انٹرویو: ذوالفقار مانک
سید حیدر فاروق موددی، جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی کے فرزند ہیں۔ لاہور میں قیام پذیر ہیں اور اخبارات میں کالم لکھتے ہیں۔69 سالہ حیدر فاروق مودودی سابقہ پائلٹ ہیں اور انگلش میڈیم سکولز میں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود انگریزی میں گفتگو کرنے سے انکار کر دیا۔ اکتوبر کے اوائل میں وہ بنگلہ دیش آئے جہاں انہوں نے ’’ڈھاکہ ٹریبیون‘‘ سے جماعت اسلامی کی برصغیر میں سیاست ، سیاسی اسلام ، ریاست اور مذہب اور بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کے ٹربیونل سے متعلق گفتگو کی۔
سوال:آپ کے والد جماعت اسلامی کے بانی تھے۔ آپ یا آپ کے بہن بھائی کبھی جماعتی نظم و ضبط سے متعلق رہے؟
جواب:نہیں، ہم نے کبھی بھی کسی قسم کی سیاست میں حصہ نہیں لیانہ جماعت اسلامی یا کسی اور سیاسی جماعت میں۔ حقیقت یہ ہے مولانا مودودی نے ہمیں کبھی سیاست میں آنے نہیں دیا۔ اب ان کے ذہن میں کیا تھا ہمیں علم نہیں نہ صرف میرے والد بلکہ جماعت اسلامی کے کسی بھی رہنما کو دیکھ لیں ان کے بچے سیاست میں نہیں آتے اور نہ ہی وہ اپنے بچوں کو سیاست میں لانے کی کوشش کرتے ہیں۔
سوال: بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب: جماعت اسلامی کو بنگلہ دیش میں سیاست کا کوئی حق حاصل نہیں ہے خاص کر کے جب انہوں نے اس کے قیام کی مخالفت کی ہو۔ ان کا سیاست میں حصہ لینے کا کوئی حق نہیں اور نہ ہی انہیں یہ حق دینا چاہیے۔لیکن صورتحال مختلف ہے اور میرے خیال میں یہ آپ کے رہنماؤں کا قصور ہے جنہوں نے بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد جماعت اسلامی کو سیاست کرنے کا حق دیا۔اگر آپ نے انہیں سیاست جاری رکھنے کا حق دیا ہے تو پھر آپ کو یہ حقیقت قبول کرنی چاہیے کہ مذہب کے نام پر سیاست کیا ہوتی ہے؟ سوال یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں اس صورتحال کے پیچھے کون ہے؟
آپ اپنا آئین دیکھیں۔ شیخ مجیب الرحمن جو آئین چھوڑ کر گئے اب اس کا کوئی وجود نہیں ۔یہ کیسے ہوا؟ کس نے تبدیل کیا؟ آپ کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے ۔ بنگلہ دیش کے عوام نے ان (جماعت اسلامی) کو ووٹ نہیں دیا تھا ۔ ان کو 1970 میں عوامی حمایت حاصل تھی اور نہ آج حاصل ہے۔ تقریباً ان تمام امیدواروں کو انتخابات میں بھاری شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور پڑتا ہے ۔ حتیٰ کہ ان کو اتنے کم ووٹ ملتے ہیں کہ یہ اپنی ضمانتیں ضبط کر الیتے ہیں۔
کیا شیخ مجیب الرحمن نے جماعت پر پابندی نہیں لگائی تھی؟ پھر کس نے ان کو سیاست میں آنے کی اجازت دی؟ آپ لوگ اپنے ملک میں رہتے ہیں آپ کو سوچنا چاہیے؟ جب تک آپ کو یہ معلوم نہیں ہوگا کہ وہ کون سی قوت ہے جو جماعت اسلامی کی مدد کرتی ہے تو آپ مسئلے کی جڑ تک نہیں پہنچ سکتے۔
اگر آپ کا خیال ہے کہ جنگی جرائم کے مرتکب افراد کا ٹرائل انہیں کمزور کررہا ہے تو آپ غلطی پر ہیں۔ یہ ان کے لیے کسی رحمت سے کم نہیں ۔ یہ لوگ عوام میں جائیں گے اور دعویٰ کریں گے کہ ہمیں اسلام سے محبت کی سزا دی جارہی ہے ۔ یہ اسلام کے نام پر لوگوں کے جذبات سے کھیلیں گے اور جنگی جرائم کے نام پر سیاست کریں گے۔
