خالد تھتھال
اموی خلیفہ ہشام بن عبدالملک کے زمانے میں مسلمان فوجیں فرانس پر حملہ آور ہوئیں۔ بورڈو پر قبضہ کرنے کے بعد مال غنیمت سے بھرے چھکڑوں سے اسلامی لشکر دوسری سمت کا رخ کر رہا تھا کہ ان کا سامنا فرانسیسی جنرل چارلس مارٹیل سے ہوا۔ جو پہلے سے ہی طورس کے مقام پر مسلمان فوجوں کے انتظار میں تھا۔ بہت گھمسان کی جنگ ہوئی، قریب تھا کہ فرانسیسی فوج کے پاؤں اکھڑ جاتے کہ افواہ پھیل گئی کہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سےعطا کیے گئے مال غنیمت کو پیچھے سے کفار نے لوٹنا شروع کر دیا ہے۔ مسلمان لشکر کے اپنے مال غنیمت کی حفاظت کیلئے واپس پلٹنے کی وجہ سے بھگدڑ مچ گئی۔ جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو اتنی بری شکست دی کہ ان کا کمانڈر عبدالرحمٰن غافقی بھی شہید ہو گیا۔ جنگ طورس کو عربی میں بلاط الشہدا کہا جاتا ہے۔
اس جنگ کو مسلمانوں کی تاریخ میں اتنا اہم تصورکیا جاتا ہے کہ کہا جاتا ہے اگر اس دن مسلمان فوجیں مال غنیمت بچانے کی بجائے لڑائی پر توجہ دیتیں تو آج دنیا کا نقشہ مختلف ہوتا، آج یورپ عیسائیوں کی بجائے مسلمانوں کا براعظم کہلاتا۔ مشہور مورخ ایڈورڈ گبن کا کہنا ہے ۔
”رائن کو پار کرنا نیل اور فرات سے زیادہ مشکل نہیں ہے۔ عربی بحری بیڑہ بغیر کسی بحری مزاحمت کے تھیمز کے دہانے آ پہنچتا۔ ممکن ہے اس وقت آکسفورڈ میں قرانی تفسیر پڑھائی جا رہی ہوتی اور اس کے میناروں سے محمد کی قرآنی نزول کی تقدیس بیان کی جا رہی ہوتی“۔
اس جنگ کے بعد مسلمانوں نے کبھی یورپ کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا۔ لیکن جنگ عظیم دوم میں مردوں کی آبادی کم ہونے اور یورپ کی صنعتی ترقی کے نتیجے میں مزدوروں کی ضرورت اس قدر بڑھی کہ مقامی آبادی کم پڑنے لگی۔ تو سابقہ نو آبادیات سے مسلمان مزدروں کو ملک میں لانا ضروری سمجھا گیا۔ فرانس کی سابقہ نوآبادیوں سے مزدور فرانس پہنچنے لگے اور برطانیہ نے اپنے سابقہ مقبوضات سے تعلق رکھنے والوں کیلئے دروازے کھول دیئے۔
جرمنی کے ترکی کے ساتھ اچھے تعلقات تھے، لہذا وہاں سے ترکوں کی کثیر تعداد آن پہنچی۔ یورپ میں کچھ ممالک ایسے بھی تھے جن کی دوسرے براعظموں میں کوئی نوآبادی نہ تھی۔ وہاں بھی بہتر مستقبل کی تلاش میں لوگ پہنچنے لگے۔
ملازمت اور رہائشوں کے حصول کے چند سالوں بعد ان غیر ملکی مزدوروں کے بیوی بچے بھی وہاں پہنچنا شروع ہو گئے۔ شروع کے سالوں میں بچوں کو اپنی ثقافت سکھانے کا مسئلہ تھا جس کیلئے مادری زبان سکھانا سب سے اہم سمجھا گیا۔ ناروے جیسے ملک میں محکمہ تعلیم نے اس دلیل کو مد نظر رکھتے ہوئے اردو زبان کی سکول میں تعلیم شروع کر دی کہ نارویجن سیکھنے میں اردو مددگار ثابت ہو گی کیونکہ کسی بھی نئے لفظ کو سیکھنے کیلئے آپ کے ذہن اگر پہلے سے اس چیز کا تصور موجود ہو گا تو نیا لفظ سیکھنا آسان ہو گا۔
