پاکستان اور بھارت کی جانب سے اتفاق رائے کے ساتھ خارجہ سیکرٹریوں کے مجوزہ مذاکرات ملتوی کرنے کا اعلان کیا گیا ہے تاہم ساتھ ہی اس بات پر اتفاقِ رائے کا اعلان بھی کیا گیا ہے کہ یہ مذاکرات مستقبل قریب میں منعقد ہوں گے۔
مجوزہ پاک بھارت مذاکرات سے ایک روز قبل یعنی چَودہ جنوری جمعرات کو پہلے بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوراپ نے ان مذکرات کے ملتوی کیے جانے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد پاکستانی دفتر خارجہ نے بھی اپنے ایک مختصر بیان میں کہاکہ ’پاکستان اور بھارت نے خارجہ سیکرٹری سطح کے مذاکرات کا مستقبل قریب میں انعقاد کرنے پر اتفاق کیا ہے‘۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ پٹھان کوٹ ایئربیس پر حملے کے بارے میں بھارت کی فراہم کردہ معلومات کو اعلیٰ سطح پر اٹھایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا:’’دہشت گردی مشترکہ دشمن ہے اور اس کے خاتمے کے لیے پاکستان اور بھارت کی جانب سے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔‘‘
خیال رہے کہ پاکستان اور بھارت کے خارجہ سیکرٹریوں کے درمیان پندرہ جنوری کو اسلام آباد میں مذاکرات ہونا تھے تاہم گزشتہ ہفتے بھارتی فضائیہ کی پٹھان کوٹ ائیر بیس پر حملے کے بعد سے ان مذاکرات کا انعقاد شکوک وشبہات کا شکار ہو گیا تھا۔
بھارت کی جانب سے پاکستان کو اس حملے میں کالعدم شدت پسند تنظیم جیش محمد کے ملوث ہونے کے قابل عمل شواہد مہیا کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ اس پر پاکستانی حکومت نے مکمل تعاون کا یقین دلایا تھا۔
اس ضمن میں گزشتہ روز پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملے میں پاکستانی عناصر کے ملوث ہونے کے الزامات کی تحقیقات کے لیے ایک چھ رکنی ٹیم قائم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس کمیٹی میں پولیس، ملٹری انٹیلی جنس اور پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے افسران شامل ہیں۔
وزیر اعظم کی زیر صدارت اس اجلاس کو بتایا گیا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کالعدم جیش محمد کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اس کے متعدد کارکنان کو گرفتار جبکہ دفاتر کو سیل کر دیا ہے۔
ملکی و غیر ملکی ذرائع ابلاغ نے ذرائع کے حوالے سے خبریں دی تھیں کہ گرفتار کیے گئے افراد میں کالعدم جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہراور ان کے بھائی عبدالرؤف اور بہنوئی بھی شامل ہیں۔
تجزیہ کاروں کے خیال میں پاکستان اور بھارت دونوں نے اس مرتبہ ماضی کی نسبت سمجھداری کا مظاہرہ کیا ہے۔ سینیئر تجزیہ کار لفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود کا کہنا ہےکہ پاکستان اور بھارت کے خارجہ سیکرٹریوں کے درمیان مذاکرات اگر مقررہ وقت پر منعقد ہو جاتے تو یہ اُن قوتوں کی حوصلہ شکنی ہوتی، جو ان مذاکرات کی مخالف ہیں۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا:’’اب بھی کافی دانش مندی کا مظاہرہ ہوا ہے اور یہ پیغام بہرحال ان پاک بھارت اچھے تعلقات کی مخالف قوتوں کو گیا ہے کہ اب صورتحال بدل رہی ہے۔ دونوں ملک نہ صرف دہشت گردی کے خلاف اکٹھے کھڑے نظر آ رہے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے مؤقف کو سمجھ بھی رہے ہیں۔‘‘
بی بی سی کے مطابق بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان وکاس سوروپ نے کہا ہے کہ پٹھان کوٹ پر حملے کی تفتیش کے لیے پاکستان نے جو خصوصی تفتیشی ٹیم بھارت بھیجنے کی تجویز پیش کی ہے، اس کا بھارت کو بھی انتظار ہے اور بھارت کی تفتیشی ایجنسیاں اس ٹیم کو بھرپور تعاون فراہم کریں گی۔
انھوں نے کہا ’ہم نے پاکستان کو ٹھوس ثبوت فراہم کیے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ تمام قصور وار افراد کے خلاف کارروائی کی جائے۔‘
بھارتی حکومت کا خیال ہے کہ فی الحال پاکستان کو پٹھان کوٹ پر حملے کی تفتیش مکمل کرنے کے لیے وقت دیا جانا چاہیے، اس کے بعد ہی یہ رائے قائم کی جاسکتی ہے کہ وہ قصوروار افراد کو کیفرکردار تک پہنچانے کے عزم میں سنجیدہ ہے یا نہیں۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ٹھوس ثبوت فراہم کرنے کے بعد بھارت دیکھنا چاہتا ہے کہ پاکستان ان کے خلاف کس قسم کی کاروائی کرتا ہے یا پہلے کی طرح محض وقت گذارناچاہتا ہے۔
کیونکہ ماضی میں بھی پاکستان نے مجرموں کے خلاف کاروائی کرنے کا اعلان کیا تھا مگر ممبئی حملوں کو سات سال ہونے کوآئے ہیں حکومت پاکستان نے ذکی الرحمن لکھوی اور اس کے ساتھیوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔
الٹا لشکر طیبہ کے سربراہ حافظ سعید اپنے اجتماعات میں بھارت کو دھمکیاں دیتے ہیں لیکن پاکستان کی انتظامیہ کوئی کاروائی نہیں کرتی۔