سوال:کیا سیاست میں مذہب کا استعمال ہونا چاہیے؟ خاص کر اس خطے یعنی برصغیر میں؟
جواب:جب بھی سیاست میں مذہب کا استعمال کیا جائے گا یہ قتل و غارت کا باعث ہوگا ۔ انسانیت تباہ ہو جائے گی۔ مذہب انسان کو بہتر بنانے میں مدد کرتا ہے ہر مذہب چاہے وہ بدھ ازم ہو یا ہندو ازم، سکھ ازم ہو یا اسلام ، انسان کو انفرادی طور پر ایک اچھا انسان بنانے کی تعلیم دیتا ہے ۔ مذہب ہمیں سکھاتا ہے کہ ہمارے آباو اجداد اکٹھے تھے اور ہمیں ان سے نفرت نہیں کرنی چاہیے ۔ قرآن حکیم سیاست کی بات نہیں کرتا۔ وہ ایک فرد سے مخاطب ہے کہ اسے کتنا اچھا ہونا چاہیے۔
قرآن حکیم میں کہیں بھی اس بات کا ذکر نہیں ملتا ہے کہ آپ نے لوگوں پر حکمرانی کیسے کرنی ہے ۔ قرآن بندے کو انفرادی حیثیت میں مخاطب کرتا ہے۔ ایک فرد سے مخاطب ہوتا ہے نہ کہ کسی انتظامی صورتحال سے نمٹنے کی بات کرتا ہے۔اگر یہ انسانوں پر حکومت کرنے کی بات کرتا تو کم ازکم نو(۹) امور کے متعلق وہ واضح بیان کرتا ۔ خلیفہ کیسے مقرر کیا جائے، خلیفہ کو کیسے( اقتدار سے) ہٹایا جائے؟ خلیفہ کو کتنے اختیارات ہونے چاہییں؟ شوریٰ کیسے بنائی جائے؟ شوریٰ کیسے تحلیل کی جائے؟ شوریٰ کے پاس کس قسم کے اختیارات ہوں ؟ خلیفہ اور شوریٰ کے درمیان تعلقات کی نوعیت کیا ہو؟کسی جھگڑے کی صورت میں کب خلیفہ اپنے اختیارات استعمال کرے اور کب شوریٰ ؟
لیکن قرآن میں ایسی کسی بات کا ذکر نہیں ملتا۔اگر اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے تو پھر خلیفہ اور شوریٰ کی حفاظت بھی کر سکتا تھا۔مذہب کی غلط تشریح کی جاتی ہے ۔ مذہب کا مقصد کسی ملک کو چلانا نہیں ہے ۔ مذہب کا سیاست میں استعمال اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ عوام کو بے وقوف بنا کر اپنا الو سیدھا کیا جائے ۔ لوگ انہیں مذہب کے نام پر ووٹ دیتے ہیں اور سیاستدان مذہبی جذبات سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔
جناح صاحب پہلے کانگریس کے رکن تھے ۔ 1931 میں خلافت تحریک کے دوران مہاتما گاندھی نے مولانا ابوالکلام آزاد کی تحریک کی حمایت کی تھی ۔ جناح نے کانگریس سے استعفیٰ دے دیا۔ جناح صاحب نے گاندھی کو خط لکھا کہ ’’تم سیاست میں مذہب کا استعمال کر رہے ہوجو خون خرابہ کا باعث ہوگا‘‘ لیکن افسوس کہ جناح نے پہلے مخالفت کی اور پھر وہی کچھ کیا۔ انہوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ بھارت اور پاکستان دو ملک بن گئے؟
پاکستان مذہب کی بنیاد پر علیحدہ ہوا۔ کیا یہ درست تھا؟ ہندوستان میں اس وقت سترہ قسم کے مذہب تھے تو پھر اسے سترہ حصوں میں تقسیم ہونا چاہیے تھا؟ کیا یہ خطرناک اقدام نہیں تھا؟ لیکن ہندوستان صرف ہندو اور مسلمان کی بنیاد پر تقسیم ہوا۔ کیا ہندوستان میں بدھسٹ ، سکھ پارسی سب ہندو تھے؟ جب مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہو گی تو پھر یہ تباہی ہی لائے گی۔