مثلاً اگر کسی کو اردو کے آلو لفظ کا علم ہے تو اسے بہت آسانی سے سمجھایا جا سکتا ہے کہ نارویجن میں آلو کو کیا کہتے ہیں۔ لیکن اگر کسی کو آلو کا پتہ نہیں اور نہ ہی اس نے آلو کو دیکھا ہے تو اسے نارویجن کا لفظ سکھا دینے کے باوجود بھی پتہ نہیں چل سکے گا کہ یہ نارویجن لفظ کا اصل مطلب کیا ہے کیونکہ اس کا تو کبھی آلو سے واسطہ ہی نہیں پڑا۔
میری بیوی اتفاق سے کچھ عرصہ ایک سکول میں اردو کی استاد رہی ہے، اس کے بقول جب بھی سکول انتظامیہ کی پاکستانی والدین سے میٹنگ ہوا کرتی تھی، تو اس میٹنگ میں ہر کسی کا سوال اپنے بچے کی اردو کے متعلق ہوا کرتا تھا، دوسرے مضامین والدین کے نزدیک زیادہ اہم نہیں ہوا کرتے تھے۔
ثقافت سکھانے کے نقطہ نظر سے دوسری اہم چیز دینی تعلیم تھی جس کیلئے قرآن کا پڑھنا اہم ٹھہرا۔ بچوں کو سکول سے واپس آنے کے فوراً بعد مساجد میں بھیج دیا جاتا ۔ وہاں سے تھکے ہارے لوٹتے تو اکثر اوقات سکول کا کام کیئے بغیر ہی سو جایا کرتے تھے۔ لیکن ان مشکلات کے باوجود کچھ لڑکے تعلیم میں آگے بڑھ پائے۔
پہلی نسل کی زیادہ تر اڑان یہاں تک ہی پہنچ پائی۔ لیکن جب نئی نسل آگے آئی تو وہ مقامی زبان بولنے کے علاوہ مقامی معاشرے کے قواعد و ضوابط سے بہتر طور پر آشنا تھے۔ لہذا مختلف مطالبات سامنے آنا شروع ہو گئے، جس کے نتیجے میں عیدین کی بغیر تنخواہ چھٹی کے علاوہ یونیورسٹی کی کینٹین میں حلال کھانا مہیا کیا جانے لگا۔ تین سال پہلے ایک ہسپتال میں حلال کھانا مہیا ہونا شروع ہو گیا ہے۔
انہی دنوں سلمان رشدی کی ”شیطانی آیات“ نامی کتاب منظر عام پر آئی، یورپ کے تمام ممالک میں اس پر بہت مظاہرے ہوئے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ تمام فرقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان ایک مٹھی بن کر ابھرے۔ اس حوالے سے سلمان رشدی کو جہاں مسلمانوں کی دل آزاری کرنے پر مطعون کیا جاتا ہے وہیں سلمان رشدی کا بالعموم امت مسلمہ اور بالخصوص مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں پر احسان کا ذکر نہیں کیا جاتا۔ مسلمان وقتی طور پر ہی سہی لیکن اس کتاب کے نتیجے میں فرقوں سے بالاتر ہو کر ایک لڑی میں پروئے نظر آئے۔ یہی وہ کتاب ہے جو برطانیہ میں مسلم کونسل فار برٹن جیسی تنظیموں کے وجود میں آنے کا باعث بنی۔
