مسعود منور
مذہب بھی ایک کہانی ہے ور لادینیت بھی ایک کہانی ۔ پرانے لوگوں کی کہانیاں ۔ اساطیر الاولین ۔ پرانے لوگوں کی کہانیاں ۔ رشیوں ، مُنیوں اور تارک الدنیا لوگوں کی تراشیدہ حکایتیں ۔ یہ حکایتیں کچھ لوگوں کے دل کو لگتی ہیں اور کچھ لوگوں کے سینوں میں گولی کی طرح لگتی ہیں مگر لگتی ضرور ہیں ۔ مگر مجھے دیکھو ، میں محوِ عبادت ہوں ؛
دو رکعت نماز اندھیرا
جو حال اُمّت کا ، وہی حال میرا
میں جب کبھی دریائے درامن کے کنارے بگلوں کو پانی کی سطح پر قلابازیاں لگاتے دیکھتا ہوں ، تو اُن کی دیکھا دیکھی میں بھی دل دریا میں غوطہ لگا دیتا ہوں حالانکہ میں بگلہ نہیں ہوں مگر بگلے سمجھتے ہیں کہ وہ مجھ جیسے درویش ہیں ۔ بگلوں کی بھی آدمیوں کی طرح بہت سی قسمیں ہیں ۔ پرانی اردو میں بگلا بھگت کا ایک تصور تھا کہ وہ ایک آنکھ بند کر کے ، ایک ٹانگ تہ کر کے مراقبے میں چلا جاتا ہے اور مچھلی کے سطحِ آب پر طلوع ہونے کا انتظار کرتا ہے اور جیسے ہی مچھلی نے سر نکالا ، بھگت نے اپنی بھگتی تیاگی اور کسی دہشت گرد کی طرح مچھلی کی ٹارگٹ کلنگ کر دی ۔
مجھے پتہ نہیں کہ بگلے کا مذہب کیا ہے لیکن اپنے بارے میں مجھے یقین ہے کہ میں موحد ہوں نہ مُلحد ۔ مجھ سے آج تک یہ ممکن ہی نہیں ہوا کہ میں کسی مذہبی فرقے کے عقائد کا کُرتا پاجامہ پہن سکوں کیونکہ مجھے تو سارے مذاہب ایک ہی طرف جاتے لگتے ہیں ۔
قدیم چینی مذہبی دانشوروں کا خیال تھا کہ خُدا کی طرف جانے والے راستوں کی تعداد بہتر ہے ۔ شاید تابعین نے انہی بہتر راستوں کی نسبت سے بہتر فرقے وضع کر لیے ہیں ۔ مجھے مذاہب میں جو بات اچھی لگتی ہے وہ اُن کے وہ قوانین ہیں جو مٹی کو سونا بنانے یعنی آدمی کو بہتر انسان بنانے کے لیے نافذ کیے جاتے ہیں۔
مگر ہم مسلمانوں کو تو بہتر انسان کی بجائے ایک اعلیٰ قسم کا سلفی وہابی بننا ہے ، طالبان سپاہی بننا ہے ، ملامتی صوفی بننا ہے اور علی کا ملنگ بننا ہے ۔ چنانچہ ہم مذہب کے گرین روم میں حسبِ کردار میک اپ کر کے عقائد کے کپڑے پہن لیتے ہیں اور جو چاہتے ہیں وہ بن جاتے ہیں ۔ جیسے میں ایک ماڈرن ملامتی ملنگ ہوں ۔
میم جمع میم جمع میم برابر ہے م ۳ کے ۔ یہ میرا خود تخلیقی فارمولا ہے مگر یہ فارمولا بگلوں کی سمجھ میں بالکل بھی نہیں آتا ۔ وہ مجھے اِپسیلون پُل کے داہنی جانب دریا کنارے رکھی پتھریلی چٹان پر بیٹھے دیکھ کر پروں سے تالیاں بجاتے ہیں اور تیز کاٹ دار آواز میں مجھ پر آوازے کستے اور خوب ہوٹنگ کرتے ہیں ۔
ایک بگلے نے تو میرے کان کے پاس سے گزرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ بہتر مذہبی راستوں میں سے ایک راستہ خُدا کا بھی ہے اور ہونا بھی چاہیے ۔ اگر تم ملحد ہو ، تب بھی اپنی نام نہاد مذہبی معاشرت میں نکاح ، شرعی طلاق ، حلالہ ، ختنہ ، جنازہ ، قل اور چالیسویں کی زنجیریں توڑنے کی تم میں تاب یا مجال نہیں ۔
لیکن یاد رکھو کہ اگر تمہیں ایک شریف شہری بننا ہے تو نون لیگ کے ممبر بن کر تم شریف ہر گز نہیں بن سکتے ۔ شریف شہری وہ ہوتا ہے جو کرپٹ ، بے ایمان ، ٹیکس چور ، بھتہ خور ، بجلی چور ، زکوٰۃ چور ، جمہور کے حقوق کا غاصب اور فضول خرچ کنجوس نہ ہو ۔
