ذوالفقار علی زلفی
سنہ2014 میں معروف اور لیجنڈ مصور، راجہ روی ورما ،کی زندگی پر مبنی فلم ریلیز ہوئی “رنگ رسیا“….۔
اس فلم میں دکھایا جاتا ہے کہ راجہ روی ورما پہلی دفعہ انگریزوں کی بنائی ہوئی فلم سینما پر دیکھ کر چونک جاتے ہیں اور حیرت سے کہتے ہیں “چلتی پھرتی تصویریں , یہ کیسے؟؟“….اس کیسے کا جواب انہیں ایک نوجوان سے ملتا ہے جو سینما کے بارے میں کافی معلومات رکھتا ہے،مصور نوجوان سے پوچھتا ہے،پھر تم خود کیوں فلم نہیں بناتے؟…نوجوان سرمائے کی کمی کا رونا روتا ہے بعد ازاں راجہ روی ورما اس نوجوان کو کچھ پیسے دے کر کہتا ہے،جاؤ فلم بناؤ…..۔
مذکورہ نوجوان, پھالکے ہے جنہیں احترام کے ساتھ دادا صاحب کے نام سے پکارا جاتا ہے….
دادا صاحب نہ صرف ہندوستان بلکہ تکنیکی طور پر پاکستانی سینما کے بھی باوا آدم ہیں….
انہوں نے ہندوستان کی پہلی مکمل فیچر فلم “راجہ ہریش چندر” بنائی جو 03 مئی 1913 کو سینما پر پیش کی گئی….
دادا صاحب پھالکے کا جنم دھنڈی راج گوند پھالکے کے نام سے مہاراشٹر کے قصبے “تریمبکشور” میں 30 اپریل 1870 کو ہوا….وہ ذات کے برہمن تھے اور یہ ذاتی تعلق ان کی بنائی گئی فلموں سے بھی جھلکتا ہے….ابتدائی تعلیم کے بعد ان کے شوق کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے والد نے ان کو ممبئی کے جے.جے آرٹس کالج میں داخل کرادیا۔
اسی دوران ان کو ایک گرافک فوٹو اسٹوڈیو میں ملازمت مل گئی….یہ ملازمت “جیسے ویرانے میں بہار آجائے” ثابت ہوئی…..اس دوران انہوں نے اسٹیج بنانا ، جادو کے کرتب دکھانا ، مصوری ، فوٹو گرافی کے کیمیکل بنانا وغیرہ بھی سیکھا اور یہ سب آگے چل کر لازوال دولت ثابت ہوئیں….
اس زمانے میں دادا صاحب کو فلموں کی کوئی خبر نہ تھی مگر یہ حسین حادثہ بھی ہونا تھا….1910 کا اواخر تھا ، انگریز کرسمس منارہے تھے….دوستوں نے کرسمس شو دیکھنے کا ہروگرام بنایا ، وہ بھی ساتھ ہولیے….”لائف آف کرائسٹ” شو میں اس امریکی فلم کو دیکھ کر وہ ہکا بکا رہ گئے ، ان کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا…..حیرتوں کے سمندر سے نکلے تو تحقیق میں جت گئے ، تحقیق سے یہ ٹھان کر نکلے رامائن اور مہابھارت کی داستانوں پر مشتمل فلمیں بنائیں گے…..
معروف پینٹر راجہ روی ورما کے دیے پیسوں سے جدید مشینری خریدنے جرمنی چلے گئے…..اس دوران وہ لگاتار سینما جاتے رہے اور اس فن کی باریکیوں اور تیکنیک کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہے….انہوں نے پانچ ڈالر کا جدید کیمرہ خرید کر اس کیمرے کی مدد سے بالآخر ایک ڈاکومینٹری تیار کرلی….یہ ڈاکو مینٹری مٹر کے پودے کے ارتقا سے متعلق تھی….اس فلم سے انہیں جو آمدنی ہوئی اس سے وہ انگلینڈ چلے گئے….یہ 1912 کا اوائل تھا….
انگلینڈ کا سفر بابرکت ثابت ہوا….جب لوٹے تو تجربات ، معلومات اور جدید سازوسامان سے لدےپھندے تھے…..ہندوستان واپس آکر انہوں نے “راجہ ہریش چندر” بنانے کا دھماکہ خیز اعلان کردیا…..