ناروے میں بھی جلسے جلوس شروع ہوئے۔ سب سے بڑے مظاہرے کی قیادت مرکزی جماعت اہلسنت کی مسجد کے امام صاحب نے کی۔ موصوف کو نارویجن کا ایک لفظ بھی نہ آتا تھا، لہذا جب بھی ان سے نارویجن میڈیا نے کوئی سوال پوچھا تو ان کے ساتھ کھڑے اوسلو کی شہری حکومت کے ایک پاکستانی نمائندے ترجمان کا کردار ادا کرتے تھے۔ یہی وہ وقت ہے جب مسجد قوت کے مرکز کے طور پر ابھری، اب پاکستانی مسلمانوں کی حقیقی نمائندگی شہری حکومت میں موجود نمائندوں کی بجائے مسجد میں منتقل ہو گئی اس کے بعد جب بھی کوئی متنازعہ صورت پیش آئی، نارویجن میڈیا کسی ایک مسجد میں جا کر امام صاحب سے اس پر روشنی ڈالنے کو کہتے۔ کوئی بھی اہم اعلان کرنا ہوتا، وزرا یا اہم سیاسی نمائندے مسجد جا کر حاضرین سے خطاب کرتے۔
جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے، مسلمانوں کے مطالبات بڑھتے جا رہے ہیں، جنہیں مقامی ”لبرلز“ اور سابقہ مارکس وادیوں کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ ایک سابقہ چین نواز مارکسی جو اب تھروند علی نام سےشیعہ مسلمان کے طور پر جانے جاتے ہیں وہ ایک ایسے سکول کی منظوری کیلئے سرگرداں ہیں جس میں اسلامی نصاب ہو گا، لیکن ابھی تک یہ مطالبہ منظور نہیں ہو پایا۔
اوسلو یونیورسٹی جیسے سیکولر ادارے میں مسلمانوں کیلئے ایک کمرہ مختص ہو چکا ہے جہاں وہ عبادت کر سکیں۔ ایک وقت تھا کہ مسلمان ایئر پورٹ کے اندر ہال میں باجماعت نماز نیت لیتے تھے، اب وہاں بھی اسی مقصد کیلئے کمرہ مختص ہو چکا ہے۔ کچھ مسلمان کوشش کر رہے ہیں کہ ہر کام کی جگہ پر بھی ایسا ہی کمرہ ہونا چاہیئے تاکہ اگر کوئی مسلمان ملازم کام کے اوقات کے دوران نماز ادا کرنا چاہے تو ایسا کر پائے، لیکن ابھی تک یہ مطالبہ پورا نہیں ہو پایا۔
مقامی آبادی کا کچھ حصہ ان تمام سرگرمیوں کو شک اور ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے، ان کے نزدیک مسلمان کچھ لبرلز اور سیکولرز سیاستدانوں کی مدد سے ان کے ملک کو بہت خفیہ انداز سے اسلامائز کر رہے ہیں۔ 22 جولائی 2011 میں آندرس بحرنگ برائیوک کا اس وقت کی حکومتی جماعت لیبر پارٹی کی یوتھ ونگ کے پچاسی ممبران کو موت کی نیند سلا دینا اسی رویئے کی غمازی کرتا ہے کیونکہ اس کے نزدیک یہ جماعت ملک سے غداری کی مرتکب ہو رہی ہے۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ کسی بھی تنازعہ کی صورت میں فریقین اپنے مطالبے پیش کرتے ہیں جس کے بعد وہ تنازعہ ختم ہو جاتا ہے، مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کے سلسلے میں ایسا نہیں ہے۔ ان کا مانا جانے والا ایک مطالبہ اگلے نئے مطالبے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ ابھی تک مسلمانوں نے اپنا آخری مطالبہ پیش نہیں کیا جس کے بعد وہ مزید مطالبے کرنا چھوڑ دیں گے۔ گو کچھ حلقے ایسے ہیں جو پورے ملک یا اس کےے کچھ حصوں کو اسلامی شرعی قوانین کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں، لیکن انہیں سب مسلمانوں کی حمایت حاصل نہیں ہو پائی۔ برطانیہ میں انجم چوہدری اور ناروے میں امت رسول کے علاوہ شریعہ فاربلجیئم، کے علاوہ فرانس و نیدر لینڈ میں بھی ایسی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔
