بلوچ لانگ مارچ امریکہ میں

12342678_10153672497610325_3530930860219814955_n

حسن مجتبٰی

کسی دل جلے نے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے سربراہ ماما قدیر کو (انکے کوئٹہ اسلام آباد براستہ کراچی لانگ مارچ کے حوالے سے )”بلوچ ماؤ زے تنگ یا بلوچ ماؤکہا تھا۔ بلوچ ماؤامریکہ میں ہے اور آج کل سخت سردیاں گذر جانے اور موسم ٹھیک ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ جیسے ہی موسم ٹھیک ہوگا تو وہ اور انکے ساتھ انکی تنظیم کی سیکرٹری جنرل آنسہ یا بانک فرزانہ مجید واشنگٹن سے نیویارک تک لانگ مارچ کریں گے۔

لیکن ظاہر ہے مقامی طور اس میں کافی قانونی پیچیدگیاں بھی ہیں، آج جب پورا ملک پاک چین اقتصادی راہدری یا کاریڈور سے بہرہ مند ہونے(سوائے بلوچوں اور خاص طور گوادر کے لوگوں کے) کی منادی سن رہا ہے تو ماما قدیر اور فرزانہ بلوچ امریکہ آگئے ہیں۔ نہ فقط وہ، بلکہ دوسری طرف بلوچ قوم پرستوں کی دو اور آوازیں کریمہ بلوچ اور لطیف جوہر بلوچ بھی کئی دنوں سے اپنا وطن چھوڑ کر شاید کینیڈا آئے ہوئے ہیں۔ 

ماما قدیر اور فرزانہ واشنگٹن ڈی سی میں معروف شخصیت محمد حسین بور کے مہمان تھے جو کہ ایک ایرانی بلوچ ہیں اور ان کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ واشنگٹن کے اقتدار اور کیپیٹل ہل کے حلقوں میں اہم تعلقات رکھتے ہیں۔ کئی ایرانی بلوچ ہیں جو امریکہ میں شاہ کے وقت میں جلاوطنی اختیار کر کر آگئے تھے اور کئی بعد میں خمینی عہد میں نکل آئے۔ لیکن ایرانی اور پاکستانی بلوچوں کے درمیان بلوچ تاریخ ثقافت ، زبان ، روایات کا ایک بڑا اور جذباتی تعلق ہے۔ بلوچ چاہے واشنگٹن میں ہو کہ تہران میں یا کوئٹہ قلات یا لیاری میں۔

میں نے جب ماما اور فرزانہ سے اس کالم کے لیے ٹیلی فون پر بات کی تو وہ ریاست ٹیکساس میں تھے جہاں وہ شہر ہیوسٹن میں سندھی قومپرست رہنما اور جیئے سندہ تحریک کے بانی جی ایم سید کی ایک سو بارہویں سالگرہ منانے کی تقریب میں سندھی قوم پرستوں کی طرف سے مدعو تھے۔ میں نے ان سے یہی پوچھا کہ وہ سندھی قوم پرستوں کے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟ ماما کا کہنا تھا: سندھی بھی انکی طرح یعنی بلوچوں کی طرح مظلوم ہیں۔ انکے بھی لوگ گم ہوئے ہیں، گم ہوکر مارے گئے ہیں۔ پیارے قارئین، لیکن سندھی قوم پرست نوجوانوں کی گمشدگیوں اور پھر انکی لاشوں پر سیاست کرنے اور مال بنانے والے لیڈر کا بیچ چوراہے پر بھانڈہ کیسے اورکس نے پھوڑا اسکا آجکل بڑا چرچا ہے۔(اس پرپھر کبھی سہی)۔

بہرحال جدید سندھی قوم پرستی کے بانی رہنما جی ایم سید کی فقط سالگرہ کا بینر لکھنا بھی پیارے پاکستان کی پیاری پولیس کی نظر میں دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے کہ داد و شہر کے مقامی اسکول کے ٹیچر، رجب علی سولنگی، انکے بیٹے اور جیئے سندھ تحریک کے کارکنوں کو پکڑ کر انسداد دہشت گردی کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا۔

