حیدر چنگیزی
یہ 1980اور1970کے دہائیوں کی بات ہے جب” سوویت یونین” ا فغانستان پرحملہ کر کے قابض ہو چکُا تھا۔ تب پاکستان میں ملٹری ڈیکٹیٹرجنرل ضیاء الحق کا دورِ حکومت چل رہا تھا۔
یہ بات کسی سے عیاں نہیں کہ اُس وقت کی ضیا ء حکومت نے امریکہ کی جانب سے افغانستان میں” سوویت– امریکہ” کی ایک پراکسی جنگ لڑی اور امریکہ کی بھر پور مدد کی تھی۔ضیاء الحق نے امریکہ کی حمایت میں نہ صرف طالبان کمانڈوز کی بھرتی و ٹریننگ شروع کی بلکہ انُہیں اسلحہ فراہم کرنے میں بھی مدد کی۔
سوویت یونین کا مقابلہ کرنے کے لے اسلحہ روزانہ کراچی پورٹ سے کنٹینروں کی صورت میں پاکستان آتا تھا جہاں پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے افسران اُن کنٹینرز کو وصول کرکے پشاور اور کوئٹہ کے راستے طالبان کمانڈوز کے لیے سپلائی کرتے تھے۔ لیکن پاکستان میں ایسی بہُت سی جماعتیں تھیں جو جنرل ضیاء کے ان ارادوں سے نا خوش تھیں۔
لہٰذا ضیاء حکومت نے” اسلامائزیشن” کے نام پہ مذہبی جماعتوں کو مسلح کیا تاکہ اُن کے ذریعے اسلامائزیشن کے نام پر انُ تمام دوسری جماعتوں کو خاموش کیا جاسکے جو اسِ” پراکسی وار” میں رکاوٹ بنے ہوئیں تھیں۔اُن مسلح جماعتوں میں سے ایک” اسلامی جمیعت طلباء” تھی جس میں طلباء مُسلح ہو کر تعلیمی اداروں میں آ تے اور“سوشلسٹ /مارکسسٹ” نظریہ رکھنے والوں کو سر عام تشدُد کا نشانہ بناتے۔
اسلامی جمیعت طلباء کے سامنے پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن جو کہ ” سوشلسٹ /مارکسسٹ “نظریے پر مبنی تھی ، اُن ہتھیاروں کی زد میں آگئی۔یاد رہے کہ سلام اللہ ٹیپو جس نے 1981میں پی آئی اے کی ڈومیسٹک فلائٹ کو ہائی جیک کر کے ضیاء حکومت سے اپنے دوستوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا، بھی ایک طالب علم تھا جس کا تعلق سوشلسٹ نظریے پر مبنی پی ایس ایف سے تھا۔ بعد ازاں1987 میں آل پاکستان مہُاجر سٹوڈنٹ آرگنائزیشن کے طلباء ممبرز بھی انِ ہتھیاروں کے استعمال میں پیش پیش رہے۔
یوں پاکستان میںیہ خطرناک ہتھیار سرِ عام استعمال ہونے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان میں“کلاشنکوف کلچر” کی ابتداء ہونے لگی جس کی وجہ سے ملک میں مزید خوف اور دہشت پھیلنے لگی۔ آرمی پبلک سکول اور باچا خان یونیورسٹی میں ہونے والے دہشت گردی کے بعد ریاستِ پاکستان کی جانب سے اس دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے جو اقدام اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس کے منفی اثرات ہمارے معاشرے پر پڑ ر ہے جن کو ہم ماضی میں دیکھ چُکے ہیں۔
آرمی پبلک سکول کے واقعے کے بعد آرمی اور رینجرز کی طرف سے ملک کے کئی سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اساتذہ اور طلبُاء و طالبات کو کاؤنٹر ٹیررازم ٹریننگ دی گئی جس میں انُہیں مخُتلف ہتھیاروں کا استعمال سکھایا گیااور یوں لگ رہا تھا جیسے ہتھیاروں کا استعمال پاکستان کے تعلیمی نصاِب میں شاملِ ہوُ۔
اب باچا خان یونیورسٹی کے واقعے کے بعد پنجاب اور سندھ کے کئی تعلیمی اداروں میں27جنوری 2016 کوپھر سے سٹوڈنٹس کو ٹریننگ دی جارہی ہے اور اس بار نہ صرف سٹوڈنٹس بلکہ گارڈز، چوکیدار، قاصد اور چپڑاسی حضرات بھی شامِل ہیں۔
کم عمرطالب علموں کو کتاب کی بجائے ہتھیار تھمانے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی ریاست نہ صرف شہریوں کو تحفظُ دینے میں نا کام ہو چُکی ہے بلکہ ایک بار پھر سے کلاشنکوف کلچر کو فروغ دیا جارہاہے اور یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ پاکستان میں دُشمن کے بچوں کو پڑھایا جارہا ہے یا پاکستان کے معصوم بچوں کو لڑایا جا رہا ہے۔