ وہ نئے تقاضوں اور انسانی ضروریات کے مطابق عوام کو فکری رہنمائی فراہم کریں۔ ذہن نشین رہے کہ پشتون اہل فکر و نظر کو مردہ ادب دوبارہ شائع کرنے، الفاظ معانی پر مبنی ڈکشنری مرتب کرنے، لوک داستانیں دہرانے، پرانے اخباری تراشے سکین کرنے، لوک ادب میں غاڑی، ٹپوں اور کہاوتوں کے بےمنزل گول دائروں میں سفر کرنے اور زلف و چنار کی شاعری کے خول سے ہر صورت میں باہر نکلنا ہوگا۔
سردست ہمارے معاشرے میں سنجیدہ اور فہمیدہ پولیٹیکل اینڈ سوشل سائنٹسٹ سے مدد ورہنمائی لینے کی اشد ضرورت ہے۔ اہل فکر وقلم کو اپنے سماج اور انسانی ضروریات سے لاتعلقی اور غیرجانبداری کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ فکری اور سیاسی قائدین کی غفلت یا ایک چھوٹی سی غلطی بھی پوری قوم کو کئی خطرات سے دوچار کر سکتی ہے۔ آپ بھی چیزوں کی ” فیوچر ویلیو ” کو مدنظر رکھ کر پرولتاری نظریہ اور مبارزہ کو درست سمت فراہم کر سکتے ہیں۔ پشتو ادب و سیاست میں مندرجہ ذیل موضوعات پر نئی تحقیقات اور تخلیقات کی ضرورت ہے لہٰذا اس سلسلے میں تمام اہل فکر و قلم اپنے قلم و قدم کو حرکت میں لا سکتے ہیں۔
۔1۔ عصر حاضر کا پھوٹتا ہوا فلسفہ
۔ 2۔ پولیٹکل اکانومی اور پشتون معاشرہ
۔ 3۔ نئی نسل اور نئے تقاضے
۔ 4۔ پشتون نیشنلزم اصلاحات کا متقاضی کیوں؟
۔ 5۔ سیاسی اور ادبی تحریکوں کا تنقیدی جائزہ
۔6۔ جدید ٹیکنالوجی کے انسانی رویوں پر اثرات
۔7۔ کلچر سے گلوبل سیویلائزیشن کی جانب سفر
۔ 8۔ نیشنلزم میں جغرافیہ کا کردار
۔ 9۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور روبوٹک ٹیکنالوجی
۔ 10۔ آثار قدیمہ اور تصویری تاریخ
۔ 11۔ جدید نیشنلزم اور جدید تقاضے
۔ 12۔ پشتون معاشرہ اور ایشیاٹیک موڈ آف پروڈکشن
۔ 13۔ ڈاکومنٹری اور شارٹ فلم بنانے کا فن
۔ 14۔ پشتونخوا وطن میں پرفارمنگ آرٹس
۔ 15۔ مزاحمتی ادب اور سیکولر سياست
۔ 16۔ پشتون قومی جدوجہد میں خواتین کا کردار
۔ 17۔ ترقی پسند پشتون مصنفین
۔ 18۔ پشتونخوا کی کسانی تحریکیں
۔ 19۔ ہماری پسماندگی: اپنی نااہلی یا اغیار کی چالاکی
نوٹ : علمی مکالمے کے رحجان کو عام کرنے، تنقیدی شعور کو فروغ دینے، ادبی و سیاسی کاوشوں کا بےرحمانہ تنقیدی جائزے لینے اور نوجوانوں میں سوال کرنے کی جرآت پیدا کرنے کیلئے آزادانہ بحث و مباحثے کی ضرورت ہے۔ اس سے سلگتے مسائل کے مختلف پہلوؤں، سماج کے نظرانداز گوشوں اور شخصیتوں کو بھی زیر لایا جا سکتا ہے۔