قمر ساجد
ہمارے ملک میں عقیدوں پر بات کرنا مشکل ہے اور جب آپ سب عقیدوں کا احترام کرتے ہوں تو بات کرنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے لیکن جب کچھ عقیدوں کی وجہ سے انسانیت کو نقصان پہنچے تو انسان خاموش نہیں رہ سکتا۔مغربی دانشوروں میں یہ بات عمو می طور پر زیر بحث رہتی ہے کہ مسلمان بنیادی طور دہشت گرد ہیں حالا نکہ تاریخ اس قسم کی کا روائیو ں سے بھری پڑی ہے اور یہ کا روائیا ں دوسرے مذاہب کے لوگوں نے بھی کی ہیں۔
دہشت گردی کی اصطلاح کی تشریح ہو چکی ہے اور اب ان پڑھ اور عام انسان بھی اسے برا سمجھتاہے لیکن جب بات جہاد اور جہادی گروپوں کی ہوتی ہے تو ہوش مند مسلمان بھی پس و پیش کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کی مخالفت کرنے میں تامل سے کام لیتا ہے شا ید اسی رویے کی وجہ سے ہمیں دہشت گرد نواز سمجھا جاتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہم دل کے کسی نہ کسی کونے میں جہادی لوگوں کے لئے ہمدردی کے جذبات رکھتے ہیں آٹھویں جماعت کی اسلامیات کا جہاد کا باب پڑھ لیجیے آپ کو میری بات پر یقین کرنا پڑے گا۔جہاد کو ہمارے اساتذہ مزے لے لے کر پڑھا تے ہیں اور ایسا آج سے نہیں ہے یہ ضرورت ہمیں آزاد ی کشمیر کی سٹر ٹیجی نے دی ہے اور تمام علماء نے اسی سوچ کو پروان چڑھایا ہے۔ اس قسم کی جہادی تعلیم سے زندگی جیسی نعمت کی خوبصورتی ماند پڑ گئی اور موت کے بعد کا منظر روشن اور درخشاں ہو گیا۔
اصل میں ہمارے بہت سے عقیدے قرآن کی بجائے قرآن کی تفسیر کرنے والے عالموں کی سوچ کا مظہر ہیں۔مثلا’’ خود رسول اللہ کی شخصیت کا تصور۔ آپ رحمتہ اللعا لمین یعنی سب جہانوں اور انسانوں کے لئے رحمت نہ کہ محض مسلمانوں کے لئے۔ مکہ سے مدینہ آنے پر اپنے دفاعکے لئے چند غزوات اور باقی تمام حیات انسانوں کی فلاح مگر علماء نے جہاد کے نام پر دنیا کے سامنے نبی ؐ کی شخصیت کو محض ایک جنگجو کے طور پر پیش کیا ۔
خدا کی ذات برکت، نیکی، رحمت، مہربان، پر جمال اور حسین ہے مگر ہم نے اسے محض خوف اور ڈر کی علامت بنا دیا۔پانچوں وقت اس کا نام لینے کے باوجود معاملا ت معاش میں اسے یاد نہ رکھنا اور جب مصیبت آجائے تو اسے منجانب اللہ قرار دے کر اس سے ڈرنا۔عمل کو اپنے ضمیر کی کسوٹی پر نہ پرکھنا اور جنت اور دوزخ کو عمل کا مقصد سمجھنا۔ بچوں کو حافظ قرآن بناکر یہ سمجھنا کہ ان کے شانوں پر اپنے گناہوں سے آلودہ اجسام لاد کر پل صراط پر سے اطمینان سے گزر جائیں گے ۔ مولانا طارق جمیل کہتے ہیں ’’ مؤمن کی آنکھ سے نکلا آنسو کا ایک قطرہ یا دل سے نکلی آہ اس کے سو سالہ گناہ دھودے گی‘‘۔
ہم اپنی عمو می زندگی میں خیرات، صدقات، زکواۃ دینے یا فلاحی کاموں کے لیئے وہ مدارس ڈھونڈھتے ہیں جہاں قرآن حفظ کیا جاتا ہے۔بہت سے بے اولاد مرنے والے اپنی جا ئیداد مدارس کے نام وقف کر دیتے ہیں جب تک ان میں قرآن کی تلاوت ہوتی رہے گی ان کی روحیں قبروں میں ٹھنڈی ہوائیں کھا تی رہیں گی۔ اس بات کی موزونیت کی بحث میں الجھے بغیر کیا ہم یہ نہیں سوچ سکتے کہ کسی غریب یا لاوارث بچے کو سکول کی تعلیم دے کر اور اس کو با عزت روزگار کے قابل بنا کر اسی ثواب کے حقدار بن سکتے ہیں ۔
اسلامی تاریخ کے ابتداء اور درمیانی دور میں عقائد پر بحث اس قدر ممنوع نہ تھی جتنی آج کے ترقی یافتہ دور میں ہے حتیٰ کہ پاکستان بننے کے دوران اور بننے کے ابتدائی دور میں ان موضو عات پر کھل کر لکھا گیا ۔ صوفیا کرام نے ان سوالات پر غور کیا اور اپنی شاعری میں اظہار بھی کیا مگر ابتدا’’ امراء اور بادشا ہوں نے اپنی مرضی کے علماء کی سوچ پروان چڑھائی اور مخالفین کی کتابوں کو چن چن کر برباد کیااور بعد ازاں علماء نے اپنے فرقوں کی اکثریتی طاقت کے بل بوتے پر مخالف نظریے اور سوچ کو دبادیا۔ حالاں کہ یہ سوچ اور نظریہ بھی مسلم مفکرین ہی دے رہے تھے۔
ضرورت یہ تھی کہ اسلام کو محض عقیدے اورذریعہ ثواب کی بنا پر پڑھنے کی بجائے دوسرے علوم کی طرح تحقیق اور بطور سوشل سائنس پڑھایا جاتا مگر تحقیق اور سائنس پر یقین رکھنے والوں نے مذہب کو درخوراعتنا ہی نہ سمجھا۔ لہذا آج اگر اسلام محض ایک مخصوص طبقے کی سوچ کا مظہر نظر آتا ہے تو اس پرہمیں حیرت نہیں ہونی چاہئے ۔
قرآن کی تدوین اور تفسیر اور احادیث پر جدید دور کی تحقیق کے اصولوں کے تحت ریسرچ کی جائے اسلامی تاریخ کو واقعاتی تقدس سے نکال کر معاشی اور معاشرتی اثرات کے حوالوں سے پڑھا جائے۔ عقائد کی بنیا د، ارتقاء اور ان کی عصر حاضر میں ماہیت کو پڑھا جائے اور عام آدمی کے سامنے لایا جائے اور فکر میں تبدیلی کے لئے راہیں ہموار کی جائیں اور یہ کام تعلیم یافتہ روشن خیال لوگ ہی کرسکتے ہیں۔