اس وقت مغربی ممالک میں مقیم ”اعتدال پسند“ مسلمان بہت مشکل کا شکار ہیں، ابھی ایک واقعہ کی توجیہ پیش نہیں کر پاتے کہ اگلا واقعہ ہو جاتا ہے یا مسلمانوں کا کوئی گروہ ایسا بیان داغ دیتا ہے کہ مسلمان ”اعتدال پسندوں“ کے پاس سوائے اس دلیل کے کوئی چارہ نہیں رہتا کہ یہ لوگ اسلام کی نمائندگی نہیں کرتے۔ یہ خوراج ہیں، یہ انتہا پسند ہیں وغیرہ۔
سال نو کے موقع پر کولون میں ہونے والا واقعہ ابھی تک زیر بحث ہے کہ جرمنی میں موجود مسلم ستارہ نامی ایک پریشر گروپ کا بیان آ گیا ہے کہ اگر جرمنی کی حکومت یہ چاہتی ہے کہ شمالی افریقہ سے آنے والے مسلمان مہاجرین ان کے معاشرے کا حصہ بنیں اوریہاں مزید جنسی تشدد اور زنا بالجبر کے واقعات پیش نہ آئیں تو انہیں شراب پر پابندی عائد کرنا ہو گی۔ شراب نوشی سے ٹریفک حادثات، تشدد اور زنابالجبر کے واقعات پیش آنے کے علاوہ یہ صحت کیلئے بھی انتہائی مضر ہے۔
لہذا جب تک اس پر پابندی عائد نہیں کی جاتی تب تک ان واقعات میں کمی ایک خام خیالی ہے۔ شراب پر پابندی کے حوالے سے ناروے کے مقامی فلاسفر لارش گُولے بھی اس قسم کے خیالات رکھتے ہیں کہ نارویجنوں کا چاہیئے کہ کرسمس کے سلسلہ میں ہونے والی پارٹیز میں شراب نہ پیئں تاکہ مسلمان اپنے آپ کو وہاں ویلکم محسوس کریں۔
مسلم ستارہ جن کے فیس بک پر بیس ہزارپیروکار ہیں۔ ان کے بقول کولون میں ہونے والے واقعات کا میڈیا میں یوں بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کا واحد مقصد یہ ہے کہ ملک میں اقلیتوں کے خلاف نسل پرستانہ جذبات کو ابھارا جائے۔ اس گروپ کے بقول اس رات کو زنابالجبر کا شکار ہونے والی خواتین اپنے لباسوں کی وجہ سے توجہ کا مرکز بنیں کیونکہ شمالی افریقہ سے تعلق رکھنے والے ایسے لباس دیکھنے کے عادی نہ تھے ۔
مسلم ستارہ کے بقول اتنے عرصہ سے سکولوں کے اندر بیالوجی کی کلاسسز میں جہاں جانداروں کے جنسی رویوں اور جنسی فعل کے متعلق اتنا پڑھایا جاتا ہے، جنس کی تعلیم دینے والے یہ بنیادی سبق کیسے نظر انداز کر گئے کہ آپ ہرن کو بھوکے شیروں کے سامنے پھینک کر یہ امید کر رہے ہیں کہ شیرکسی رد عمل کا مظاہرہ نہیں کرے گا۔ یہ بہت حیران کن بات ہے کہ جنسی رویوں کے متعلق سکھانے والوں نے روزمرہ کی زندگی میں اس کے اطلاق کو کیسے بھلا دیا۔
برطانیہ کی اخبار ڈیلی میل کے مطابق مسلم ستارہ کی فیس بک پر ایک پوسٹ جو بعد میں ڈیلیٹ کر دی گئی، اس میں لکھا گیا خواتین کو سوچنا چاہیئے کہ کیا یہ دانشمندی ہے کہ وہ کم کپڑے پہنے، شراب پیئے ہوئے ایک ایسی جگہ چلی جائیں جہاں لوگوں کے ہجوم نے شراب پی رکھی تھی۔ جب خواتین گھر سے باہر جاتی ہیں تو ان پر لباس کے حوالے سے کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
