خالد تھتھال
منگل 26 جنوری کو مصری شاعرہ اور پچھلے مصری پارلیمانی انتخاب کی امیدوارہ فاطمہ ناعوت کو عدالت نے تین سال قید اور 2550 ڈالر کا جرمانہ عائد کر دیا۔ ان پر دین اسلام کی ہتک کرنے کا جرم تھا۔
فاطمہ 18 ستمبر 1964 کو قاہرہ میں پیدا ہوئیں۔ 1987 میں قاہرہ کی جامعہ عين شمس سے آرکیٹیکٹ کے شعبہ کی تعلیم حاصل کی۔ دس سال تک اسی شعبے سے منسلک رہنے کے بعد انہوں نے ملازمت چھوڑ کر پوری زندگی ادب کیلئے وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔
فاطمہ ناعوت عربی شاعری کا ایک نمایاں نام ہیں۔ وہ مصر کی انجمن مصنفین، انٹر نیٹ کی عرب انجمن مصنفین ، عالمی شاعروں، مصری ادیبوں کی انجمن اور اسی قسم کی کئی اور ادبی انجمنوں کی رکن ہونے کے علاوہ عربی کے ادبی ثقافتی رسالے قوس قزح کی مدیر اعلیٰ بھی ہیں۔
اب تک دس کتابیں ان کے نام کے حوالے سے شائع ہو چکی ہیں۔ جو شاعری کے پانچ مجموعوں، چار تراجم اور تنقید کے حوالے سے ایک کتاب پر مشتمل ہیں۔ فاطمہ کی کتابیں انگریزی، فرانسیسی۔ جرمن، اٹالین، ڈچ، سپینش، چائنیز اور کردی زبان میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔
ادبی محفلوں میں شرکت کے حوالے سے وہ مشرق وسطیٰ اور یورپ بھی جا چکی ہیں۔ ان کا کام مصر کے علاوہ یورپ، امریکہ اور مشرق وسطیٰ کے عربی جرائد میں بھی چھپتا ہے۔
سنہ 2006 میں ہانگ کانگ میں عربی ندوۃ نامی ایک سائٹ کے شاعری کے مقابلے میں ان کی کتاب ”فوق كفِّ امرأة“ کو پہلا انعام مل چکا ہے۔ جس کا چینی اور انگریزی ترجمہ جنوری 2007 میں شائع ہوا۔
عید قربان کے موقع پر فاطمہ نے جانوروں کی قربانی پر سخت تنقید کی۔ الزام کے مطابق انہوں نے فیس بک پر لکھا۔ ” ہر سال اس قتل عام کی وجہ یہ ہے کہ ایک نیک بندے نے اپنے بیٹے سے متعلق ایک ڈراؤنا خواب دیکھا۔ گو وہ ڈراؤنا خواب اس نیک آدمی کیلئے تو ختم ہو گیا۔ لیکن اس مقدس ڈراؤنے خواب کی قیمت ہر سال بھیڑیں اپنی زندگی سے چکاتی ہیں“۔
مصری پینل کوڈ کی شق 98 کا تعلق مذہبی منافرت سے ہے۔ اس کے مطابق کوئی بھی انتہا پسندانہ الفاظ خواہ وہ زبانی ہوں یا تحریری، جن سے کسی بھی الہامی مذہب کی ہتک، یا اس کے ماننے والوں کے خلاف نفرت یا ملکی سالمیت کیلئے خطرہ ہوں، ایسی صورت میں مجرم کو چھ ماہ سے پانچ سال کی سزا کے علاوہ کم از کم 63 پاؤنڈ جرمانہ ہو سکتا ہے۔
مصر کے انگریزی اخبار ڈیلی نیوز کے مطابق بیباک سیکولر مصنفہ نے اسلامی قربانی کو انسان کے ہاتھوں جانوروں کا سب سے بڑا قتل عام قرار دیا ہے۔ اس اخبار کے حوالے سے فاطمہ کے وکیل کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔
وکیل صفائی کا کہنا ہے کہ انہیں یقین تھا کہ ان کی موکلہ بری ہو جائیں گی۔ لیکن وہ عدالتی فیصلے پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔ ان کے بقول ہم نے ایسے ثبوت و شواہد مہیا کیے تھے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کی موکلہ کا جرم کرنے کا ارادہ نہیں تھا اور ان ثبوتوں کو استغاثہ کے حکام بھی تسلیم کر چکے تھے۔ اس کے باجود ان کی موکلہ کو سزا ہونا بہت عجیب لگ رہا ہے۔
فاطمہ ناعوت کا اس سزا کے بارے میں کہنا ہے ، میں جیل جانے کی پرواہ نہیں کرتی، لیکن میں اداس ہوں کہ اس سماج کے سدھارنے کیلئے اصلاح پسندوں کی تمام کوششیں رائیگاں ہو رہی ہیں۔ یاد رہے کہ فاطمہ کا مقدمہ مصر میں ہونے والی اس بحث کے بعد ہوا جس کا مقصد توہین مذہب کو جرم گرداننے کا خاتمہ کرنا تھا۔
♣