ارشد نذیر
لمحہ، منٹ، گھنٹہ ، دن، ہفتہ، مہینہ اور پھر سال کی شکل میں خود کو لپیٹتا یہ وقت انسانی ذہن پر کئی ایک واقعات کے انمٹ نقوش چھوڑ جاتا ہے۔وقت کا پہیہ بغیر کسی کا انتظار کئے مسلسل گھومتا چلا جاتا ہے۔ یہ وقت منٹ، گھنٹے، دن، ہفتے، مہینے اور سال کی شکل میں جمادات، نباتات ، حیوانات اور انسانوں پر بلاتفریق اور بلاتعطل گزرتا چلاجاتا ہے ۔
انسانی زندگی وقت کی لامتناہیت کے سامنے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ نہ ہی وقت کے ہمارے مقرر کردہ یہ پیمانے کائنات میں کوئی وقعت رکھتے ہیں۔پھر اس دنیا میں وقت کو کس طرح سے دیکھا جا سکتا ہے ۔ انسانی زندگی میں وقت کے بجائے واقعات ، ان کے آپسی تعلق اور تناسب زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ لہٰذا جب انسانی زندگی کی پیمائش وقت کے بجائے واقعات کے ذریعے کی جاتی ہے، تو خود زندگی کے معنی ہی بدل کر رہ جاتے ہیں ۔
وقت کے اندر واقعات کا گندھا ہوا یہ شعور اُسے زندگی کے مختصر ہونے کا احساس بھی دلاتا ہے اورزندگی کی ’’مختصریت‘‘ اُسے ’’زندگی‘‘ کو نئے معنی پہنانے پر مجبور بھی کرتی ہے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس نے اپنی بے معنی اور بے ہنگم رندگی کو وسعتیں بخشیں اوراپنے اردگرد بکھرے ایک بیگانہ ماحول کو کچھ اس طرح اپنا مطیع کیاکہ بالآخر آج صرف چلتی سانسوں کو زندگی نہیں کہا جاتا بلکہ ادرگرد پھیلا یہ ماحول جس سے زندگی کا سارا حسن اور رعنائی برقرار ہے بھی ’’زندگی‘‘ ہی کی تعریف میں شامل ہو چکا ہے۔ محض گزرتے لمحات ’’زندگی‘‘ نہیں ہیں۔ یہ وقت زندگی نہیں ہے۔
دراصل زندگی تو واقعات کا نام ہے۔ واقعات المیہ بھی ہوتے ہیں اور طربیہ بھی ۔ بس یہی واقعات ہی انسا ن اور سماج کی زندگی کا سفر ہیں ۔ یہی خوشی اوریہی غم ہیں۔ زندگی کے معنی حسن، خوبصورتی اور محبت و الفت جیسے جذبات کو وسعت دینے والے قبیل میں شامل رہنے اور اُن جذبوں میں تسلسل اور دائمیت پیدا کرنے میں پنہاں ہیں۔
یہاں کچھ چلبلے ذہنوں میں یہ سوال کروٹیں لے سکتا ہے کہ آخر اس دارِ فانی میں ایسے جذبوں کی دائمیت اور تسلسل کے کیا معنی ہیں۔ جس وقت زندگی کی تعریف میں اس کے ادرگرد پھیلے ماحول اور اس میں شامل حسن ، رنگینی ، پیار اور محبت جیسے تمام جذبے شامل ہو سکتے ہیں تو ماضی کے ہر فلسفی، سائنسدان، ادیب ، شاعر اوردانشور جس نے ان امنگوں اور جذبوں کے لئے کوشش کی ہے ، اُس کی یہی کاوش ہی تو دراصل انہیں جذبوں اور امنگوں کی نسلِ انسانی کو منتقلی ایک لامتناہی خواہش کا اظہار ہے ۔
