اصل مسئلہ راہداری یا ایک اور نئی سازش۔۔۔

عبدالحی ارین

393BD853-E7F1-4181-AB3E-90D2C45DEF2E_w640_s_cx0_cy31_cw100ہمسایہ ملک چین کی جانب سے پاکستان میں شروع ہونے والا ’ پاک چین راہداری منصوبہ‘ ایک بار پھر اختلافات کا شکارہو گیاہے۔ اس منصوبے کے تحت چین اپنے پسماندہ صوبے سنکیانگ کے بارڈر سے لے کر پاکستان میں گوادر کے گرم پانیوں تک سڑکوں، ریل اور بجلی و دیگر توانائی پیدا کرنے والے منصوبوں کا ایک جال بچھانا چاہتی ہے۔ جس کیلئے راہداری یا کوریڈور کا اصطلاح استعمال کیا جارہا ہے جس پر چینی حکومت اور وہاں ہی کی کمپنیوں کو کام کرنے کی اجازت ہوگی۔ منصوبے پر کل چھیالیس بلین ڈالر خرچ ہونگے جو چینی حکومت انویسٹ کرے گی۔

اس منصوبے کا بنیادی مقصد پاکستان کے راستے سے مختصر روٹ استعمال کرتے ہوئے سنٹرل ایشیا کے تیل و گیس کے وسائل تک رسائی حاصل کرنا ہے۔گوادر سے چین تک براستہ سندھ پنجاب روٹ اور دوسرا راستہ گوادر سے براستہ ژوب پختونخواہ پنجاب روٹ تاھم موخر الذکر مختصر ترین روٹ بنتا ہے۔

تاہم یہ منصوبہ اس وقت اختلافات کا شکار ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا ہ سے تعلق رکھنے والی سیاسی پارٹیوں کا موقف ہے کہ وفاقی حکومت اس منصوبے میں بلوچستان اورپختونخوا ہ کے بجائے پنجاب کے مفادات کو ترجیح دے رہی ہے اور راہداری میں شامل ریلوے، بجلی و دیگر منصوبے پنجاب منتقل کرنے کی کوششیں کررہی ہے جبکہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا ہ میں سے صرف روڈ ہی گزارنے پر اکتفا کررہی ہے۔

جبکہ دوسری جانب وفاقی حکومت کا یہ موقف ہے کہ سب سے پہلے مغربی روٹ پر ہی کام شروع کیا جائے گا اور راہداری کے منصوبوں میں کوئی ممکنہ تبدیلی نہیں کی جارہی ہے۔ البتہ یہ تمام منصوبے ایک ساتھ شروع نہیں کئے جاسکتے ہیں بلکہ مرحلہ وار عمل کے ذریعے مغربی و مشرقی روٹ کیساتھ شروع کیے جائیں گے۔ تاہم چین کی ڈیمانڈ کے مطابق دو سالوں میں ایک روٹ فنکشنل کرکے چین کے حوالے کیا جائے گا۔ بعد میں اس میں وسعت و دیگر منصوبے ۲۰۳۰ میں مکمل کئے جائیں گے۔

حکومت کے مطابق پہلے مرحلے میں چین کے تعاون سے سندھ کے علاقے تھر میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے شروع کئے جائیں گے، اس کے علاوہ پن بجلی اور شمسی توانائی کے منصوبے شروع کئے جائیں گے۔ دوسرے مرحلے میں گوادر کی بندرگاہ کو بہتر بنایا جائے گا ،تیسرے مرحلے میں شاہراہیں ،ریلوے لائنزاور ایکسپریس ویز تعمیر کی جائیں گی جبکہ چوتھے مرحلے میں مخصوص صنعتی زون کی تعمیر ہوگی۔ یہ منصوبہ بہر حال چائینا کی ضرورت ہے اور یہ ہر صورت میں مکمل ہو کر رہے گا۔

تاہم دوسری جانب پختونخوا ہ اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والی کچھ سیاسی پارٹیوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت اس راہداری میں شامل بجلی، انرجی،ریلوے اور صنعتی زون کے منصوبے پختونخوا ہ ا وربلوچستان سے گزرنے والی مغربی راہداری کے بجائے صرف پنجاب میں ہی شروع کرنا چاہتی ہے۔ اور اس سلسلے میں انھوں نے دو بار آل پارٹیز کانفرنس بلوائی اور حکومت کو بار بار یہ وضاحت دینے پر مجبور کیا گیا کہ سب سے پہلے مغربی روٹ ہی تعمیر کیا جائے اور اس کیساتھ تمام منصوبے آئندہ پندرہ سالوں میں مکمل کئے جائیں گے۔