شریف بننےکے لیے باہمی محبت ، رواداری اور عدل و انصاف کے قوانین کی پابندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور قوانین کی پابندی ملکی آئین کی دفعات اور شقوں کی جگالی اور فقہ و شریعت کے مواعظ کہنے اور سننے کی ذہنی خود لذتی کا نام نہیں بلکہ قانون کی پابندی تو عملی تجربے کو کہتے ہیں ۔
عملی تجربے کا تقاضا ہے کہ آپس میں محبت کر کے دکھائو ، مل بانٹ کر کھائو ۔ ایک دوسرے کو مخاطب کرتے ہوئے ” اوئے ” کے بعد ماں اور بہن کی دے کر مت پکارو ۔ سچ مُچ کی مسکراہٹ کے ساتھ آپس میں ہاتھ سے ہاتھ اس طرح ملائو کہ دو دستی خلوص مل کر ایک اٹوٹ سچائی بن جائے ۔
باہمی انسانی تعلقات ایک سیکولر مضمون ہے جس میں مذاہب کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔ کوئی ساس کسی بہو کو فقہ کے کسی کلیے کے مطابق ذہنی اذیت نہیں دیتی ۔ کوئی بھی شوہر کسی دوسرے کی بیوی پر شرعی عقیدے کی رو سے نظر نہیں ڈالتا ۔ کھڑکیوں میں تاک جھانک ،گمنام ٹیلی فون کالز کے ذریعے ٹھرک جھاڑنا ، فیس بک پر جعلی شناخت کے ذریعے اپنی چیل کو کوئل بنا کر پیش کرنا ، دوستوں کی بے عزتی کرنا ، اہلِ محلہ کے بارے میں بیہودہ داستانیں گھڑنا یا اکیلے بیٹھ کر خود لذتی کا تجربہ کرنا سب سیکولر رویے ہیں ۔ چنانچہ مذہبی فرقے سے وابستہ لوگ مزاجاً سیکولر ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی جو فرقہ وارانہ درگت بناتے ہیں وہ بھی سیکولر ہی ہوتی ہے ۔
بہت سے لوگ خود کو موحد کہتے ہیں اور خُدا پر یقین رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر وہ نہیں جانتے کہ خُدا کون ہے ۔ خُدا اُن کے لیے ایک قدیم روایت ہے جو سینہ بہ سینہ چلی آ رہی ہے ۔ اُنہیں بتایا گیا کہ بنی اسرائیل کے نبیوں نے حتمی سچائی یا حقیقتِ اولیٰ کو خُدا کا نام دیا تھا ، جب کہ دوسری تہذیبوں میں بشمول زرتشتی ، چینی ، ہندی ، جنوبی امریکی اور قدیم سکینڈے نیویا کے نورون مذہب کے تصورات ، ابراہیمی مذاہب کے خدائے واحد کے تصور سے جُدا ہیں ۔
ابراہیمی مذاہب مسلسل زور دیتے ہیں کہ خُدا ہی واحد سچائی ہے اور باقی سب جھوٹ ہے ۔ یہ مذاہب عقائد کے چوغے تیار کرتے ہیں کیونکہ اُن کے نزدیک آدمی عقائد کے کپڑوں کے بغیر ننگا ہے ، کوئی اُن عقائد پر عمل کرے نہ کرے ، کپڑے پہنے نہ پہنے مگر عقائد کے کاغذی ملبوسات ضروری ہیں خواہ ایک مذہب دوسرے مذہب کے عقائد کا مذاق ہی کیوں نہ اُڑائے لیکن جب مذاہب کو خطرہ محسوس ہو تو تمام مذہب پسند ، مذہب مخالف روس کے خلاف یک جا ہو جاتے ہیں اور اُن سے لڑنے کے لیے قسم قسم کی جہادی فوجیں تیار کر کے زمین کوجیتا جاگتا دوزخ بنا دیتے ہیں ۔
اس عقیدہ جاتی کنفیوژن میں جب میں اپنے دونوں کانوں پر ہاتھ رکھ کر بھانت بھانت کی آوازوں کے شور سے بچنے کی کوشش کرتا ہوں تو ایک فقیر کی آواز مجھے سب سے الگ لگتی ہے جو میرے دل کو بھاتی ہے ۔ وہ آواز ہے خواجہ معین الدین چشتی علیہ رحمت کی آواز ۔ فرماتے ہیں :۔
” جو اسلام آدمی کو خُدا سے نہ ملا سکے وہ عین کفر ہے اور جو کفر آدمی کو خُدا سے ملادے وہ عین اسلام ہے ” ۔
مگر کون خُدا اور کیسا اسلام؟؟؟؟؟؟
♦
One Comment