اُن کی اِن کاوشوں سے یہ جذبات ایک ان ٹوٹ دھاگے کی طرح ہم تک پہنچے ہیں۔ انہی کو جذبوں کا تسلسل کہا جاتا ہے ۔ یہی واقعات زندگی کہلاتے ہیں۔ یہی تہذیب ہے۔ یہی انسان کا اجتماعی شعور ہے۔ وقت کچھ بھی نہیں ۔ کچھ بھی نہیں ہے۔ دراصل واقعات سب کچھ ہیں۔
جب یہ بات سمجھ آجاتی ہے تو پھر واقعات کے بارے میں غور و خوص کا عمل بھی انسان کے لئے فطری ہو جاتا ہے ۔ وہ ہر واقعے کو زندگی اور اس سے وابستہ ماحول ، اس کے تسلسل و داہمیت اور اس کی اجتماعیت کے کردارکے تعلق سے پھانتا ہے ۔ پھر اُسے یہ بھی سمجھ آنا شروع ہو جاتا ہے کہ سب کے سب واقعات محض ہماری خواہشات کے تابع نہیں ہوتے ۔ یہ مثبت اور منفی بھی ہوتے ہیں اور ان میں نشیب و فراز بھی آتے ہیں۔
ہر واقعہ جو زندگی کی وسعتوں، اجتماعی شعور اور خوشی کے تسلسل کا باعث بنے وہ مثبت واقعہ ہی کہلائے گا۔ لیکن اگر وہ زندگی اور اس کے ماحول کی تنظیم میں تعطل پیدا کرکے ان جذبوں کے قتل کا باعث ہو اور حتیٰ کہ اپنے ادرگرد پھیلے ماحول کی تباہی اور نیستی کا سامان پیدا کر رہا ہو ، تو ایسا واقعہ تخریب ہوتا ہے۔
ماضی کے ہر عظیم انسان ،جس نے زندگی کے معنوں میں وسعتیں پید ا کی ہیں، کے ہم بطور انسان مقروض ہیں۔ وہ انسان تو فنا ہو گیا لیکن اُس کے زندگی میں پیدا کئے گئے مثبت واقعات جن کی وجہ سے حسن و محبت کے جذبوں میں پھیلاؤ آیا، زندگی کی ہما ہمی آج بھی انہی کے دم قدم سے ہے۔ ان مثبت واقعات میں اپنا حصہ ڈال کر ادا کرنا ہوتا ہے۔ منفی واقعات کے خلاف لڑکر اور ان کو روک کر ہی ہم اس قرض کو چکا سکتے ہیں۔
گاہے گاہے جنوں اختیار کرنے والے ان انسانوں نے زندگی اور اس کے ماحول کی جو امانت ہمارے سپرد کی ہے ہمیں اس کی حفاظت بھی کرنا ہے اور اسے حسین سے حسین تر بنانے کے لئے اپنا کردار بھی اد ا کرنا ہے ۔
ویسے وقت خود بھی تو دو واقعات کے درمیانی وقفے کا نام ہے۔ کائنات کے اندر وقوع پذیر ہونے والے واقعات درحقیقت اپنے گرد پھیلے نظام میں موجود دیگر اشیاء کے ساتھ تعلق کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ جب ہم ان کو سمجھتے لیتے ہیں تو اشیاء کے اس تناسب میں ہم خود بھی ایک شئے کی حیثیت سے شامل ہو جاتے ہیں۔ اس عمل کی فہم اور اس کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرکے جذبوں اور خوشیوں کو اکسیر بھی کیا جا سکتا ہے اور اس عمل میں غیر دانشمندانہ یا خود غرضانہ دخل اندازی کی جائے ، تو یہ عمل تخریبی ہو جا تا ہے۔
