فرحت قاضی
عربی کہاوت ہے
جیسا بادشاہ ہوتا ہے ویسی رعایا ہوجاتی ہے
ہم اپنے سماج میں پائی جانے والی روایات،رسومات،رواجات،سماجی اور اخلاقی قدروں سے یہ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ہمارا جاگیردار طبقہ کیا چاہتا ہے۔
ایک جاگیردار کنبہ میں شادی ہوتی ہے تو بڑے کھانے کے اہتمام سے پہلے جگہ کو سجایا جاتا ہے اس کے رشتے دار ، شہر اور گاؤں کے رئیس روساء اپنے اہل خانہ کے ساتھ آتے ہیں سرکاری اعلیٰ حکام بھی آتے ہیں یہ تمام لوگ بڑی بڑی، خوبصورت اور قیمتی گاڑیوں میں آنا شروع ہوجاتے ہیں۔
آگ پر دیگیں رکھی ہوئی ہیں کباب بن رہے ہیں بٹیرے اور مچھلیاں تل رہی ہیں بکروں اور دنبوں کے گوشت کے سیخ کباب کی بھینی بھینی خوشبو آرہی ہوتی ہے کہیں پر ناچ گانے کی محفل جمی ہوتی ہے جسم تھرک رہے ہوتے ہیں کھانے کے دور چلتے ہیں دنیا بھر کی نعمتیں دسترخوانوں پر سجی ہوتی ہیں امراء وشرفاء اور اعلیٰ حکام کی موجودگی سے جا گیردار کے سماجی اور معاشی تعلقات، مرتبے، اس کے اختیارات اور طاقت و قوت کا اظہار ہوتا ہے۔
درمیانہ طبقہ سے تعلق رکھنے والے خاندان یہ سب کچھ حسرت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں جبکہ غریب غرباء کاموں میں مصروف اور جتے نظر آتے ہیں بارات،ولیمہ اور شادی کی تقریبات کے اختتام پر جاگیردار کے تعلقات اور روابط،بارات اور کھانے پر گھروں میں اہل خانہ تبصرے اور اپنی اپنی آراء کا اظہار کرتے ہوئے جہاں کھانے پینے کی اشیاء کا ذکر کرتے ہیں وہاں گاؤں میں جاگیردار کی غریب پروری اور دریا دلی کے چرچے بھی ہورہے ہوتے ہیں۔
متوسط طبقہ قریب ہونے کے باعث جاگیردار سے بہت جلد متاثر ہوتا ہے چنانچہ شادی بیاہ اور فوتگی کے مواقع پر وہ بھی دعوتیں دیتااور اعلیٰ کھانے کا اہتمام کرتا ہے گوکہ وہ جاگیردار کی ہمسری تو نہیں کرسکتا ہے تاہم اپنی برادری اور طبقہ میں وہ اپنی ناک اونچی رکھنے میں کامیاب رہتا ہے چونکہ غریب طبقہ کے افراد کو ان مواقع پر عام اور روزمرہ کی نسبت لذید اور مہنگا کھاناکھانے کو مل جاتا ہے جاگیردار اور اس کی اہلیہ سخاوت کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں اس لئے یہ غریبوں کی زندگی کے خوشگوار لمحات بن جاتے ہیں جنہیں بعدازاں وہ کبھی کبھار یاد کرتے ہیں اور غیر ارادی طور پر یہ بھی اس کا حصہ بن جاتے ہیں۔
چنانچہ اس طرح جاگیردار کے یہ اقدامات غیر محسوس طور پر رسومات، روایات،رواجات،ثقافت اور سماجی قدروں کا روپ دھار لیتے ہیں اور رفتہ رفتہ کسی کو بھی یاد نہیں رہتا ہے کہ ان کا کب اور کس نے آغاز کیا تھا اور اس کے پیچھے کیا مقاصد کارفرما تھے۔
