پاکستان میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی اُمور نے کم عمری کی شادی کے خلاف قانون میں ترمیم کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔کم عمر کی شادیاں روکنے کے قانون میں ترمیم حکمران جماعت مسلم لیگ ن کی رکن پارلیمان ماروی میمن نے جمع کروائی تھی۔
قانون میں ترمیم متعارف کروانے والی رکنِ پارلیمان ماروی میمن نے جمعے کو بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اسلامی نظریاتی کونسل نے مجوزہ قانون پر اپنی تجویز دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی ریاست میں شادی کے لیے کم سے کم عمر مقرر کرنا توہین رسالت کے مترادف ہے۔‘
مذہبی اُمور کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اسلامی نظریاتی کونسل، وزارتِ مذہبی اُمور کے حکام موجود تھے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے نمائندے نے کمیٹی کو بتایا کہ اسلامی روایات کے تحت کم عمری کی شادی کو جرم قرار دینا غیر اسلامی ہے کیونکہ اسلامی تاریخ میں کم عمری میں نکاح کی کئی مثالیں موجود ہیں۔
یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان میں رائج کم عمری کی شادیاں روکنے کا قانون ’چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929‘ کے مطابق لڑکے کی شادی کی کم سے کم عمر 18 سال جبکہ لڑکی کے لیے شادی کی کم سے کم عمر 16 سال ہے۔ موجود قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو زیادہ سے زیادہ ایک ماہ کی قید اور ایک ہزار روپے جرمانہ ہو سکتا ہے۔
ماروی میمن نے کہا کہ انھوں نے کم عمری میں شادی کے خلاف قانون میں موجود سزائیں سخت بنانے کی تجویز دی تھی تاکہ کم عمر لڑکیوں کی شادی کو کم کیا جائے۔انھوں نے کہا کہ پاکستان میں کم عمری میں شادی کی وجہ سے زچگی کے دوران اموات کی شرح دوسرے ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
ترمیمی قانون میں تجویز دی گئی تھی کہ کم عمر لڑکے یا لڑکی کی شادی میں ملوث افراد کی سزا کو بڑھا کر دو سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے۔
ماوری میمن نے کہا کہ ’جب اسلامی نظریاتی کونسل نے شادی کے لیے کم سے کم عمر کے تعین کو غیر اسلامی قرار دے دیا تو کمیٹی نے بھی اس قانون کو مسترد کر دیا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’شادی کے لیے کم سے کم عمر 18 سال مقرر کرنے پر اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا کہ یہ غیر اسلامی ہے اور یہ توہینِ رسالت کے زمرے میں آتا ہے تو ایسے میں پیچھے ہٹ جانا ہی بہتر ہے کیونکہ پھر بات کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی‘۔
یاد رہے کہ اس سے قبل سندھ اور پنجاب کی صوبائی اسمبلیوں نے کم عمری میں شادیوں کو خلاف ترمیمی بل کی منظوری دیتے ہوئے شادی کی کم سے کم عمر 18 سال مقرر کی ہے۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو جرمانے اور سزاؤں میں بھی اضافہ کیا گیا تھا۔
پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل کسی بھی قانون کو شرعی تقاضوں پر پرکھنے کے بعد حکومت کو تجویز دیتی ہے لیکن اُن کی تجویز پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے۔
ماوری میمن نے کہا کہ ’اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس تجویز دینے کا اختیار ہے، پاکستان اسلامی ملک ہے اور اگر کسی مسئلے پر اُن کا سخت موقف آ جاتا ہے تو پھر تجویزی اختیار تو برائے نام ہی رہتا ہے اور بات وہیں ختم ہو جاتی ہے۔‘
اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام سن 1962 میں عمل میں آیا تھا اور اس کا کام ملکی پارلیمان کو قانون سازی سے متعلق صلاح مشورے دینا ہے تاکہ کوئی بھی قانون اسلامی شرع سے متصادم نہ ہو۔
اس کونسل کی تجاویز کی پابندی حکومت پر لازم نہیں اور ماضی میں بھی اس کونسل کی جانب سے دی جانے والی بعض تجاویز پر عوامی سطح پر تنقید بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ سن 2013ء میں بھی پیش آیا تھا، جب اسلامی نظریاتی کونسل نے جنسی زیادتی سے متعلق معاملات میں ’ڈی این اے‘ ٹیسٹ کو غیر اسلامی قرار دے دیا اور کہا کہ مذہبی نقطہٴ نظر کے مطابق ایسے کسی واقعے سے متاثرہ خاتون کو ہر حالت میں چار گواہان کو پیش کرنا ہو گا۔
BBC, DW
One Comment