مذہب کی بنیاد پر سیاست کرنے والی تمامسیاسی جماعتیں ایک جیسی ہوتی ہیں ۔ مسلم لیگ کو ہی دیکھ لیں اگر مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ۔ یعنی اگر تم مسلم لیگ میں نہیں آتے تو تم مسلمان ہی نہیں۔ آپ اندازہ لگائیں کیسے مذہب کے نام پر عوام کے جذبات سے کھیلا جاتا ہے۔ لوگ آج بھی ان کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ اگر کوئی ان کی خامیوں کی نشاندہی کرے تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ آپ ان پر نہیں اسلام پر تنقید کر رہے ہیں۔کیا آپ نے کبھی ایسے مذہبی رہنما یا مُلا کو دیکھا ہے جو اپنی غلطی مانے؟ وہ مذہب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو پہلے دن سے جہنمی ہیں نہ کہ وہ لوگ جو مذہب کے نام پر سیاست کی مخالفت کرتے ہیں۔
سوال: ہم سب جانتے ہیں کہ اسلام ایک پرامن مذہب ہے لیکن 1971 میں جماعت اسلامی نے پاکستان کی فوج کے ساتھ مل کر مذہب کے نام پر جو قتل و غارت کا گھناؤنا کھیل کھیلا اس کے متعلق آپ کیا کہیں گے؟
جواب:جماعت اسلامی نے 1970کے عام انتخابات میں حصہ لیا لیکن وہ یہ انتخابات بری طرح ہار گئی۔ جس کے بعد فوج( پاکستان کی قبضہ گیر فوج) نے انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ البدر اور الشمس تنظیمیں پاک فوج نے بنائی تھیں۔ میرے گھر میں ایک اجلاس میں جنرل نیازی نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنماؤں کو کہا کہ ہم نے البدر اور الشمس بنائی ہیں۔ ہم تمہیں پیسہ بھی دیں گے تربیت دیں گے اوراسلحہ دیں گے۔ آپ کیسے دعویٰ کر سکتے ہیں کہ یہ آپ کے گروپ ہیں؟
البدر اور الشمس کے مقامی سربراہ مطیع الرحمن نظامی تھے ان کے سربراہ خرم جاہ مراد تھے اور کمیشن کی رپورٹ میں درج ہے کہ خرم جاہ مراد نے پندرہ بنگالیوں کو گولی ماری تھی۔ انہیں ایک لائن میں کھڑا ہونے پر مجبور کیا گیا ۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ تھری ناٹ تھری کی رائفل کام کرتی ہے کہ نہیں ۔ مذہب پسند رہنماؤں نے پاک فوج کے لیے کام کیا ۔ باڑے کے ٹٹو کی طرح۔
ان حالات کو سمجھنے کے لیے آپ کو تھوڑا پیچھے آئیں۔ تو پورا منظر نامہ واضح ہوگا ۔ روزویلٹ نے چرچل کو ایک خط لکھا تھا جس میں روزویلٹ نے چرچل کو کہا ’’ تم ہمیں کہہ رہے ہو کہ ہم دوسری جنگ عظیم میں آپ کی مدد کریں ٹھیک ہے ہم کر دیں گے کہ لیکن انڈیا کو کمزور کرنے کے لیے اسے دو فوجی ریاستوں میں بانٹ دیں‘‘۔ اس طرح آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہاں کس نے کیا کیا۔
سوال: وار کرائمز ٹربیونل ان لوگوں کے خلاف مقدمات کی سماعت کررہا ہے جنہوں نے 1971 میں جنگ آزادی میں انسانیت کے خلاف جرائم کیے تھے۔ اگر آپ ان کی فہرست دیکھیں تو ملزموں اور مجرموں کی بڑی تعداد کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے ۔ آپ کا کی کیا رائے ہے؟
جواب:جہاں بھی کوئی بھی شخص انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہو اسے ضرور سزا ملنی چاہیے۔ اگر ان لوگوں نے جرائم کیے ہیں تو انہیں ضرور سزا ملنی چائیے۔ مقامی ( بنگلہ دیشی) لوگوں کو چاہیے کہ ان کو سیاست میں حصہ نہ لینے دیں۔ انہیں سیاست میں آنے کی اجازت کس نے دی؟جیسے ہی شیخ مجیب الرحمن جاتے ہیں اس کے بعد جو جماعت اقتدار میں آئی اس نے انہیں استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اگر آج خالدہ ضیاء انتخاب لڑتی ہے تو جماعت اس کے پیچھے کھڑی ہو گی ۔ جہاں پیسہ ہو گا وہاں جماعت ہو گی۔ اور اگر یہ اقتدار میں آجائیں تو اس کے کیا نتائج ہونگے ؟ آپ اور میں بخوبی جانتے ہیں۔