خان خوانین متوسط اور غریب طبقے کی ذہنی کیفیات اور نفسیات کی جانکاری رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اگر کسی چیز یا فعل کی شب وروز تعریف و ستائش کی جائے اسے اعلیٰ اور اچھا بناکر پیش اور باربار پیش کیا جائے تو پھر ان طبقات کے افراد بھی اسے اچھا کہنے لگتے ہیں اسی طرح ایک عمل اور کام پر اپنی ناراضگی اور خفگی کا اظہار کرتے ہوئے اسے برا کہا جائے تو نچلے طبقات کے افراد اس سے ہچکچانے لگتے ہیں۔
چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ ایک کام یا بات پر جاگیردار کو فائدہ پہنچتا ہے اور وہ ملازم یا دیہاتی کو تھپکی اور شاباش دیتا ہے اور اگرایک عمل سے اس کے مفادات کو زک پہنچتی ہے اور وہ ناک بھوں چڑھاتا اور برامناتا ہے تو رفتہ رفتہ اس کے نوکر چاکر بھی اس فعل کو برا سمجھنے اور کہنے لگتے ہیں القصہ جاگیردار کا نقطہ نظر گاؤں کے باسیوں کا نقطہ نظر اور نظریہ بن جاتا ہے جاگیردار طبقہ کی چالاکی، ہوشیاری اور دیہی باشندوں کی لاعلمی اور سادہ لوحی سے سماج میں ایک نیا کلچر فروغ پاتا ہے۔
جاگیردارانہ رسومات اور رواجات سے متوسط اور غریب طبقات کو پہنچنے والے نقصانات کا پچھلے ابواب میں ذکر ہوچکا ہے یہ رسومات ان کو معاشی طور پر سر اٹھانے کے قابل نہیں رہنے دیتی ہیں یہاں دو الفاظ کے ذریعہ اس حقیقت کی مزید وضاحت کی جاتی ہے۔
غیرت اور بے غیرت کے دو الفاظ پشتون سماج میں اس کی روزمرہ بول چال کا حصہ اور بکثرت بولے جاتے ہیں۔
ہمارے سماج میں دینی مدارس کا رواج قدیم زمانوں سے موجود ہے جب انگریز راج میں ان کے ساتھ ساتھ نئے تعلیمی ادارے کھولے جانے لگے تو اس وقت پشتون معاشرے پر جاگیردار اشرافیہ اور قبائلی سردار پوری طرح حاوی تھے جدید نصاب کے تعارف اور مطالعہ سے جاگیردارطبقہ کو خطرے کی بو آنے لگی اس نے دیکھا اور سوچا کہ اس کے فروغ سے اس کی معاش اور سماج پر گرفت کم زور پڑ جائے گی اس کا کمیہ اور اُس کا بچہ تعلیم کے ذریعے شعور حاصل کرلے گا اور رفتہ رفتہ اس کے اقتدار کا سورج ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ڈوب جائے گا تو اس نے اس کی بالواسطہ مخالفت کی ٹھان لی۔
چنانچہ سماج میں نئی تعلیم کو انگریزی اور غیرت کے منافی قرار دیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہو اکہ پہلے تو دیہہ اور گاؤں میں ایسے سکول کھولنے کی سرے سے اجازت ہی نہیں دی گئی لہٰذا ایک طویل عرصہ تک پشتون سماج جدید تعلیم کے ثمرات سے بہرور نہ ہوسکا اور جب گرلز سکولوں کی تعمیرات کا منصوبہ بنایا گیا تو سکول کی عمارت تو ہوتی تھی مگر اس میں استانیاں اور طالبات نظر نہیں آتی تھیں۔
ایک بچی پڑھنے کے شوق کا اظہار کرتی یا باپ جواز پیش کرتا کہ دیہہ میں سکول کھل گیا ہے اور موچی کی بیٹی روز صبح بستہ بغل میں دبائے جارہی ہے تو بیوی جواب میں کہتی:۔