لیکن سرمایہ داری نظام اور سامراجی مقاصدکی توسیع کی غرض سے نہ صرف سماج کے انسانی جذبوں کے ساتھ بلکہ خود کائنات کے ساتھ بھی پچھلے کئی عشروں سے تخریب اور نیستی کا عمل جاری ہے۔ ماحولیاتی آلودگی ۔ انسانیت کی تذلیل۔بھوک ننگ افلاس ۔ بے روزگاری اوردہشت گردی جیسے منفی اور تخریبی واقعات کا بہیمانہ اور انسانیت سوز ناچ جاری ہے ۔ جنگیں بھی جاری ہیں۔ اسلحہ کی خرید و فروخت اور استعمال بھی آزادانہ کیا جا رہا ہے ۔
تاریخ کے سب سے بڑے پیمانے پر انسانوں کی دربدری اور نقلِ مکانی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ انسانوں کو غلام بنائے جانے کے قصے بھی جاری ہیں۔ انسانیت سوز،بہیمانہ اور وحشیانہ ننگے ناچ کے باوجود ’’تہذیب ‘‘اور ’’مہذب ‘‘ ہونے کے بلند و بانگ دعوے بھی کئے جا رہے ہیں۔ یہ سب واقعات زندگی ، ماحول اور کرہِ ارض کے وجود کے لئے خطرے کی گھنٹی ہیں۔
ان منفی واقعات کے پیچھے جو محرک کارفرما ہے وہ نجی ملکیت ، منافع خوری اور خود غرضی کی نفسیات ہے۔ انسان کے یہ منفی جذبات ،جن کو سرمایہ دارانہ نظام میں شخصی آزادی کا نام دیا جاتا ہے، سارے ایکو سسٹم کو تباہ کرنے ،ماحولیاتی آلودگی اور سماجی نظام کی تباہی کا سبب ہیں ۔ انسانوں کا یہ چھوٹا سا گروہ اپنی ذاتی اغراض اور منافع خوری کی ہوس کی وجہ سے یہ وحشت و بربریت پھیلاتا چلا جا رہا ہے۔ ان مقاصد کو حاصل کرنے میں وہ ہمنواؤں کی ایک ٹیم تیار کرتا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ انسانی نفسیات میں لالچ ، حرص ، طمع اور خود غرضی جیسے جذبوں کو انسانی سرشت یا انسانی فطرت کہہ کر تسلیم کروائے جانے کا یک طرفہ عمل بھی جاری ہے۔ انسانی زندگی میں نمود و نمائش اور جنس جیسی انسانی جبلتوں کی ابنارمل تربیت بھی جاری ہے ۔ ان تمام چیزوں کو ترقی کا زینہ قرار دیا جاتا ہے۔ سرمایہ داری کے حامیوں کی اکثریت ان جذبوں کے انسانی سرشت یا فطرت ہونے کے بارے میں انتہائی ابہام کا شکار ہیں۔
کوئی بھی ایک غیر متعصب ذہن کے ساتھ ان جذبوں کے بارے میں غیر جانبدارانہ سروے اور تحقیق کرکے دیکھ لے ۔ اُسے خود پتا چل جائے گاکہ سرمایہ داری کے یہ حامی خود ان بنیادی جذبوں کے بارے میں کس قدر الجھے ہوئے ہیں۔ ان کے بارے میں خود ان کے اپنے اذہان صاف نہیں ہیں۔وہ یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں کہ سرمایہ داروں کے یہ منفی واقعات زندگی، اس کے حسن اور رعنائیں کو ہم سے روٹھ جانے میں کردار ادا کررہا ہے۔
مثبت واقعات میں اپنا رول تلاش کرنے اور تراشنے سے انسان اس زندگی میں ہی اپنا حصہ ڈال سکتاہے۔ ہر ذی شعور کے لئے ضروری ہے کہ وہ مثبت اور منفی واقعات کے پسِ پردہ کرداروں کو پہچانے اور اس میں اپنا مثبت کردار خود تلاشے اور تراشے۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ سرمایہ داری میں ایسا قطعاً ممکن نہیں ہے۔
♣