سوال: کیا آپ جماعت اسلامی کی بنگلہ دیش اور پاکستان میں سرگرمیوں کا موازنہ کر سکتے ہیں؟ ان کی سرگرمیوں میں کیا چیز قدر مشترک ہے؟
جواب:دونوں ممالک میں یہ جماعتیں ایک ہی فرد کے دائیں اور بائیں بازو ہیں۔ ان کو ایک ہی سر(دماغ) کنٹرول کرتا ہے۔ ان کو دو سر کنٹرول نہیں کرتے ۔ چاہے یہ پاکستان میں ہو یا یا بنگلہ دیش یا بھارت میں۔ پاکستانی میڈیا جماعت اسلامی پاکستان کے علاوہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی خبریں بھی شائع کرتا ہے۔ جماعت اسلامی اطلاعات اور تعلیم کے شعبوں میں بہت فعال ہے۔ وہ ان شعبوں کو مکمل طور پر کنٹرول کر تے ہیں۔ اس لیے پاکستان میں بنگلہ دیش کی موجود ہ حکومت کے خلاف ہی خبریں شائع ہوتی ہیں۔ ان خبروں میں بتایا جاتا ہے کہ کیسے سیکولر بنگلہ دیش میں اسلامی ذہن رکھنے والے افرادکو زیادیتوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ وہ دعوے سے کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش میں اسلام کا نام لینے والوں کو سزائیں دی جارہی ہیں۔
سوال: وار کرائمز ٹربیونل میں اس وقت بنگلہ دیشی شہریوں پر جنگی جرائم کے مقدمات چل رہے ہیں ؟ آپ کا کیا خیا ل ہے کہ پاکستانی فوج اور غیر بنگلہ دیشی افراد جو جنگی جرائم میں ملوث رہے ہیں ہیں ان پر بھی بنگلہ دیش، پاکستان یا کسی عالمی عدالت میں مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔
جواب:جب بنگلہ دیش میں وار کرائمز ٹربیونل تشکیل دیا گیا اور اس نے ایک کیس میں فیصلہ دیا تو پاکستان میں جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے پریس کانفرنس کی اور پاکستانی حکومت کو کہا کہ وہ شیخ حسینہ واجد کے پاس اپنا سفیر بھیجے اور کہے کہ ’’ ہمارا شیخ مجیب الرحمن سے معاہدہ ہوا تھا کہ وہ جنگی جرائم کے مرتکب افراد کے خلاف مقدمات نہیں چلائیں گے۔ لہذا اب وہ ان پر مقدمہ کیوں چلارہے ہیں ؟ کیا یہ معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہے؟
اب میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ وہ معاہدہ کیا تھا؟ کیا واقعی شیخ مجیب کے ساتھ کوئی ایسا معاہدہ کیا گیا تھا کہ کسی کے خلاف جنگی جرائم کے تحت مقدمہ نہیں چلایا جائے گا؟ کیا انصاف کے لیے سزانہیں دی جائے گی؟
حقیقت یہ ہے کہ ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت پاکستان 195 افراد کے خلاف مقدمہ چلائے گا ۔ لیکن کبھی یہ مقدمہ چلا؟ جنرل نیازی جو کہ پاکستانی فوج کے مشرقی کمانڈ کے جنرل تھے ، رضا کارانہ طور پر 1971 کی قتل و غارت پر ایک ٹربیونل (حمود الرحمن کمیشن) میں پیش ہوئے اور کہا کہ میں توایک سیدھا سادھا آرمی افسر ہوں جو اپنے سینئرز کے احکامات بجا لاتا تھا۔ اگر ایک افسر کو اپنے سینئرز کے احکامات بجالینے پر مقدمے کا سامنا کرناپڑے گا تو پھر فوج کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ جنرل نیازی نے حمود الرحمن کمیشن کے روبرو جو چکھ کہا یہی کچھ ان کی بیٹی نے جنرل مشرف کے سامنے دہرایا تھا۔
