حیدر چنگیزی
پاک چائنا اقتصادی راہداری آج کل پا کستان کے ہر نیوز چینلز، اخبارات اور تجزیہ نگاروں کا پواینٹ آف فوکس بنا ہوا ہے۔ یہ راہدری جہاں ایک طرف پاکستان کے معاشی حالات کو بہتری کی طرف گامزن ہونے کی امُید دلاتی نظر آرہی ہے تو دوسری طرف یہی راہدری پاکستان کو اندرونی طور پر ٹکڑوں میں تقسیم کرنے پہ لگی ہوئی ہے۔
بلوچ قوم پرستوں کے جائز تحفظات، مشرقی اور مغربی روٹس پہ تنازعہ اور وفاق کی جانب سے46 ارب ڈالر میں سے صرف پانچ فیصد خیبر پختونخواہ حکومت کو دینے پر پی ٹی آئی کے اعتراضات پاکستان کے سیاسی پائیداری کو دن بہ دن کمزور کر رہی ہے اور پشاور میں پے در پے حملے یہی ثابت کر رہے ہیں کہ چائنا کی پاکستان میں 46ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری صرف اور صرف ایک وبالِ جان بن کر رہ چکُی ہے۔
مجوزہ راہدری کے مشرقی اور مغربی روٹس کو لے کر پاکستان کے مختلف سیاسی جماعتوں میں ایک سخت تنازعہ چل رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف بشمول اے این پی اور بلوچستان کی بی ین پی مینگل مغربی روٹس پہ زور دے رہے ہیں تاکہ اسی روٹ کو لے کر معاشی سرما یہ کاری کی جائے جو گوادر سے ہوتا ہوا پنجگور، بسیمہ، سوراب، کوئٹہ، ژوب، ڈی آئی خان، برُہان، ہری پور، مانسہرہ، تھا کوٹ، رائے کوٹ، گلگت اور خنجراب کو ملتا ہے اور یاد رہے کہ مغربی روٹ کا مطالبہ کے پی کے حکومت کے تحفظات میں سے ایک ہے۔
یوں اگر دیکھا جائے تو وزیر اعظم میاں نواز شریف صاحب نے حال ہی میں15جنوری 2016 کو ایک آل پارٹیز کانفرنس ایوانِ وزیر اعظم میں بلوائی جس میں تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اورپارلیمنٹ کی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین نے شرکت کی تھی اور وزیر اعظم نے سب کو اعتماد میں لیتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ مغربی روٹ اُن کی پہلی ترجیح ہوگی ۔ لیکن اس اے پی سی میں شریک صاحبان کو دانستہ یا نا دانستہ طور پر بیوقوف بنا یا جا رہا تھا کیونکہ یہ روٹ نہ تو کبھی بنے گا اور نہ ہی پنجابی قیادت کی نواز حکومت کبھی اسُے بننے دی گی ۔ کیوں۔۔۔؟ آئیے جانتے ہیں۔
چائنا پاک راہداری کے حوالے سے چائنا اور پاکستان کی طرف سے ایک مشترکہ کمیٹی تشکیل دی گئی ہیں جسےجوائنٹ کو آپریشن کمیشن کا نام دیا گیا ہے۔ اس کمیشن میں پاکستان کی طرف سے جناب احسن اقبال کی سربراہی میں منسٹری آف پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ اور چائنا کی طرف سے نیشنل ڈیولپمنٹ اینڈ ریفارمیشن کمیشن قیادت کر رہی ہیں ۔ اب تک دونوں ملکوں میں مجوزہ راہداری کو لے کر جتنے بھی معاہدے ہوئے ہیں ، وہ اسی جوائنٹ کمیشن کے اجلاس میں ہی ہوئے ہے اور ان اجلاسوں میں اب تک جتنے بھی ایم او یوز( میمورینڈم آف انڈرسٹینڈنگ )پہ دستخط ہوئے ہیں، انُ میں کہیں بھی مغربی روٹ کا ذکر نہیں کیا گیا بلکہ پنجاب اور سندھ یعنی مشرقی روٹ کوہی ترجیح دی گئی ہے۔
جس کو جوائنٹ کمیشن کے پہلے اجلاس میں ہی تجویز کیا گیا تھاجو خنجراب سے ہوتا ہوا اسلام آباد ، لاہور ، ملتان ، سکھر، کراچی اور پر گوادر پر آ پہنچتا ہے۔اسِ بات کا ذکر سلیم صافی نے بھی16جنوری 2016کو جنگ اخبار میں لکھے گئے اپنے کالم میں کیا ہے۔
اب جہاں تک بات رہی انُ تمام اے پی سی کی جن میں تمام پارٹیز کو اعتماد یا پھر دھوکہ میں لے کر جو” ورکنگ سٹریٹیجی” میاں صاحب کی طرف سے بنائی گئی تھی ، جس میں ” پارلیمانی کمیٹی ” اور حالیہ تیا ر کرد ہ ” سٹیئرنگ کمیٹی” سر فہرست آتی ہیں، سب کے سب محض ایک ٹوپی ڈرامے کے سوا اور کچھ بھی نہیں ۔
یوں تو میاں صاحب نے 15جنوری کی اے پی سی میں ہی مغربی روٹ کو فاسٹ ٹریک پر مکمل کرنے کی یقین دہانی کی تھی لیکن پشاور کی لاء اینڈ آرڈر کی خراب صورتحال اور باچا خان یونیورسٹی میں دہشت گردی کے بعد موجودہ حکومت دنُیا کو یہ دکھانا چاہتی ہے کہ خیبر پختونخواہ کے ان خراب حالات میں مغربی روٹ کبھی بھی بننے میں کامیاب نہیں ہوگا کیونکہ پاکستان پہ صرف اور صرف پنجاب کا حق بنتا ہے اور اقتصادی راہداری کا روٹ صرف پنجاب سے ہی پرُامن طور پر گزر سکتا ہے۔
♣
2 Comments