فلم بنانا تو خیر آج بھی مشکل ہے مگر اس زمانے میں یہ جوئے شیر لانے کے مترادف تھا….پہلی مصیبت ، سرمائے کا حصول….اس کا حل انہوں نے بیوی کے گہنے گروی رکھ کر نکالا…..دوسرا مسئلہ اداکاروں کی دستیابی تھا…اس زمانے میں ہندوستان صرف تھیٹروں سے آشنا تھا فلم بالکل نئی اور الگ چیز تھی ، جیسے تیسے کرکے انہوں نے اداکار تو جمع کرلیے مگر اداکارہ کے حصول میں وہ مکمل طور پر ناکام رہے حتیٰ کہ طوائفوں نے بھی فلم میں کام کرنے کو درخورد اعتنا نہ سمجھا بادل نخواستہ ہیروئن کیلئے انہوں نے ایک مرد، اے.سالنکے کو راضی کرلیا….دیگر تکنیکی مسائل مثلاً کیمرہ ، ایڈیٹنگ ، اسکرپٹ ، ڈائیلاگ ، پروڈکشن وغیرہ بھی آڑے آئے یہ سب انہوں نے خود کیے ، کوئی دوسرا تو تھا بھی نہیں……
جوش اور جنون نے مل کر “راجہ ہریش چندر” کو سینما کے پردے پر پیش کردیا….چونکہ بولتی فلموں کی تکنیک کو ابھی کئی سالوں تک ہندوستان سے دور رہنا تھا سو یہ ایک خاموش فلم ہے ، ایک شخص پردے کے پاس کھڑے ہوکر اداکاروں کے اشاروں کا مطلب سمجھا دیتا ، قصہ ختم….
اس فلم میں ٹرک فوٹوگرافی کا استعمال کیا گیا تھا جو بعد ازاں دادا صاحب کا ٹریڈ مارک بن گیا..چونکہ وہ برہمن تھے اور بچپن سے ہی مذہبی ماحول میں پلے بڑھے تھے اس لیے ان کی تمام تر فلمیں ہندو مذہب کے گرد گھومتی ہیں..ٹرک فوٹو گرافی کے ذریعے بھگوان کا اڑنا ، ہنومان کا دم سے آگ نکالنا ،جادو ، کرشمہ ،محیرالعقول واقعات نے فلم بینوں کی توجہ کھینچ لی….
راجہ ہریش چندر کی کامیابی سے حوصلہ پاکر انہوں نے فلموں کی لائن لگادی….ان کی دوسری فلم “بھسما سر موہنی” عورت گریز نہ رہی ، انہیں ایک نہیں دو خواتین کا سہارا مل گیا….درگا بائی کھوکھلے نے پہلی بار پاروتی کا کردار نبھایا جبکہ ان کی بیٹی کملا بائی نے موہنی کا…..
پھالکے کی کامیاب ترین فلم “لنکا دہن” کو قرار دیا جاتا ہے جو رام اور سیتا کی کہانی ہے اس فلم نے محض دس دن میں 32 ہزار روپے کا بزنس کیا ،
چونکیے مت ، 1917 میں بتیس ہزار روپے کچھ کم نہیں ہوتے تھے…..اس فلم کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اے.سالنکے نے رام کا کردار بھی ادا کیا اور سیتا ماتا بھی بنے گویا ایک طرح سے یہ ڈبل رول کی پہلی روایت ہے…..
پھالکے نے اپنی بیٹی منداکنی کو بھی فلموں میں بطور ہیروئن لاؤنج کیا….1919 کی فلم “کالیا مرن” میں پہلی بار منداکنی نے اداکاری کے جوہر دکھائے…..
انہوں نے درجنوں فلمیں بنائیں ، خاموش مگر بھرپور ، ذات پات کے نظام ،چھوت چھات کی سماجی بیماری ، فرقہ پرستی اور مذہبی تنگ نظری کیخلاف انہوں نے کیمرے کا بھرپور بلکہ شاید آج کی زبان میں انقلابی استعمال کیا….
