نذیر ناجی
سب سے پہلے تو میں یہ عرض کروں کا کہ اسلامی نظریاتی کونسل میں جو ہنگامہ برپا ہوا اس پر جناب محمد خان شیرانی کا غیر معمولی ردعمل کسی بڑے منصوبے کی ناکامی پر جھلاہٹ ہے۔ ہو سکتا ہے اسی جھلاہٹ میں انہوں نے حافظ طاہر اشرفی کے گریبان پر ہاتھ ڈالا۔ میں یہ سوچ کر کانپ گیا کہ خدانخواستہ اسلامی نظریاتی کونسل میں ایجنڈے کی متنازعہ شق پر بحث ہو جاتی اور اپنے منصوبے کے مطابق شیرانی صاحب اس موضوع پر حکومت کو کوئی سفارش کرنے میں کامیاب ہوجاتے تو کتنا بڑا فساد برپا ہونا تھا۔ اس وقت پاکستان نازک حالات سے گذر رہا ہے کہ فساد پیدا کرنے کی ذرا سی کوشش بھی پورے ملک میں آگ بھڑکا سکتی ہے۔ میں حافظ طاہر اشرفی کو خراج تحسین پیش کروں گا کہ انہوں نے متنازعہ شق سے لاتعلقی کا اظہار کرکے ملک و قوم کو ایک بہت بڑے فساد سے بچالیا۔
آپ نے ایک حالیہ رپورٹ دیکھی ہوگی جس میں یہ تفصیل بتائی گئی ہے کہ پاکستانی مدرسوں کو کتنی بیرونی امداد کہاں کہاں سے مل رہی ہے ان میں سعودی عرب ، کویت، متحدہ عرب امارات،قطر ، ترکی اور ایران نمایاں ہیں اور امداد حاصل کرنے واالے مدرسے لاہور، شیخوپورہ، گوجرانوالہ ، حافظ آباد، جھنگ، چینوٹ ، ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ ، بھکر، میانوالی ، خوشاب، ملتان ، ساہیوال ، خانیوال، پاک پتن، ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ ، رحیم یار خان، اور بہاولپور میں واقع ہیں۔یہ مدرسے مختلف فرقوں ، مسالک اور گروہوں کے لیے ان کے اپنے مطلب کی افرادی قوت مہیا کرتے ہیں۔ بیرونی سرمایہ درحقیقت شیعہ اور سنی مدرسوں کو ملتا ہے۔ بھیانک حقیقت یہ ہے فرقوں کے نام پر جو مسلح تنظیمیں سرگرم عمل ہیں ان پر فرقہ وارنہ تعصبات کی چھاپ گہری ہے ۔ ان فرقوں اور مسلح تنظیموں کی تعداد کا شمار مشکل ہے ۔
اب ذرا اسلامی نظریاتی کونسل کے ایجنڈے پر غور کریں۔ اس کی پراسراریت یہ ہے کہ کونسل ہمیشہ قرآن و سنت کی روشنی میں ان سوالوں کے جواب مہیا کرتی ہے جو اس کے سامنے پیش کیے جائیں۔ بنیادی طور پر یہ علمائے دین کا ادارہ ہے جس میں دین اسلام کے قانونی شرعی اور فقہی ماہرین دریافت کیے گئے سوالوں کے جواب تیار کرتے ہیں اور بعض معاملات میں تو باقاعدہ قانون سازی کی تجاویز بھی تیار کرتے ہیں۔ طاہر اشرفی ہر چند اعلیٰ پائے کے عالم دین نہیں لیکن دین کے نام سے سیاست کرنے والوں پر ان کی نگاہیں بہت گہری ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی میٹنگ کے ایجنڈے میں چند ایسے سوالات دیکھ کر طاہر اشرفی کا ماتھا ٹھنکااور انہوں نے ایجنڈے کو دیکھتے یہ سوال اٹھادیا کہ یہ شقیں کہاں سے آئی ہیں۔
نہ تو یہ سوالات کونسل کے کسی رکن کی طرف سے اٹھائے گئے ہیں نہ حکومت کے کسی محکمے کی طرف سے تجویز آئی ہے نہ کسی بار ایسوسی ایشن نے یہ سوالات اٹھائے ہیں اور نہ ہی علماء کی کسی تنظیم نے۔ اس موقع پر طاہر اشرفی نے الفاظ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پہلے کونسل کو یہ بتایاجائے کہ ایجنڈے میں یہ تجاویز داخل کیسے ہوئیں؟آپ نے چور کی داڑھی میں تنکا والی کہانی تو ضرور سنی ہوئی ۔ اسی قسم کا حال جناب شیرانی کا ہوا۔
