زرک میر
گزشتہ دنوں لاہورمیں لڑکیوں کی اسکوٹی چلانے کی مہم کا آغاز کیاگیا ۔محترمہ عاصمہ جہانگیر نے بھی اس میں شرکت کرکے اسکوٹی چلانے والی لڑکی کے پیچھے بیٹھ کر لاہور کی سڑکوں کی سیر کی ۔یہ خوش آئند بلکہ قابل تحسین اقدام ہے ۔انڈیا میں تو عورتوں کااسکوٹی چلانا پہلے سے رائج تھا لاہور میں اس کو عام کرنے کیلئے باقاعدہ طورپر مہم کا آغاز کیاگیا۔ اب پنجاب حکومت ہزاروں اسکوٹی عورتوں کے چلانے کیلئے منگوارہی ہے۔
پاکستان عالمی سطح پر انتہاء پسندی کے حوالے سے اپنی ایک الگ شناخت رکھتا ہے اورانتہاء پسندوں کی فہرست میں افغانستان سے بھی ایک نمبر آگے ہے۔یہ ملک اسلام کے نام پر بنا اور اس ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے جانا جاتاہے ۔چنانچہ اس حوالے سے آئینی اورنظریاتی طورپر پاکستان میں انتہاء پسندی پنپتی جارہی ہے۔اب ہر بڑے ریاستی ادارے کے ہیڈ کوارٹر کی طرح انتہاء پسندی کا ہیڈ کوارٹر بھی پنجاب میں ہے لیکن اس کی چھاؤنیاں بلوچستان خیبرپختوانخواء اور سندھ میں ہیں۔
چھاؤنیاں آبادیوں سے دوربنائی جاتی ہیں اورجنگ بھی آبادیوں سے دورکی جاتی ہے اورچھاؤنیوں کامزاج تعلیم وتربیت اورماحول آزادنہ نہیں ہوتا انہیں ہمہ وقت قوم کی دفاع کیلئے تیاررہنا ہوتاہے تب ہی بلوچستان میں نہ تو آزادانہ تعلیم کی گنجائش رکھی گئی نہ یہاں آزادخیال کتابوں کودرآنے دیاگیاکچھ پر تو آزادخیال ڈاکٹرمالک نے پابندی بھی عائد کرکے ڈسپلن کو قائم رکھنے میں اپنا کردار اداکیا۔چنانچہ جنگی ماحول میں نہ تو اسکوٹی پربیٹھ کر گیت گانے کی گنجائش ہوتی ہے نہ ہی پہاڑ کی چوٹی پربیٹھ کر لیلیٰ مجنوں گایاجاسکتاہے جبکہ جنگی میدان میں ہتھیاروں تیزابوں اورقتال کی ہی تربیت ہوتی ہے اوربات بھی۔
آبادی کم ہونے کی وجہ سے بلوچستان کی اپنی بجلی اوراپنی گیس اوراپنے وسائل بلوچ عوام تک پہنچانے میں ان وسائل سے زیادہ وسائل چاہئیں ۔لہٰذا سوئی سے گوادر تک گیس پائپ لائن بچھانے میں خواہ مخواہ کا وسائل اور وقت کیوں بربادکیاجائے ۔درمیان میں ایسے ایسے سنگلاخ پہاڑ درآتے ہیں کہ انسان کا جانا مشکل ہے تو گیس پائپ لائن کیسے پہنچائی جائے جبکہ سوئی سے کراچی اورپنجاب تک چونکہ ہموار زمین پڑتی ہے تو وہاں گیس پائپ لائن کیلئے کھدائی کرنا اورلے جانا کوئی مشکل کام نہیں ہوتا ۔اسی طرح حبکوپاور پراجیکٹ حب میں ہے جو بلوچستان کا جنوب مشرقی اورآخری کونہ ہے اوراوچ پاورنصیر آبادمیں ہے جو بلوچستان کا مشرقی اورآخری حد ہے۔