دادا صاحب پھالکے نے جس کام کا آغاز کیا تھا اسے 14 مارچ 1931 کو ایک نیا موڑ دیا فلم “عالم آرا” کے ڈائریکٹر اردشیر ایرانی نے ،
اردشیر ایرانی نے بے زبان فلموں کو عالم آرا کے ذریعے زبان سے نوازا ، یہ ہندوستان کی پہلی بولتی فلم اور پھالکے کے خوابوں کی تعبیر ثابت ہوئی مگر اس وقت تک پھالکے برباد اور تہی دست ہوچکے تھے….
ان کی مالی حالت خستہ ہوگئی ، پریشانیوں نے چہار جانب سے ان کو گھیر لیا…بھوک نے ان کے گھر پر ڈھیرے ڈال دیے ,،وہ پائی پائی کے محتاج ہوگئے……انہوں نے وہ وقت بھی دیکھا جب وہ ممبئی کے رنجیت اسٹوڈیو میں ملازمت کی خواہش لے کر گئے ،ملازمت بھی کیا ، کیمروں کی صفائی اور تیل ڈالنا، پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ، ہندوستانی سینما کے باوا ،دادا صاحب پھالکے کو دھکے مار کر نکال دیا گیا…..بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے……
لیجنڈ ہدایت کار گرودت نے اس واقعے کو “کاغذ کے پھول” میں بڑے دردناک انداز میں دکھایا ہے…..
دادا صاحب پھالکے کی عظمت اور ان کے احسان کا اعتراف حکومت ہندوستان نے 1970 میں کیا ، جب ہندوستانی فلمی صنعت کے سب سے بڑے ایوارڈ “دادا صاحب پھالکے ایوارڈ” کا اجرا عمل میں آیا….
یہ ایوارڈ پہلی دفعہ “دیویکا رانی” کو دیا گیا ، آج ہندوستان کا ہر فنکار ، تامل ،تیلگو ، ہندی ، بنگالی ، پنجابی ہر انڈسٹری کا فنکار اس اعزاز کو پانے کی تمنا کرتا ہے…..بعد ازاں حکومت ہند نے ان کے نام کے ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیے اور متعدد سڑکوں کے نام بھی ان پر رکھے گئے…..
مگر ، بولتی فلموں کے خالق اردشیر ایرانی کو تاحال وہ مقام نہ ملا جس کے وہ متقاضی ہیں ، بعض افراد کا ماننا ہے کہ چونکہ اردشیر مسلمان ہیں اس لیے ان کی خدمت کا اعتراف نہیں کیا جاتا ۔
میں سمجھتا ہوں ایسا ہرگز نہیں ہے گر ایسا ہوتا تو دلیپ کمار ، نرگس ، مدھوبالا ، محبوب خان ، کے آصف ،مجروح سلطانپوری ، نوشاد ، محمد رفیع وغیرہ کو بھی احترام و عزت سے محروم رکھا جاتا….یہ صرف حکومت ہند کی نااہلی اور بے حسی ہے کہ اردشیر ایرانی دھند میں غائب ہیں….
چونکہ دادا صاحب تیکنیکی طور پر پاکستانی (اردو , پنجابی ،پشتو ، سندھی) فلمی صنعت کے بھی بانی ہیں اس لیے حکومت پاکستان کا رویہ بھی ان کے ساتھ مجرمانہ ہے….نہ صرف حکومت بلکہ پاکستانی فلم انڈسٹری نے بھی آج تک ان کی اس بے لوث خدمت ، جس کیلئے انہیں بیوی کے زیور گروی رکھنے پڑے کا اعتراف نہیں کیا , انہیں وہ مقام و مرتبہ نہیں دیا گیا جو ان کا حق ہے اور فلمی صنعت کا فرض…..
فادر آف انڈین سینما ، دادا صاحب پھالکے نے اپنی زندگی کے آخری ایام گمنامی میں گزارے اور کسمپرسی کی حالت میں 16 فروری 1944 کو اس جہان سے کوچ کرگئے مگر ان کا لگایا ہوا پودا آج ایک پھل دار درخت کی مانند معاشرے کو سایہ بھی فراہم کررہا ہے اور پھل بھی……..
درست کہا ہے کسی نے “سچے فنکار ہمیشہ زندہ رہتے ہیں“…….