وفاق بالخصوص پنجاب کی استعماریت اپنی جگہ لیکن اب حالات بدل چکے ہیں، اب پاکستان کی عوام میں ماضی کی نسبت کافی سیاسی شعور آچکا ہے۔ اور تو اور اب تو جنوبی پنجاب والے بھی ’ سڈا غلامان تخت دے لاہور دہ‘ کا نعرے لگاتے نظر آرہے ہیں۔ اس لئے جلد یا بدیر یہ راہداری اپنی اصل شکل میں ہی بن کے رہے گی ورنہ پھر پاکستان پنجاب کے چند ضلعوں تک ہی محدود ہوجائے گا۔

لیکن سوال یہ ہے کہ آخر یہ سیاسی پارٹیاں یہ واویلہ کیوں مچارہی ہیں ۔ کیا پھر کوئی نئی سازش ہورہی ہے؟ مجھے شک اُس وقت ہوا جب پنجاب نواز صحافیوں اور فوج کی نرسری میں پھلنے پھولنے والی ان سیاسی پارٹیوں نے اس مسئلہ میں زیادہ دلچسپی لینی شروع کی۔ اس مسئلے کو سب سے پہلے پنجاب ہی سے تعلق رکھنے والے صحافی کاشف عباسی نے سب سے پہلے اپنے ایک ٹی وی پروگرام میں اٹھایا تھا۔ اور وفاق و پنجاب کو ہدف تنقید بناتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پختونخوا ہ اور بلوچستان سے گزرنے والے روٹ کے بجائے مشرقی روٹ پر کام شروع کیا جارہا ہے۔ جس سے سب سے زیادہ فائدہ صرف پنجاب ہی کو ہوگا۔

اس کے بعد ایک اور بظاہر پشتون صحافی سلیم صافی جو ماضی میں عملی طور پہ جہادی رہا ہے اور افغانستان میں مجاہدین دور میں جماعت اسلامی کے کارکن کے طور پر پشتونوں کے خون سے اپنے ہاتھ بھی سرخ کر چکا ہے۔ اُس کی پشتون غیرت و ضمیر نے اُسے للکارا اور اُس نے اس مسئلے کو اپنے کالم اور جرگہ پروگرام میں اجاگر کرنے کی کوششیں تیز کردیں۔ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی آشیر باد سے جیو ٹی وی تک پہنچنے والے اور آئی ایس پی آر کے اس غیر محسوس ترجمان صحافی نے اپنے پرگروام و کالم میں راہداری سے زیادہ پشتون سیاسی و قومی مشیران کی کردار کشی شروع کردی ہے۔

موضوع چاہے کوئی بھی ہو، محمود خان اچکزئی اور اسفندیار ولی خان کی ذات و خاندان کو بُرا بلا کہنا صافی صاحب اپنا صحافتی فرض سمجھتا ہے۔جو’ حُب علی سے زیادہ بغض معایہ‘ محسوس ہورہاہے۔ لیکن دوسری جانب جہادی ٹرن صحافی صاحب نے ہمیشہ اپنے اخباری کالموں اور جرگہ پروگرام میں پشتونوں کے خون کے پیاسوں مُلا عمر، مُلامنصور اور مُلا فیض اللہ کو ہیرو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور کالموں میں انکی تعریفیں کرتے موصوف نہیں تھکتے ہیں۔ کیوں نا کریں آخر کار پیری و مرشدی کا فکری تعلق جو ہے۔

فرق صرف اتنا ہے کہ ماضی میں ان کیساتھ ملکر جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے افغانستان جاتے اور وہاں پشتونوں کے خون سے اپنا ہاتھ رنگتے اور انکے خلاف جہادبل بندوق کرتے جبکہ آج وہ اُنہیں قوتوں کی ایماء پر ان پشتونوں کے خلاف جہاد بل قلم کی ڈیوٹی پر مامور کئے گئے ہیں۔ یعنی کام وہی پشتون دشمنی صرف ڈیوٹی کی نوعیت تبدیل کردی گئی ہے۔ صحافتی میدان کیساتھ ساتھ، فوج کی ’بی ٹیم‘ اور پنجاب کے مفادات کی محافظ تصور کی جانے والی پارٹیاں جماعت اسلامی اور جمعیت علما ئے اسلام بھی حسب دستور اپنا تاریخی کردار نبھانے کیلئے میدان میں آچکی ہیں ۔اور تو اور اسٹبلیشمنٹ کی نئی سیاسی قوت پی ٹی آئی بھی جے یو آئی کیساتھ مل کر اب پشتونوں کے حقوق اور مغربی راہداری اور اس میں شامل تمام منصوبے پختونخوا ہ اور بلوچستان کے پشتون علاقوں میں شروع کرنے کی بات کررہی ہے۔