اس بجلی کو واپس گوادر تفتان ژوب اور رکھنی تک پہنچانے میں کس قدرمشکلات پیش آئیں گی اس کے لئے کسی انجینئر کی خدمات کی بجائے اونٹ جیسے بلوچستان پر ایک نظر ہی دوڑائی جائے تو بات سمجھ میں آئے گی کہ بلوچستان کی کوئی کل سیدھی نہیں ۔کہیں پہاڑ ہیں تو کبھی ریتیلی زمین ،کبھی درے تو کبھی بے آب وگیاں خشک بنجر زمین ۔اس کو دیکھ کر ہی بجلی پہنچانے کا خیال متروک ہوجاتاہے ۔کھمبے ان پہاڑوں سے کیسے گزارے جائیں گے ۔گیس پائپ لائنیں ان پہاڑوں سے کیسے عبورہونگی ۔گیس کا دم نہیں گھٹے گا ۔
سکولوں کو تو خیر بخش اور محمداکبر نامی بدمعاشوں کافروں اورکیمونسٹوں نے بننے ہی نہیں دیا۔سیندک کے سونے کو تو چین جہاز میں ایسے لے جاتاہے کہ کسی بلوچ نے آج تک نہیں دیکھاہوگا کہ سیندک سے کیا نکل رہاہے اورکیسے نکل رہاہے ۔آخرت میں جب اللہ تعالی بلوچوں سے مخاطب ہوکر پوچھے گا کہ بتا سیندک کے سونے کو کیسے استعمال کیا ؟ تو یقیناًاس نعمت کوابھی سے ہی ہم جھٹلاتے ہیں کہ اسے ہم نے دیکھا ہی نہیں تو پھرا س کا حساب کیسا۔چنانچہ بلوچستان کی بجلی اوربلوچستان کی گیس قدرتی طورپر بھی بلوچستان کیلئے زمین میں مدفون نہیں۔
اب چونکہ یہاں آبادی کم ہے اوروسائل زیادہ جبکہ آبادی چٹیل ہے ان وسائل کو ان تک پہنچانے میں اس سے زیادہ وسائل درکارہونگے تو کیوں نہ کوئی اورمسلمان اس سے استفادہ کرے ۔ اس نظریہ کو سمجھانے کیلئے بلوچوں کو مسلمان بنانا ضروری تھا کہ ان کی سمجھ میں آجائے کہ اورتم زمین پر تفرقہ میں مت پڑھو اوراللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھمائے رکھو۔اس کے لئے سرکش بلوچوں کو رام کرنا ضروری، میرا مطلب ہے مسلمان کرنا ضروری تھا۔ تب اس کے لئے نہ تو چٹیل آبادی کو دیکھاگیا نہ درمیان میں آنے والے پہاڑوں کو دیکھاگیا ۔نہ اونٹ کی کل جیسی الٹی پلٹی جگہوں کو دیکھاگیا ،ہمیں دھڑا دھڑا اسلامی نظریہ سے مالامال کرنے کیلئے نوکنڈی سے لے کر حب چوکی تک ، گوادر سے لے کر سوئی تک اورآوران سے لے کررکھنی تک مدارس بنائے گئے۔
تریاک کے پیسے بھی حلال قراردیئے گئے۔ملاؤں نے آپس میں جنگ بھی لڑی ۔گوادرپورٹ اقتصادی راہداری کی طرح اس’’ میگا پروجیکٹ‘‘ کا ’’ہیڈ کوارٹر‘‘ بھی پنجاب میں ہی رہنے دیاگیااورفنڈنگ سعودی بادشاہوں نے کی۔امت کا تصور ہر جگہ پر غلط ثابت نہیں ہوتا ۔کہاں بلوچستان کہاں سعودیعربکہاں پنجاب۔سعودی شہزادے اورپنجاب ،مدارس بنانے کے علاؤہ ’’شکار‘‘ کرنے بھی یہاں آتے رہتے ہیں سعودی عرب اورپنجاب نے مل کر ہمیں اس دولت سے ایسے سرفراز کیا کہ جس نے ہمیں کبھی دھوکہ نہیں دیا بلکہ ہمیشہ ہم ہی دھوکہ کھاتے گئے ۔