ماما قدیر کہہ رہے تھے کہ ہزاروں بلوچوں کو یا تو غائب کر دیا گیا ہے یا پھر غائب کر کے قتل کردیا گیا ہے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ انہوں نے بلوچوں کے ساتھ ہونیوالی ایسی زیادتیوں کے خلاف پاکستان کے کونے کھدرے اور اقتدار اور انصاف کے ہر ایوان تک پہنچے، بھوک ہڑتالیں کی، کوئٹہ سے کراچی تک لانگ مارچ کیے ، شارٹ مارچ کیے لیکن ان کی بات کسی نے نہیں سنی۔ ان کی شنوائی نہیں ہوئی۔

میرے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا سابق چیف جسٹس نے کئی گمشدگان کو انکے کیسوں میں پیش کرنے اور ظاہر کرنے کے احکامات تو کیے لیکن سب کو پتہ ہے کہ انکے احکامات کو ماننے سے انکار کیا۔ انہوں نے کہا انہیں پاکستانی ریاست، اداروں ، اور عدالتوں سے انصاف کی کوئی توقع نہیں۔ اسی لیے اب وہ اور فرزانہ مجید امریکی اداروں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ تک اپنی بات پہنچانے آئے ہیں۔ کیا وہ جلاوطنی اختیار کر کر آئے ہیں؟ کیا وہ جیسے رپورٹیں آ رہی ہیں دونوں سیاسی پناہ کی درخواستیں دیں گے؟ 

انہوں نے کہا وہ کر بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی۔ بلوچستان انکا وطن ہے ۔ انکے پاس پانچ سال کا امریکہ کا ویزہ ہے وہ آ بھی سکتے ہیں جا بھی سکتے ہیں، ماما اب بلوچستان میں ہونے والی لڑائی کو بلوچوں کی آزادی کی جنگ کہتے ہیں۔ وہ بلوچ عسکریت پسندوں کو سرمچار یعنی سرفروش کہتے ہیں۔ انکی چھاپہ مار مسلح کاروائیوں کو غلط قرار نہیں دیتے لیکن کہتے ہیں کہ ان کا (ماما کا) راستہ یعنی انسانی حقوق کی اور غیر مسلح جدوجہد ان کا راستہ ہے۔ وہ یہ نہیں مانتے کہ ان سرمچاروں نے بلوچستان میں سندھی پنجابی اور دیگر غیر بلوچ قتل کیے ہیں۔

لیکن فرزانہ مجید کہتی ہیں کہ پاکستانی سول سوسائٹی اور میڈیا میں غیر بلوچ تھوڑے لوگ ہی سہی پر یہ لوگ گمشدہ لوگوں اور بلوچوں کے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں پر آواز بھرپور اٹھاتے ہیں۔ فرزانہ بھی بہت سارے لوگوں کی طرح سمجھتی ہے کہ سبین محمود کو اس لیے قتل کردیا گیا کہ انہوں نے اپنے ٹی ٹو ایف میں بلوچستان پر پروگرام کیا اور اس میں انہیں اور ماما کو بطور مقرر مدعو کیا تھا۔ پروگرام کے اختتام پر وہ ہم سے ملکر اپنی والدہ کے ساتھ گھر جانے کو کار میں نکلی تھیں، ہم ابھی ٹی ٹو ایف میں ہی تھے کہ خبر آئی کہ انکو قتل کردیا گیا ہے۔ وہ ہم بلوچوں کے حق میں ایک بڑی آواز تھی۔

لیکن بلوچ حقوق کی تحریک کو قریب اور اندر سے دیکھنے والوں کیا خیال ہے ماما قدیر اور فرزانہ جیسی آوازوں کے ملک سے نکل آ جانے سے پاکستانی ریاستی اداروں نے ایک تیر سے دو شکار کیے ہیں ایک تو یہ ریاستی اداروں کی فتح ہے کہ انکا ملک سے چلے جانا انکے تئیں خس کم جہاں پاک والی بات ہے۔ نیز یہ کہ ریاستی ادارے اب دنیا کو بتا سکیں گے کہ انہوں نے کتنی قدر آزادی دی ہوئی ہے کہ ماما اور فرزانہ جیسے لوگ بھی آزادانہ طور بیرون ملک آ جا سکتے ہیں۔ اس جلاوطن بلوچ سیاسی دانشور کا کہنا ہے کہ امریکہ ہو کہ یورپ کچھ روز یہ لوگ زندہ باد مردہ باد کہیں گے پھر اپنے کام کاج سے لگ جائیں گے کہ یہاں جینا اتنا آسان نہیں ہے۔