شرم کرو ایمل خان کے ابو،ہم پٹھان ہیں لوگ کیا کہیں گے کہ بختور خان اتنا زیادہ بے غیرت ہوگیا ہے کہ اس کی بیٹی گھرسے باہر جائے گی اور اب وہ بیٹی کی کمائی کھائے گا۔ اس طرح غیرت کا تصور اس غریب خاندان کی ترقی اور خوشحالی کی راہ میں رکاؤٹ بن کر کھڑا ہوگیا۔
غریب غرباء جاگیردار طبقہ کے زیر اثر ہوتے ہیں اس لئے کبھی یہ جاننے کی سعی و کاوش نہیں کی گئی کہ غیرت اور بے غیرتی کے یہ الفاظ کن مواقع پر بولے جاتے ہیں اور ان کے کیا اثرات،فوائد اور نقصانات ہیں۔
پشتون سماج میں جدید تعلیم کی ہی نہیں بلکہ جدید ایجادات کی بھی بھر پور مخالفت کی گئی اگر یہ کہا جائے کہ ہر نئی چیز اور خیال کو برا تصور کیا جاتا تھا تو بے جا نہیں ہوگا اس معاشرے میں کسی تصور اور چیز کو فقط اسی لمحہ قبول اور اپنایا جاتا تھا جب اس کے باسیوں کو پورا پورا یقین ہوجاتا تھا کہ یہ مروجہ روایات اور سماجی قدروں سے متصادم نہیں ہے جبکہ اس عمل میں برسہا برس لگ جاتے تھے
اس صورت حال کے دو بڑے اسباب تھے انگریز دور اقتدار کے دوران اور تخلیق پاکستان کے بعد بھی پشتون سماج سے امتیازی سلوک برتا گیا یہاں صنعت و کارخانہ اورانڈسٹریل اسٹیٹ بنانے کی جانب توجہ نہیں دی گئی قبائلی علاقہ جات کو تو جوں کا توں ہی رہنے دیا گیا دوسرا نئی تعلیم اور جدید سائنسی آلات اور ایجادات سے جن طبقات کے مفادات اور اختیارات پر ضرب پڑتی اور منفی اثرات پڑنے کا اندیشہ ہوتا تھا وہ مخالفت میں رائی کا پہاڑ بنانے سے بھی نہیں چوکتے تھے ان کو بس موقع کی تلاش رہتی تھی۔
چنانچہ ایک طالبہ تانگے بان کے ساتھ بھاگ جاتی یا راستے میں نوجوان سے آنکھ مٹکا ہوجاتا تو اس ایک واقعہ کو بنیاد بناکر عوام کو تعلیم اور سکول سے برگشتہ کرنے کا موقع ہاتھ سے نکلنے نہیں دیا جاتا تھاحالانکہ اس نوعیت کے واقعات اُن دیہات میں بھی پیش آتے تھے جہاں سرے سے تعلیمی اداروں کا نام و نشان بھی نہیں ہوتا تھا حقیقتاً یہ ایک بند معاشرہ تھا اور عورت خصوصاً لڑکیوں کو پہلی مرتبہ گھر کی دہلیز سے باہر قدم نکالنے اور دنیا دیکھنے کاموقع ہاتھ لگا تھا جسے دیکھنے سے ان کی آنکھیں چندیا گئی تھیں
بہر کیف، جاگیردار اور ان دیگر طبقات اور مکتبہ فکر کا مقصد غریب غرباء کو جدید علوم اور ایجادات سے دور رکھنا تھا اور اپنے اس ارادے میں وہ عرصہ دراز تک کامیاب بھی رہے تھے۔
غریب غرباء خان خوانین کے زیر اثر ہوتے ہیں اور انہوں نے ان کو اپنے سانچے میں ڈھالا ہوتا ہے چنانچہ اسی لئے وہ کسی چیز اور سماجی قدر کو نفع و نقصان کی نظر سے دیکھنے کی زحمت نہیں کرتے ہیں وہ اپنے اور علاقے کی ترقی کے بارے میں سوچنا گوارا نہیں کرتے ہیں وہ جاگیرداروں کے بنائے ہوئے قواعد و ضوابط کے پابند رہتے ہیں اور یہی حالات اور تصورات ان کی بد حالی اور علاقے کی پس ماندگی کے بنیادی اسباب بھی بنے رہتے ہیں۔