لاہور میں ایک سیمینار میں جہاں جنرل(صدر) مشرف موجود تھے وہاں جنرل نیازی کی بیٹی نے کھڑے ہو کر سوال کیا کہ میرے والد کو ہراساں کیا جاتا تھا۔ ان کی پنشن روکی گئی، پراپرٹی پر قبضہ کر لیا گیا۔ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں لکھا ہے کہ جنرل نیازی نے کہا کہ ’’ میرے پاس جنرل گل حسن اور جنرل حمید کا ٹیلکس موصول ہوا اگر میں نے مشرقی پاکستان میں سرنڈر نہ کیا تو مغربی پاکستان ہار جائے گا۔ مجھے بتائیے کہ کیا میں اپنے سینئرز کے احکامات پر عمل نہ کروں۔ اگر آپ مجھ پر الزام لگا رہے ہیں کہ 1971میں میں نے اپنے طور پر کوئی فیصلہ کیوں نہ کیا تو پھر فوج کے ادارے کو تحلیل کردینا چاہیے جس کی بنا پر مجھے قصور وار ٹھہرایا جا رہا ہے۔آرمی میں کچھ لوگ تھے جنہوں نے بنگلا دیش کی جنگ میں حصہ لینے کی بجائے استعفیٰ دے دیا تھا ان میں لیفٹینٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب علی خان بھی تھے۔ ان کو تو سینئرز کا حکم نہ ماننے کی کوئی سزا نہیں دی گئی بلکہ وزیر اعظم بھٹو نے انہیں اپنا وزیر خارجہ مقرر کر دیا تھا۔ جبکہ مجھے(جنرل نیازی) احکامات ماننے کی پاداش میں کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑا۔
ان کا نقطہ نظر بڑا واضح تھا کہ کورٹ مارشل کرنے کی اصل وجہ کیا ہے؟ آپ کو سوچنا ہے کہ اس تمام قتل و غارت کے پیچھے وہ کون سی طاقت تھی جو عوام کے مذہبی جذبات سے کھیل رہی تھی ۔ بعض اوقات یہ مذہبی لوگ اس طاقت کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔ البدر اور الشمس کے جو ارکان بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد پاکستان چلے گئے وہ آج کیا کر رہے ہیں؟ وہ بھیک مانگ رہے ہیں۔ وہ بھی اس سیاست کا نشانہ بنے۔ اس وقت کوئی ایک شخص کسی کے لیے خطرہ نہیں بلکہ ایک ادارہ ہے جو مذہب کے نام پر لوگوں کو بے وقوف بنا رہا ہے۔
سوال: کیا جماعت اسلامی(پاکستان) کو بھی 1971 کی قتل و غارت کے جرم میں مقدمات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟ آپ اسے کیسے دیکھتے ہیں؟
جواب: جہاں تک (پاکستان کی) جماعت اسلامی کا تعلق ہے تو انہوں نے 1971 میں جو کچھ کیا اس پر انہیں کوئی شرمندگی نہیں بلکہ وہ اس پر فخر کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے جو کچھ کیا اسلام کی سربلندی کے لیے کیا۔ وہ اسلامی ریاست مانگتے ہیں اور سیکولر ریاست کے خلاف ہیں۔ وہ عوام سے اسلام کے نام پر ووٹ مانگتے ہیں ۔ سیکولر لفظ کو تو انہوں نے گالی بنا کر رکھ دیا ہے۔
جماعت اسلامی کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ انہوں نے لفظ سیکولر کو ’’لادین‘‘ بنادیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مذہب کا مخالف جبکہ سیکولرازم تو ایک رویہ ہے جس کا مطلب ہے اپنا چھوڑو نہیں ، دوسرے کو چھیڑو نہیں۔ لیکن جماعت اسلامی کہتی ہے کہ اسلام کے علاوہ کوئی بھی دوسراسیاسی نظریہ ختم ہو جانا چاہیے۔