جرمنی میں بہت زیادہ غیر مسلم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہم ایک عیسائی ملک میں رہتے ہیں. حضرت عیسیٰ کی ماں مریم ایک عیسائی خاتون کے انداز میں رہیں۔ ہم سوال کرتے ہیں کہ کیا یہاں کی عورتیں کو عیسائیوں والا لباس نہیں پہننا چاہیئے؟۔ اس لیے ہم مشورہ دیتے ہیں کہ یہاں کی خواتین کو خواتین کو لیڈی گاگا کی بجائے کنواری مریم کو اپنا رول ماڈل بنانا چاہیئے۔
کولون کے امام سمیع ابو یوسف کے بقول کولون کے واقعہ کی اصل خواتین کا خوشبویات استعمال کرنا ہے۔ انہوں نے آرای این نامی روسی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا۔ ایک وجہ تو خواتین کا لباس تھا۔ اور اگر وہ مستقبل میں اس قسم کے کھلے کپڑوں کے ساتھ پرفیومز کو بھی استعمال کریں گی تو مستقبل میں اس طرح کے مزید واقعات بھی ہوں گے۔
امام صاحب کے اس تبصرے کے بعد گرین پارٹی سے تعلق رکھنے والے ممبر پارلیمنٹ وولکر بیک نے پولیس سے شکایت درج کروائی کہ امام صاحب کے اس قسم کےبیانات مزید جرائم کیلئے اکسا رہے ہیں، کولون ایکسپریس کے نمائندے نے جب سوال کہ کیا امام صاحب واقعی ان جرائم کی ذمہ داری خواتین پر ڈال رہے ہیں تو اسے جواب دیا گیا کہ میرے بیان کو سیاق و سباق سے کاٹا گیا ہے، جب کہ میرا کہنا یہ تھا کہ کولون میں شمالی افریقہ سے آنے والے نشہ آور ادویات استعمال کرتے ہیں اور سال نو کو انہوں نے شراب پی رکھی تھی جس وجہ سے وہ تمام حدیں پار کر گئے۔
جب ان سے استفسار کیا گیا کہ کیا وہ واقعی اسے ہی اصل وجہ سمجھتے ہیں تو ان کا کہنا تھا۔ ان خواتین نے کھلے لباس کے علاوہ خوشبو بھی استعمال کی ہوئی تھی اور جب وہ شمالی افریقی لوگوں کے پاس سے گزریں جو شراب پیئے ہوئے تھے، تو ان پر جنسی حملہ ہونے کیلئے کافی جواز تھا، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میرے نزدیک خواتین اپنی مرضی کا لباس نہ پہنیں۔
تنازعہ بڑھنے کی صورت میں جرمن سیکورٹی کے ماہرین نے اقرار کیا ہے کہ وہ ایک عشرے سے ان امام صاحب کی مسجد کی نگرانی کر رہے ہیں کیونکہ 2004 میں بھی ایک واقعہ پیش آ چکا ہے، اس مسجد میں عرب مجاہدین کے ایک خفیہ نیٹ ورک کو تبلیغ کی جاتی ہے۔ لیکن ابھی تک وہ کوئی ٹھوس ثبوت حاصل نہیں کر سکے کہ اس کا کسی دہشت گرد حملے سے کوئی تعلق ہے۔ لیکن ان کے سعودی عرب کی سلفی وہابیت سے تعلق کی تصدیق ہو چکی ہے۔
جرمنی کی فیڈرل ڈیموکریٹک پارٹی کے سیاستدان توبیاس کے مطابق زنا بالجبر کے واقعات کا ان دلائل سے دفاع کرنے والے اکیلے مسلمان نہیں ہیں بلکہ سوشل میڈیا پر بہت زیادہ سلفی بھی اسی دلیل کو استعمال کر رہے ہیں۔
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
♦