بچپن سے ہم نے اپنی تدریسی کتب میں پاکستان بننے کی وجہ تسمیہ پڑھ رکھی ہوتی ہے ، ہماری تدریسی کتب نفرت کے علاوہ ہمیں عدم برداشت کا شکار عمر کے اس اہم موڑ پر کر دیتی ہیں جب ایک بچہ بیل کی ٹہنی
کی صورت ہوتا ہے جس کا جہاں رخ موڑ دیا جاۓ اسی سمت اگنا اور پھلنا پھولنا شروع کر دیتی ہے۔
یہ امر اکثر مسلم ممالک اور خاص کر پاکستان میں دیکھنے کو ملتا ہے کہ تدریسی کتب میں سے ایک اہم کتاب کا تعلق مذہب اسلام سے ہوتا ہے جس کو ہمارے ہاں دینیات یا اسلامک سٹڈیز کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ کتاب تدریس کے عمل کا پہلی سے پی ایچ ڈی تک تقریباً لازم قرار دی جاتی ہے ، حالانکہ دنیا میں کئی ایسے ممالک ہیں جہاں کی آبادی کا ایک بڑا حصہ کسی دوسرے مذہب یعنی ہندو یا مسیحیت تو ہے لیکن وہاں تدریسی عمل میں مذہب کو اہم جز نہیں بنایا جاتا۔
میں نے اکثر روسی اساتذہ سے اس بارے میں بحث اور بات کی ، مجھے یہ بتایا گیا کہ ریاست مذھب یا عقیدے کو تدریسی عمل میں اس لئے شامل اس لئے نہیں کرنا چاہتی کیونکہ ریاست یہ سمجھتی ہے کہ عقیدہ یا مذہب ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک لڑکا یا لڑکی سفید رنگ کے کپڑے پہنے اور دوسرا لڑکا یا لڑکی لال رنگ کو پسند کرے ، لہذا ریاست کسی بچے پر سکول کے شروع سے اختتام تک اپنی مرضی کا عقیدہ یا مذہب صادر کرنا صحیح نہیں سمجھتی ، یہ بات الگ ٹھہری کہ بچے کی تربیت کرنے والا کنبہ اور جس معاشرے میں بچہ رہتا ہے ظاہری سی بات ہے اسکا اثر اس پر لازم دکھائی دیتا ہے۔
آئین پاکستان کی شق نمبر انیس ہر شہری کو آزادی اظہار کا حق دیتی ہے اور اگلی ہی شق یعنی آئین پاکستان کی شق نمبر بیس ہر شہری کو آزادی مذہب جیسے بنیادی حق سے نوازتی ہے ، اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا تدریسی عمل میں ایک بچے کو دینی کتب پڑھانا ،چاہے وہ اسلام کے علاوہ کسی بھی اور دین کے بارے میں ہو، شق نمبر بیس کی خلاف ورزی نہیں۔
مجھ جیسے ادنیٰ راقم کو افسوس تو اس بات پر ہے کہ ہمارا معاشرہ ایک عجیب کشمکش میں مبتلا ہے ، ہمارے ہاں ایک طبقے کو جو اکثریت میں ہے اتنی مذہبی آزادی حاصل ہے کہ جس سے اس کی دوسروں کے خیالات ، سوالات اور عقیدوں کو جذب کرنے یا برداشت کرنے کی قوت فوت ہو چکی ہے ، ہمیں اس فوت ہوتی ہوئی قوت برداشت کو واپس لانا ہے ۔
اس اکثریت والے طبقے کو آخر یہ سمجھنا ہو گا کہ انکے علاوہ بھی لوگ ہیں جو انکے اس پاس رہتے ہیں اور اس قوت برداشت کو اجاگر کرنے اور پھلنے پھولنے میں اہم کردار سب سے پہلے حکومت کو کرنا ہو گا ، یعنی ایسے قوانین اور لائحہ عمل تیار اور نافذ کرنا ہو گا جس سے لوگوں کو یہ باور کروایا جا ئے کہ آپ ہی کے ہمسایہ میں ایک شخص ایسا بھی ہے جو ایسی باتوں پر یقین نہیں رکھتا جن پر آپ یقین رکھتے ہیں۔
پاکستان کے سنی ، شیعہ ، وہابی ، دیو بندی اور دوسرے اہم اکثریت والے طبقات کو یہ بات انٹرنیٹ اور سماجی ویب سائٹس کی بدولت پہلے سے ہی معلوم ہو چکی ہے کہ پاکستان میں ایک طبقہ ایسا بھی ابھر چکا ہے ، اور وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ رہا ہے جو مسلمانوں کے عقیدے کے عین الٹ ہے اور ایسا عقیدہ رکھنے کا حق ان کو بطور انسان اور پاکستانی بین الاقوامی اور پاکستانی قوانین پہلے سے ہی دے چکے ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ پاکستان میں بسنے والے سابقہ مسلمانوں کا بھی یہ فرض ہے کہ اگروہ اپنے آپ کو مسلمان نہیں سمجھتے تو مذہب کے بارے میں کم علم حضرات کے ساتھ بحث اور غیر ضروری رائے سے اجتناب کریں ، اور آخر میں ہم سب ایک مرتبہ یہ سوچیں کہ کیا کسی کا عقیدہ ہمارا مسئلہ ہے ؟ ہم سب پیار اور محبت کے پیاسے ہیں ، ہمیں ایک دوسرے کے ذاتی عقیدے کو پیچھے رکھ کر سوچنا ہو گا ، آئیں ہم بریلوی ، سنی ، شیعہ ، احمدی ، ہندو ، وہابی ، دیوبندی ، عیسائی ، پارسی ، زرشتی اور یہودی اپنے اپنے لئے بنیں نہ کہ دوسروں پر مسلط ہونے کے لئے ، بس اتنا ہی کہنا ہے کہ
مابین عقائد کی جنگ بند کیجئے، خود کو انسانیت کا پابند کیجئے
♥