ایک طرف دینی چھاؤنیاں اوردوسری طرف فوجی چھاؤنیاں،بلوچ کے بارے میں انگریز ومسلمان جرنیلوں نے کہہ چھوڑا ہے کہ اس سے اس کے مزاج کے مطابق معاملات طے کرو۔اس اقوال زرین کو پلو سے باندھ کر ہمیں ہمارے مزاج کے مطابق ہی فوجی چھاؤنیاں حصے میں دی گئیں ،مورچے بنائے گئے ،مدارس ان مورچوں میں سپاہی بھیجنے کاکام بخوبی انجام دینے لگے اورجب تعلیم وتربیت اور ذہنی تربیت کاسامان ان مدارس کے ذمے بخوبی ہونے لگا اوربلوچ کو بغیر تلوار کے شکست دینا ممکن بن گیااوراسلامی نظریاتی لشکر کی فصل یہاں تیار ہوگئی تو نئی نظریاتی حکمت عملی کے تحت ہمسائیہ ملکوں سے پراکسی جنگ لڑی گئی ۔
خام مال بلوچستان کے اونٹ جیسے الٹے پلٹے کھوکھ میں پل کرجوان ہوچکاہے ۔سوویت یونین کے خلاف پراکسی جنگ میں پشتون اوراب کی بار بلوچ کی فصل کٹنے کیلئے تیار تھی ۔سو اب خضدار وڈھ اورمنگچر میں افغانستان کے شہداء کی قبرستان میں افغان جہاد کے جہادیوں کی قبریں ملتی ہیں ۔منگچرمیں ایک سردار زادہ بھی مجاہدین کی قیادت کرتے ہوئے افغانستان میں جام شہادت نوش کرگئے ہیں ۔ مستونگ مقامی جہادیوں کا گڑھ ہے ۔نوشکی میں مدارس نے افغان طالبان کا روپ دھاررکھا ہے ۔
حالیہ دنوں 20افراد ہلمند میں بمباری میں مارے گئے ۔سب لاشیں بلوچستان لائی گئیں ۔مقامی سطح کی جہادیوں نے یہاں سو سو افراد ایک ساتھ موت کے گھاٹ اتاردیئے ۔اب بھلا بھائی کی ’’اسکوٹی‘‘پر آنے والی بلوچ عورت پر کیچی بیگ اورمستونگ کے شاپنگ سینیٹروں پرتیزاب حملے نہ ہونگے توکیاعاصمہ جہانگیر سمیت اسکوٹی چلانے والے لاہور کی عورتوں کی طرح ان کی تصاویر اتاری جائیں گی اوراگلے دن زندہ دلان بلوچستان مزید سینہ پھیلائے پورے ملک میں عورتوں کی آزادی میں نمبرون کا خطاب پائے گا؟؟؟یہاں تو بی ایس اوجیسی کمیونسٹ لبرل کتاب کی رہنمائی میں چلنے والی تنظیم کی چیئرپرسن کریمہ بلوچ بھی منہ چھپائے پھرتی رہی ہیں۔
افغانستان میں بیرونی جنگ جاری ہے اس کے خلاف جہاد ضروری ہے لیکن اپنے ہاں بھی تو کچھ اصلاحات ضروری تھیں اوریہ اصلاحات سب سے پہلے عورت کے ذریعے آنی چاہئے تھیں کیونکہ جس طرح عصری تعلیمی نعرہ ہے کہ’’ ایک خواندہ عورت پورے خاندان کو خوانداہ بناسکتی ہے تو شاپنگ سینٹر پر جاکربدکرداربننے والی عورت سوچوں کتنے خاندانوں کوتباہ کرسکتی ہے ‘‘۔چنانچہ بلوچستان میں عورت کو گھرمیں رکھ ہی پہلی اسلامی معاشرے کی اینٹ رکھنے کی سعی ہوچکی ہے ۔کریمہ اورفرزانہ کوساتھ شامل ساتھیوں نے بھی اب ٹھیک طرح سے دیکھاہوگا ۔بھاگ جیسے علاقوں میں پیری سیدی اورفقیری کرنے والے درویش صفت لوگوں کوبھی گمراہی سے نکالنے کیلئے اقدامات کا آغاز ہوچکاہے ۔