تو عرض یہ ہے کہ یہ تمام سیاسی پارٹیاں و میڈیا کے لوگ اُس وقت تو افغانستان میں سوویت یونین (موجودہ روس)کے خلاف اس لیے جہاد کرتے تھے بقول انکے کہ روس گوادار کے گرم پانیوں تک پہنچنا چاہتا ہے جبکہ آج جب ایک اور سامراجی ملک اور کمیونسٹ چائنا جب گوادر تک پہنچنا چاہتا ہے تو یہ جہادی پارٹیاں اس روٹ میں اپنا حصہ مانگ رہی ہیں۔کہاں تھیں یہ مذہبی پارٹیاں و پشتون نما صحافی جب پشتونوں کی زمین پر خون کی ہولی کھیلنے کی تیاریاں ہورہی تھیں۔

کیا انھوں نے پشتونوں کے وطن میں مساجد ،سکولوں اور بازاروں میں خون بہانے والوں اور اُنکے درپردہ سہولت کاروں کے خلاف آواز اٹھائی؟ کیا سوات، باجوڑ اور پورے پختونخوا ہ میں خون کا بازار گرم کرنے والوں کو کبھی للکارا؟ جب فاٹا میں طالبان اور القاعدہ والے آباد کئے گئے تو سلیم صافی صاحب کی قلم نے ان کے آباد کرنے والوں کے خلاف جنبش کیوں نہیں کی؟ان مذہبی و سیاسی پارٹیوں نے کیوں آج تک فاٹا سے بے گھر کئے جانے والے پشتونوں کے بربادی اور ان کے گھروں کو ایک منظم سازش کے تحت تباہ کرنے والوں کو بے نقاب نہیں کیا؟ اگر تب نہیں تو آج سی پی ای سی پر کیوں اتحاد بن رہے ہیں؟ کیا یہ درپردہ قوتوں کی ایماء پر پشتون سرزمین پر ایک نئی سازش کیلئے ماحول بنانے کی کوشش تو نہیں کررہے ہیں؟

اگر دیکھا جائے تو ماضی میں گوادر کی بندرگاہ کی تعمیر اور بلوچوں کی ترقی کے نام پر بھی بلوچوں کیساتھ یہی سازش کی گئی تھی۔ بلوچوں کے جائز تحفظات کو حل کرنے کے بجائے پنجاب اور جنرل پرویز مشرف نے بلوچوں کے مطالبات کو انڈیا و موساد کے ساتھ نتھی کیا تھا۔ اور پھر پنجاب نے اپنا حق و تاریخی سٹیمپ ثبت کرتے ہوئے مطالبات کرنے والے سیاسی بلوچوں کو غدار قراردیا تھا۔ اور پھر بلوچستان میں نواب اکبر خان بگٹی کے قتل کے بعد پنجابیوں کے خلاف نفرت اور انکے قتل سے اس سازش کا آغاز کیاتھا ۔ اور پنجاب نواز نوابوں اور سرداروں کو لندن، سوئزرلینڈ و امریکہ کے پہاڑوں پربھیج کر آزاد بلوچستان کے نام پر آج تک سیاسی کارکنوں اوربلوچ جوانوں کے قتل اور لاپتہ ہونے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

راہداری کے اس مسئلے و اتحاد کے پیچھے کیا سازش ہورہی ہے یہ تو آنے والاوقت ہی بتاپائے گا۔تاہم اس حوالے سے عوامی نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو سوچ سمجھ کر اور پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔جبکہ مذکورہ بالا صورتحال سے تین نتیجے نکالے جاسکتے ہیں۔

اول یہ کہ بلوچستان کی طرح یہاں بھی سیکیورٹی کے نام پر درپردہ قوتوں کیلئے راہ ہموار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، تاکہ انھیں ہمیشہ کی طرح اس پروجیکٹ میں بھی سیکورٹی کے نام پر حصہ مل سکے۔ دوئم، یہ مذہبی و سیاسی پارٹیاں اور میڈیا جو ماضی میں نائن الیون کے بعد اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران پشتون معاشرے میں اپنا وقار اور تسلط کھو چکی تھیں انھیں دوبارہ زندہ کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے اور چاہتے ہیں کہ یہ کریڈٹ پشتون قوم پرست پارٹیوں کے بجائے پنجاب نواز سیاسی و مذہبی پارٹیوں کو ملے تاکہ اُن کی بقا کا مسئلہ ختم ہوجائے۔ اس لیے اب یہ مذہبی پارٹیاں قوم پرستوں کے نعم البدل کے طور پر اپنے آپکو پیش کر رہی ہیں۔

تیسری مگر سب سے اہم و خطرناک بات یہ میں محسوس کررہا ہوں کہ کبھی ڈیورنڈ لائن پر تاریں بچھانے کی باتیں کی جاتی ہیں تو کبھی ڈیورنڈ کیساتھ سرنگیں کھودی جاتی ہیں تاکہ ایک اشتعال کی صورتحال پیدا کی جائے۔ غرض کچھ بھی ہو لیکن ارادے نیک ہیں۔جان کی امان پاؤں تو اصل مسئلہ سی پی ای سی کا نہیں بلکہ ایک اور بلوچستان کی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

Tags:

4 Comments