مہرجان
آپ سر سید احمد خان کو ہی دیکھ لیجیے جب فلسفہ سے کچھ شد بد ہوئی تو مذہب کو فلسفیانہ انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی۔ علامہ اقبال سے ہوتے ہوئے نیاز فتح پوری غلام احمد پرویز اور جاوید احمد غآمدی سب کم وپیش فلسفے کی وادیوں میں اپنے مذہب کو ڈھونڈتے آرہے ہیں۔ اب بھلا فلسفہ کی دنیا میں مذہب کہاں مستحکم و محکم رہتا ہے۔
سرسید احمد خان معجزات کے منکر بنے غلام احمد پرویز نے قران کو حرفٍ آخر قرار دیکر احادیث و تاریخ ٍاسلام سے منہ موڑ لیا ہاں البتہ معجزات کی تاویلات کرتےرہےکہ حضرت موسیٰ اور جادوگروں کے سانپ و اژدھا سے مراد علمی دلائل تھے نہ کہ اصل سانپ و اژدھا تھے۔ اسی طرح علامہ اقبال نے کانٹ کی الہیات پر اکتفا کر کے بہت سے تضادات پال لیے جس پر علی عباس جلالپوری کو پوری کتاب “اقبال کا علم الکلام” قلمبند کرنا پڑی جبکہ آج کل جاوید احمد غامدی حمید الدین فراہی اور امین احسن اصلاحی کے دامن میں پناہ لے کر مذہب کو عقلیت کے دائرہ میں لانے کی بے سود کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔الغرض سب نے فلسفے اور مذہب میں تطبیق کی راہ نکالی۔
اب آتے ہیں ان دانشوروں کی طرف کہ جنہوں نے کس خوبصورتی سے ” اسلامی جمہوریت“کی اصطلاح تراشی اسی طرح “اسلامی سوشلزم” کی اصطلاح گھڑ لی اور اب” لبرل ازم” اور “سیکولر ازم “میں اسلام کی آبیاری کس دلفریب انداز سے کی جارہی ہے۔ آخر المیہ کیا ہے کہ کہ ہم کسی بھی ساخت میں پورا نہیں اتر پارہے۔
میرے خیال میں ہمارا سب سے بڑا المیہ اور اصل مسئلہ نفسیاتی ہے ہمیں ایک طرف فلسفے کی چکا چوند بھی متاثر کرتی ہے اور دوسری طرف ہم مذہب کی ساخت سے بھی نکلنا نہیں چاہتے۔ ہمیں” سوشل ازم” بھی پسند ہے لیکن ساتھ ساتھ ہمیں مذہب کی تاویلیں بھی راس آتی ہیں۔ اسی طرح ہم سیکولرازم کو بھی شد و مد سے بیان کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ ہماری خواہش یہ بھی ہوتی ہے کہ اسے مذہبی پیرائے میں ناپا جائے۔
اب سیکولر ازم میں ہمیں عورت کی آدھی گواہی، لونڈیوں کا تصور، رجم سازی اور اسلامی سزاؤں کے لیے رستہ نکالنا ہوگا کیونکہ ہمارے پاس “لکم دینکم ولی دین “کے ساتھ ” لااکرہ فی الدین” کا جوھرپہلے سے موجود ہےبس فقط تھوڑی سے محنت کی ضرورت ہے ہم شائد کرّہ ارض کی وہ عظیم ہستیاں ہیں جو ریاست پاکستان میں سیکولرازم رائج دیکھنا بھی چاہتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ تشکیل ریاست کے مراحل کو بھولنا بھی چاہتے ہیں کیونکہ وہاں پہ سیکولرازم گیا تھا گھاس کھانے ۔
ہم بانی ریاست کا سیکولر تصور ابھارنا بھی چاہتے ہیں لیکن مذہب کی بنیاد پہ جغرافیائی تقسیم اور مذہب ہی کے نام پہ دوسری ریاستوں کا جبری الحاق ، اردو زبان کے بنگالیوں پہ جبرا نفاذ سے فرار بھی چاہتے ہیں کیونکہ تاریخ کو سیکولر بنانے سے تو ہم رہ گئے وگرنہ جس طرح تاریخ کو مسلماں بنایا جاتا رہا ہے سیکولر حضرات بھی اسے سیکولر بنا کر ہی دم لیتے۔
لیکن یہاں آکے دیسی سیکولرز کے قدم ڈگمگاتے ہیں وہ ایک دفعہ پھر سر سید احمد خان بن جاتے ہیں انگریزوں کا پرستار بھی اور مسلمانوں کا رہنما بھی یا علامہ اقبال بن جاتے ہیں جو یورپی تہذیب کے سخت ترین ناقد بھی رہے اور (جلیانوالہ باغ پہ خاموشی کے بعد) یورپ سے” سر” کا خطاب قبول بھی کیا یا پھر جناح بن جاتے ہیں سیکولر اور جمہوریت پسند شخصیت بھی لیکن مذہب کے نام پہ ہندوستان کی تقسیم اور تقسیم کے بعد مذہب ہی کے نام پہ مزید جبری الحاقات کے قائد۔
اس پورے منظر نامے کو بیان کرنے کا مقصد فقط یہی ہے کہ ہمارے مزاج میں سچائی کی آبیاری کیوں نہیں ہو پارہی؟ اس کی سب سے بڑی وجہ آخر کیا ہے کہ ہم تضادات کی دنیا سےنکلنے کی کوشش نہیں کر پارہے۔ نئی اصطلاحوں میں کیوں پناہ گزیں بنتے جا رہے ہیں ۔میرے خیال میں اس کی وجہ فقط یہی ہے ہم نے نہ صرف نظریات کے بت بنائے ہیں بلکہ کچھ شخصیات بھی اس بت خانے میں محو خرّام ہیں اور ہم ان نظریات اور شخصیات کو سچ کے ہاتھوں اور تاریخ کے ہاتھوں کبھی بھی پاش پاش نہیں دیکھنا چاہتے۔
ہم بے شک بات انسانیت ہی کی کریں لیکن اپنے مذہبی و جبری تصورات کے لیے تاویلات تراشتے رہیں گے ہم سیکولر بن کر بات بے شک اقلیت مساوات اور جمہوریت کی بالادستی کی کریں لیکن تاریخی جرائم پہ پردہ ڈال کر آگے بڑھنے کو ترجیح دیں گے مذہبی دانشوروں کے پاس چونکہ مذہب کا جواز ہے۔ اس لیے میں دیسی سیکولر اور لبرل حضرات سے دست بستہ عرض کرتا چلوں کہ اب وہ ریاست کو بھی مذہب کا درجہ دے ہی دیں پھر بھلا مذہب اور اس کے قصوں کے سامنے تاریخ اور سچ کب تک کھڑے رہ سکتے ہیں۔
♣