لیکن بلوچوں کی سیاسی جدوجہد و اسکے نشیب و فراز پر تز نظر رکھنے والے صحافی ملک سراج اکبر کا کہنا تھا جہاں تک بلوچوں پر جبر کا تعلق ہے تو وہ صرف لیاری بولان یا آوران میں نہیں ہر جگہ جاری و ساری ہے اور ایسے میں قیادت کا غیر مربوط ہونا بھی۔ میں نے یہی سوال یورپ میں رہنے والے ایک بلوچ جلاوطن لکھاری اور تجزیہ نگار سے ای میل پر پوچھا جس نے اسکا تفصیلی جواب لکھ کر عنایت کیا، وہ اپنا نام گمنامرکھنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے جامع تجزیے میں کہتے ہیں:۔

یورپ و امریکہ میں رائے عامہ بنانا میڈیا کے ہاتھوں میں ہے جس کا عشق بلوچستان کے فراق میں تاحال غزل خواں نہیں بلکہ مغربی چینلز اور اخبارات کی آنکھیں شام پر آنسو بہارہی ہیں۔ بلوچی زبان میں سرگرداں ہونے پر ایک ضرب المثل مشہور ہے: گار کْتہ حاکاں، پٹیت پْراں یعنی آپ نے اگر کہیں ، کچھ کھویا ہے بھی تو پہلے اپنی سمت درست کرلیں، کہاں آپ کچھ کھوبیٹھے ہیں۔

رواں سالوں میں بہت ساری قومیں مغرب کی آنکھوں کا تارا بنی ہیں۔ خصوصاً مشرق وسطیٰ میں۔ جس کے ایک دہانے پر بلوچ بھی آباد ہیں لیکن ان کی قوم پرستانہ سیاست کی قسمت شاید اتنی اچھی نہیں۔ بلوچوں کی سیاسی سمت درست ہے یا نہیں البتہ ان کی کمزوریوں میں مغرب سے بے بہا توقعات ضرور شامل ہیں۔ جن کا جمع خرچ جاری علاقائی سیاست کے تناظر میں ٹھیک نہیں بیٹھ رہا۔

ادھر بلوچ نیشنلزم میں، کچھ سال قبل، جن مسائل کے باعث پھوٹ پڑی، ان میں ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ مغربی ملکوں میں بلوچوں کا رسمی نمائندہ کون ہوگا۔ براہمدغ بگٹی اور بلوچ نیشنل موومنٹ کی قیادت نے حیربیار مری کی قیادت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ حالانکہ مغربی ملکوں میں مقیم بلوچوں کی جدوجہد فیس بْک یا ٹوئٹر جیسے پلیٹ فارم پر کمنٹس و شیئر کے ہاتھوں دم توڑتی ہے جبکہ مظاہروں میں بھی زیادہ تر وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جن کے سیاسی پناہ کے کیسز ابھی منظور نہیں ہوئے ہوتے، سیاسی پناہ ملنے کے بعد ان کی قوم دوستی کے غبارے سے ہوا نکل جاتی ہے۔

بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی کو موضوع بنانے والے چار اہم افراد ماما قدیر، فرزانہ مجید، کریمہ بلوچ اور لطیف جوہر اب وہاں نہیں رہے جہاں کی آواز تھے۔ وہ مغرب میں ہیں، جہاں لگثری معاشرہ فرد کو نگل لیتا ہے۔ بلوچ ، کوئی بعید نہیں کہ ، انسانی حقوق کے منظرنامے سے دھوکہ کھاگئے، یہاں کوئی نعرہ بے معنی نہیں۔ ایلان کْردی کی لاش پر دنیا نے آنسو بہائے اور پھر کتنے ایلان سمندر بْرد ہوئے۔ کسی نے شعر نہیں کہا۔ کسی نے ٹوئٹ نہیں کیا۔ کسی نے خود کو ایلان کے نام سے یاد نہیں کیا۔ 

مشرق کی جن قوموں کی بدبختی کے حق میں ہمیں بڑی زوردار مغربی آوازیں سْنائی دیتی ہیں، وہ سیاسی طاقتوں کے مفاد کی راہداریوں سے بن سنور کر ہم تک پہنچتی ہیں۔ ان کا نوک پلک ٹھیک کیا جاتا ہے اور ان پر بولنا فیشن بن جاتا ہے، سیاسی ڈکشنری میں ان کی تفسیریں و توضیحات لکھی جاتی ہیں جیسا کہ پہلے طالبان تھے اب داعش۔

2 Comments