محمد شعیب عادل
گورنر پنجاب سلمان تاثیر ایک مظلوم خاتون آسیہ بی بی کو بچاتے ہوئے اپنی جان قربان کر گئے ان کی موت سے پاکستان ایک روشن خیال سیاستدان سے محروم ہو گیا ہے ۔
سلمان تاثیر پاکستان کے واحد سیاسی رہنما تھے جو کھل کر انتہا پسندی کی نہ صرف مخالفت کرتے تھے بلکہ ان کے خلاف عملی طور پر آئینی جدوجہد کر رہے تھے اور یہی آئینی جدوجہد ان کی موت کا سبب بن گئی۔ان کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے ایک آمر کے بنائے ہوئے قانون کو کالا قانون کہا۔ ان کی جماعت کے کسی اور رہنما میں اتنی جرأت نہ ہوئی کہ وہ کھل کر انتہا پسندی کی مخالفت کر سکے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب پیپلز پارٹی کے رہنما اسے سیاسی قتل کہنے پر تلے ہوئے ہیں۔
سلمان تاثیر کے بعد اب شاید ہی کوئی سیاستدان روشن خیالی کی بات کرے۔ اس سے قبل بے نظیر بھٹو بھی اسی مذہبی انتہا پسندی کی نذر ہو چکی ہیں۔ جبکہ صدر زرداری نے صدارت کا عہدہ سنبھالتے ہی پاکستانی ریاست کو روشن خیالی اور خوشحالی کی جانب لے جانے کے لیے کچھ اقدامات کا اعلان کیا تھا مگر مقتدر قوتوں نے انھیں بھی چپ کراد یا۔
سلمان تاثیر کا قتل پاکستان کے روشن خیال افراد کو براہ راست الٹی میٹم ہے کہ اگر اب بھی باز نہ آئے تو اگلا نشانہ آپ بھی ہو سکتے ہیں۔پاکستانی حکمران اور عوام اس وقت مکمل طور پر انتہا پسندوں کے نرغے میں ہیں ۔ عقل و قانون کی بات کرنے والے کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے جبکہ بندوق کے زور پر اپنی بات منوانے والوں کو ریاست کھلے عام اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دیتی ہے اور وہ کھلے عام معاشرے میں دندناتے پھر رہے ہیں۔
اکتیس دسمبر کو آزادی اظہار رائے کے نام پر جس طرح دینی مدارس کے طالب علموں نے گورنر سلمان تاثیر کے واجب القتل ہونے کے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے تو حکومتی ادارے، میڈیا اور جہادی دانشور آنکھیں اور کان بند کیے بیٹھے تھے کہ جیسے کچھ ہو ا ہی نہیں۔ بات بات پر سو موٹو نوٹس لینے والے بھی سو چکے ہیں۔ منافقت کی انتہا یہ ہے کہ اب یہی حضرات ان کی موت کا ماتم کر رہے ہیں اور ذمہ داروں کو سخت سے سخت سزا دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔
سلمان تاثیر کا قاتل ممتاز قادری نہیں بلکہ وہ ریاستی ادارے ہیں جو پچھلی تین دہائیوں سے دہشت گردی کی پرورش کر تے رہے ہیں اور آج بھی ان دہشت گردوں کو اپنا سٹرٹیجک اثاثہ قرار دیتے ہیں۔سلمان تاثیر کے قاتلوں میں جہادی دانشور ، جج اور میڈیا بھی شامل ہے جو پچھلے دس سالوں سے انتہا پسندی کی حمایت کرتے چلے آرہے ہیں۔
جنرل ضیاء خود تو اپنے انجام کو پہنچ گیا مگر اس کی اولاد زندگی کے ہر شعبے میں موجودہے۔ تعلیمی ادارے ہوں یا کاروباری مراکز، بیورو کریسی ہو یا عدلیہ ہر جگہ ضیاء الحق کی منافقانہ مسکراہٹ استقبال کرتی نظر آتی ہے۔ دہشت گردوں نے پوری قوم کو بندوق کے زور پر یرغمال بنا رکھا ہے۔ مذہبی انتہا پسندی ہمارے معاشرے میں مکمل طور پر جذب ہو چکی ہے ۔
مساجد ہوں یا تعلیمی نصاب یا الیکٹرونک میڈیا ہر جگہ نفر ت آمیز تعلیم کا پرچار کیا جاتا ہے۔ اقلیتوں اور کمزور گروہوں کے خلاف ذاتی و کاروباری جھگڑوں کو مذہبی رنگ دینے کا عمل ضیاء الحق کی آمرانہ ذہنیت کی دین ہے جسے ہمارے میڈیا نے اسلام قرار دے رکھا ہے۔
گورنر سلمان تاثیر نے کئی دفعہ ان مذہبی انتہا پسندوں کی نشاندہی کرتے ہوئے پنجاب حکومت کو ان کے خلاف کاروائی کرنے کو کہا مگر پنجاب حکومت اپنی عوامی حمایت کھو جانے کے ڈر سے ان انتہا پسندوں کے خلاف کوئی کاروائی کرنے سے گریز کرتی رہی اور یہی گریز ان کی جان لے گیا۔
کوئی ڈھائی سال پہلے فیصل آبادکے نواحی گاؤں کوریاں میں مسیحی آبادی کی نہ صرف املاک تباہ کی گئی بلکہ ان کے گھروں کو آگ لگا دی گئی تھی جس میں کئی افراد زندہ جل گئے تھے۔حکومت پنجاب نے اس سانحے کی تحقیقات کے لیے لاہور ہائیکورٹ کے جج کی سربراہی میں ایک انکوائری ٹربیونل تشکیل دیا تھا جس نے دسمبر 2009 کو258 صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ پیش کی تھی۔
پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا ء اللہ نے تسلیم کیا کہ پولیس ابھی تک گوجرہ کے سانحے میں نامزد 29 ملزموں کو گرفتار نہیں کر سکی جن کی نشاندہی رپورٹ میں کی گئی تھی۔ اس واقعے میں ملوث افراد کا تعلق کالعدم لشکر طیبہ سے ہے اور ان کا مسلم لیگ نواز کی مقامی قیادت سے گہرا تعلق بھی ہے۔ حکومت ان مجرموں کو گرفتار کرنے کی بجائے لیت و لعل سے کام لیتی رہی اور وقت کے ساتھ ساتھ اب یہ معاملہ بھی داخل دفتر ہو چکا ہے۔
اخبارات میں جس انداز سے سلمان تاثیر کا جنازہ پڑھنے اور پڑھانے والوں کے متعلق جس طرح کے توہین آمیز زبان استعمال کی گئی ہے چاہیے تو یہ تھا کہ پنجاب حکومت فوری طور پر ان کو گرفتار کرتی مگر ایسا نہیں کیا جا رہا۔ میڈیا کا ایک بڑا حصہ جس طریقے سے ممتاز قادری کو ہیرو بنا رہا ہے وہ بھی ریاست کی مزید تباہی کی نشاندہی کرتا ہے۔حکومت بھی شاید ان کو گرفتار کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔
پنجاب حکومت جو مرکز سے تو گڈ گورننس کامطالبہ کرتی ہے اور انھیں ہر دو تین ماہ بعد الٹی میٹم دیتی ہے اس کو چاہیے کہ وہ پہلے خود گڈگورننس کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوری طور پر ان عناصر کو گرفتار کرے جو پنجاب میں سلمان تاثیر کے قتل کے فتوے دیتے رہے ہیں اور اب ممتاز قادری کو ہیرو بنا رہے ہیں۔
ماہنامہ نیا زمانہ ۔ فروری 2011