امریکہ کو بھول جائیں جو یہ کہتا ہے کہ سزائے موت انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ہمارے یہاں تو ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ اگر وہ اقتدار میں آگئے تو وہ اپنے مخالف کو ختم کر دیں گے۔ ان کے بارے میں سوچیں۔ ان کے خلاف جو بات کرتا ہے وہ یا تو بھارتی ایجنٹ ہے یاسیکولر یا اسلام کے خلاف۔
جب سے خالدہ ضیاء کے شوہر ضیاء الرحمن نے (بنگلہ دیش کی) آزادی کی جنگ میں حصہ لیا تو خالدہ ضیاء کو سوچنا چاہیے کہ جو بنگلہ دیش کے قیام کے خلاف تھے ان سے علیحدہ ہونا چاہیے ۔
سوال: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ جماعت اسلامی جیسی جماعت نے اس خطے پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش میں انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کو فروغ دیا ہے۔
جواب: ان کا تمام کام ایک ہی جانب جاتا ہے انہوں نے اسلام کو متنازعہ بنادیا کسی کو یہ حق حاصل نہیں وہ یہ فیصلہ کرے کہ کون زیادہ اسلامی ہے اور کون کم اسلامی۔ ان کی سیاست نے پاکستان میں بھٹو دور میں ایسی صورتحال کو جنم دیا جب ’’اسلام مردہ باد‘‘ کا نعرہ بھی لگا۔ اس طرح کی صورتحال کی ذمہ داری مذہبی جماعتوں کی سیاست کی مرہون منت ہے کیونکہ اسلام کا سیاسی استعمال ہو تو لوگوں میں اسلام سے نفرت جنم لیتی ہے ۔
سوال: آپ اسلامی ریاست اور سیکولر ریاست کو کیسے دیکھتے ہیں؟
جواب: اگر کسی ریاست کا مذہب اسلام ہو جیسا کہ کہا جاتا ہے پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا تو پھر اس ملک میں طالبان ہی کو حکمرانی کا حق حاصل ہے۔ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہونا چاہیے مذہب لوگوں کے لیے ہوتا ہے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ مذہب ایک شخص کو بہتر بنا تا ہے ۔ ریاست ایک چھت ہے جس کے تلے مختلف مذاہب کے لوگ رہ سکتے ہیں۔
اگر کسی ریاست کا مذہب ہو تو پھر تشویشناک صورتحال ہے۔ اگر کوئی ملک جمہوری عمل پر یقین رکھتا ہے تو پھر اس کا مذہب نہیں ہوسکتا۔ جمہوریت ہمیشہ سیکولر ہوتی ہے۔ سیکولر ہوئے بغیر پھر آپ یہ دعویٰ ہی نہیں کر سکتے کہ آپ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔ایک فرد اور ایک لفظ جس کا مطلب ہے کہ سب برابر ہیں چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب یا فرقے سے ہو۔ کون مسلمان ہے اور کون نہیں ا س سوال کا تعلق ریاست سے نہیں ۔ اگر ریاست کوئی مذہب رکھتی ہے تو پھر وہ کچھ اور ہی ہو گی اسے جمہوری ریاست نہیں کہا جا سکتا ۔
سوال: مگر اسلامی جماعتوں کا موقف ہے کہ اسلام ہے ہی سیاسی مذہب؟
جواب: (طنزاً) اگر اسلام سیاسی مذہب ہے تو پھر جو اس کو ووٹ نہیں دے گا وہ کافر ہو گا۔
سوال: آپ کے والد جماعت اسلامی کے بانی تھے اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش بھی انہیں اپنا بانی سمجھتی ہے ۔ آپ مودودی صاحب کے بیٹے کی حیثیت سے انہیں کوئی نصیحت کرنا چاہیں گے؟
جواب:یہ لوگ نصیحت سے اوپر جا چکے ہیں ۔ میرے خیال میں انہیں ایسی کسی چیز کی ضرورت نہیں۔*
(ڈھاکہ ٹریبیون)