اسلام کی خدمت ہر طرح سے کی جاسکتی ہے اورافضل طریقہ خدمت کا یہ ہے کہ اپنی سب سے خوبصورت اورپیاری شے کو اللہ کی راہ میں قربان کیاجائے تو سعودی عرب نے ریال لگائے ۔مڈل مین کے طورپر پنجاب نے رقم لے کر اپنی اس جنگ کو بلوچستان ‘خیبرپختونخواء اورسندھ میں نظریاتی طاقت سے لڑا اورکامیاب ہوا۔اب میدان جنگ نہ تو سعودی عرب ہے اورنہ ہی پنجاب بلکہ یہ جنگ بلوچستان اورخیبرپختونخواء میں بخوبی لڑی جاری ہے اوراب یہ جنگ دوسروں کی نہیں اپنی جنگ ہونے کا نظریاتی ساخت بھی پالی ہے۔دلال کاکچھ نہیں جاتا،محنت تو فاعل اورمفعول کوکرنی پڑتی ہے اوریہ بات پنجاب سے زیادہ کون جان سکتا ہے۔
چنانچہ شہبازشریف نے تو طالبان سے واضح کہا کہ ہمیں کیوں مارتے ہوکیا ہم اورتم ایک نہیں ۔آخر دل کی بات زبان پر آہی جاتی ہے ۔اگر دل پر نہ بھی آئے تو لاہور کی کڑیوں کواسکوٹی پر بیٹھے دیکھ کر مستونگ اورکچی بیگ میں اپنا چہرہ جلا بیٹھنے والی بلوچ لڑکیاں بخوبی جانتی ہوں گی کہ ان کو مزید مسلمان بننا ہے ۔اس کے لئے نہ تو سرمایہ لگانے والاغافل ہے اورنہ ہی پیسے لینے والا دلال ۔دھڑا دھڑمدارس بنتے جارہے ہیں ۔اب تو ریجنل ہیڈ کوارٹر ،کوئٹہ شوریٰ بھی یہی قائم ہے لیکن امریکی قونصل خانہ قائم کرنے کیلئے حالات کسی طور سازگار نہیں۔
شاہ دولہے کے چوہوں کی مانند اب ہماری سوچ بھی کنٹرولڈ ہے ۔مجھے اپنی بہن پر اعتبار نہیں ۔تیزاب پھینک کر حوروں کے پاس جانے کیلئے مجھے اپنی بہن کی خوشیوں سے غافل بنادیاگیاہے۔خود میری بہن کیلئے جنت میں کیا رکھاگیاہے ۔کچھ واضح نہیں ۔تیزاب پھینکتے ہوئے مجھے جنت اورحوریں مل جائیں گی۔میری بہن اس جلے ہوئے چہرے کیساتھ کہاں کہاں منہ کالاکرتی رہے گی کچھ پتہ نہیں۔کچھ تو بشارتیں اس بارے میں بھی ہونی چاہئیں کہ اپنی معصوم چہرے کو جلا بیٹھنے والی بلوچ لڑکی کوکچھ تو چین اورسکون ہو۔
افغانستان سے جو لاشیں بلو چستان لائی جاتی ہیں ۔ان کی تدفین شان کیساتھ کی جاتی ہے ۔مجھے نہیں پتہ کیچی بیگ اورمستونگ نوشکی خضداراورنصیر آباد کی بہنوں کا کیا حال ہے ؟۔اب وہ اس جلے چہرے کیساتھ اس قدربدکردار ہوگئیں ہیں کہ اس قابل بھی نہیں کہ اس کو اس کابھائی اپنی سکوٹی پربٹھا کر پٹی کرانے بی ایچ یو لے جائے۔۔۔ لاہور کی کڑیوں کی طرح سکوٹی چلانا تودور کی بات اب تو ا ن سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا گیا ہے۔
♦
3 Comments