حقیقت یہ ہے سوالات کہیں سے بھی نہیں آئے تھے بلکہ کونسل کے چئیرمیں جناب شیرانی نے از خود ہی یہ ایجنڈا تیار کرکے کونسل کے سامنے رکھ دیا۔جس کے وہ ہر گز مجاز نہیں۔ تمام حاضرین کی توجہ ایجنڈے کی اس پراسرار شق کی طرف مبذول ہوگئی جس کی نشاندہی طاہر اشرفی نے کر دی تھی۔بحث شروع ہوئی تو اس میں بھی شیرانی صاحب کی حمایت میں کوئی آواز نہ اٹھی۔ کوئی نہیں جانتا کہ ایجنڈے کے پراسرار حصے میں شیرانی صاحب کا خفیہ منصوبہ کیا تھا۔
مخصوص قسم کے متعصب اور تنگ نظر مولویوں کے ذہنی اور فکری رحجانات پر نظر رکھنے کے عمل کو مولانا کوثر نیا زی مرحوم ’’مولویالوجی‘‘ کہا کرتے تھے ۔ اس سے ان کی مراد یہ ہوتی تھی کہ علم اور دین کی آڑ میں جب کوئی مولوی اپنا داؤ لگانے کی کوشش کرے تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ ’’مولویالوجی‘‘ کے ہنر کا کمال ہے ۔ طاہر اشرفی ظاہر ہے ’’مولویالوجی‘‘ کے ماہر ہیں۔ انہوں نے اصل نشانے کو بھانپ لیا اور جس ایجنڈے کی متنازعہ شق موجود تھی اسے زیر غور ہی نہ آنے دیا۔ لیکن اگر میں ایجنڈے کی مذکورہ شق کے چاروں نکات آپ کی خدمت میں پیش کردوں تو آپ کو بھی اندازہ ہو جائے گا کہ طاہر اشرفی نے کسی فتنے کی نشاندہی کی تھی۔میں صرف تین بنیادی نکات بیان کروں گا۔
الف: قادیانیوں کی موجودہ حیثیت کیا ہے؟
ب: قادیانی مرتد ہیں ، کافر ہیں یا گمراہ ہیں؟
ج: پاکستان میں جو غیر مسلم رہتے ہیں انہیں ذمی قرار دیا جائے یا ان کی علیحدہ علیحدہ حیثیت متعین کی جائے؟
ان سارے سوالوں کے جواب، پاکستانی آئین میں موجود ہیں اور جو بات آئین میں طے پاگئی اسے دوبارہ زیر بحث لا کر کون سے فتنے اٹھانے کی کوشش کی گئی تھی؟ میری اطلاع کے مطابق شیرانی صاحب اپنی غلطی یا چالاکی پکڑنے جانے پر بدحواس ہوگئے اور اپنی نشست سے اٹھ کر بظاہر بیرونی دروازے کی طرف جاتے ہوئے نظر آئے مگر اچانک مڑ کے وہ طاہر اشرفی کی کرسی کی طرف گئے اور ان کا گریبان پکڑ کر کھینچنا شروع کردیا۔ ۔ ان کے دو ساتھیوں نے طاہر اشرفی پر حملہ کر دیا۔ یہ پورا منظر علماء کے شایان شان نہیں اور شیرانی صاحب جو کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چئیرمین ہیں انہیں تو یہ پورا سلسلہ ہی زیب نہیں دیتا ۔
میں نے اپنے علم کے مطابق واقعات میں بیان کردیئے ہیں خدانخواستہ جو بحث شیرانی صاحب نے کسی جواز کے بغیر چھیڑنے کی کوشش کی تھی اس کا پس منظر کیا ہو سکتا ہے؟ طاہر اشرفی کہتے ہیں کہ میں نے ملک کو انتشار کے طوفان سے بچالیا ہے ورنہ اسلامی نظریاتی کونسل میں یہ بحث چھڑ جاتی اور شیرانی صاحب اپنی جماعت کے ذریعے اسے پارلیمنٹ میں لے جاتے تو ہمارا کیا بنتا؟
جہاں تک شیرانی صاحب کے اس جواب کا تعلق ہے کہ میں نے تو انہیں اپنے راستے سے ہٹایا تھا ‘‘ وہ کہا جارہے تھے؟ ان کے راستے میں کرسی پر بیٹھے ہوئے طاہر اشرفی کیسے آگئے ؟ مجھے تو اس بات کی سمجھ نہیں آرہی ۔ خود شیرانی صاحب ہی بیان فرما دیں کہ وہ اپنی کرسی سے اٹھ کر کسی طرف جارہے تھے ؟ مڑ کر کدھر کو آئے اور جا کدھر رہے تھے؟ جہا ں اپنی کرسی پر بیٹھے ہوئے طاہر اشرفی ان کے راستے میں آگئے۔ یہ نقشہ سمجھ میں نہیں آتا۔
معاشرتی علوم پر شیرانی صاحب کی مہارت بھی قابل غور ہے جو ان کے جملے سے ظاہر ہوئی ’’ یہاں غنڈوں کی کمی ہے‘‘ ۔ ایک عالم دین سے ٹی وی پر یہ جملہ سن کر بھاٹی لوہاری والوں کے حوصلے دوچند ہوگئے ہوں گے ۔ انہوں نے حیرت سے کہا ہو گا ’’مولانا تو یہ بھی جانتے ہیں ‘‘۔
بشکریہ روزنامہ دنیا نیوز، لاہور