نادرگوپانگ
’’ جو اپنا نام لکھ سکتے ہیں وہ خواندہ ہیں‘‘ اتنی غیر معیاری تعریف ہونے کے باوجود پاکستان میں خواندگی کی شرح میں دو فیصد کمی ہوئی ہے۔ خواندگی کی شرح 54% ہے۔
یونیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق 27 ملین ایسے بچے ہیں جن کی عمر سکول جانے کی ہے اور وہ سکول نہیں جاتے۔ بہت کم طالبعلم کالجز میں جا پاتے ہیں اور صرف 2% نوجوان یونیورسٹی میں جاتے ہیں۔ تعلیم کے شعبے پر بجٹ کا صرف 2 فیصد مختص کیا جاتا ہے جو کرپشن کے جالے سے ہوتا ہوا حقیقی معنوں میں بہت کم تعلیم پر خرچ ہوتا ہے۔ پاکستان تعلیم کے شعبے پر خرچ کرنے کی فہرست میں دنیا میں 134ویں نمبر پر آتا ہے۔ سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی تعداد آبادی کے تناسب سے انتہائی کم ہے۔
یہاں پر دو متوازی تعلیمی نظام ہیں۔ ایک سرکاری تعلیمی نظام ہے جس میں بہت سارے سکول مالی مسائل کا شکار ہیں اور عمارتیں بہت زیادہ بوسیدہ ہو کر کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ کافی سارے سکول کاغذات میں تو موجود ہیں لیکن حقیقی طور پر ان کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ تمام سرکاری سکولوں میں زیر تعلیم بچوں کا تعلق غریب گھرانوں سے ہے۔ اور سرکاری کالجز میں 90 فیصد سے زائد غریبوں کے بچے زیر تعلیم ہیں۔
دوسرا نجی تعلیمی نظام ہے۔ ان اداروں کی حالت سرکاری اداروں سے تھوڑی بہتر ہے لیکن نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنا غریب کے بس کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ تمام ادارے بہت زیادہ مہنگے ہیں۔ ان اداروں کا تعلیمی معیار بھی روز بروز گرتا جا رہا ہے۔ کیونکہ پاکستان میں تعلیم ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے اور سرمایہ دار بہت زیادہ منافع بٹورنے کے لیے تعلیمی شعبے میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔
زیادہ تر لوگ جو نجی تعلیمی ادارے کی پالیسی بناتے ہیں یا مالک ہیں ان کا دور دور تک تعلیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور یہ لوگ تو غیر نصابی سرگرمیوں اور نصابی سرگرمیوں کا فرق تک نہیں جانتے۔ اگر اس طرح کے لوگ سکول چلائیں گے اور اساتذہ بھرتی کریں گے تو بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سکولوں کی کیا حالت ہو گی۔نجی تعلیمی اداریوں میں اساتذہ کے لیے کام کے حالات بدترین ہیں اور اساتذہ کو بہت کم تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ پنشن اور میڈیکل الاؤنس وغیرہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ نجی سکول تو نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو جیب خرچ دے کر انکی خدمات حاصل کر لیتے ہیں۔ نجی تعلیمی شعبے میں حکومت کا کوئی عمل دخل ہی نہیں جس کی وجہ سے تعلیمی معیار گرتا جا رہا ہے۔
موجودہ حکومت کی طرف سے جہاں 70 سے زائد منافع بخش اداروں کی نجکاری کا اعلان کیا گیاہے وہاں پہلے مرحلے میں صرف پنجاب میں 26 کالجز اور ہزاروں کی تعداد میں سکولوں کی نجکاری کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ تمام تعلیمی ادارے کوڑیوں کے بھاؤ نجی کمپنیوں اور چند افراد کو فروخت کر دیئے جائیں گے، بالکل اسی طرح جس طرح 1992-2008 کے عرصے میں سینکڑیں منافع بخش اداروں کو کوڑیوں کے بھاؤ بیچ دیا گیا جن میں سے اکثر بند ہو گئے ہیں اور ان میں ملازم لاکھوں کی تعداد میں بیروزگار ہو گئے ہیں۔
وہی پرانا فارمولا چلا آرہا ہے کہ پہلے عوامی ٹیکس سے بنائے گئے اداروں کو تباہ و برباد کر دیا جائے اور پھر ان کے ٹکڑے کر کے اپنے رشتہ داروں اور چہیتوں میں بانٹ دیے جائیں یا خود خرید لیے جائیں۔ پاکستان کوئی پہلا ملک نہیں جس میں تعلیمی شعبے کی نجکاری کی جا رہی ہے بلکہ انڈیا، ترکی، بنگلہ دیش، نیوزیلینڈ، آسٹریلیا، چائنہ، چلی اور کافی زیادہ ممالک ہیں جن میں تعلیمی شعبے کی نجکاری کی گئی ہے۔ تجربات بتاتے ہیں کہ تعلیمی اداروں کی نجکاری سے غریب طالبعلموں پر تباہ کن اثرات ہوں گے اور ان کے لیے جو پہلے ہی افراط زر سے لڑ رہے ہیں تعلیم بہت زیادہ مہنگی ہو جائے گی۔
ایک سروے کے مطابق کالج کی فیس 15ہزار سے1لاکھ20 ہزار سالانہ ہو جائے گی جو غریب لوگوں کو جہالت کے اندھیرے میں دھکیلنے کے لیے کافی ہے۔ تعلیمی اداروں کی نجکاری کا سیدھا سادھا مطلب عام لوگوں کو تعلیم کے مساوی حقوق سے دور کرنا اور صرف امیروں کے بچوں کو آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ ماضی میں جن اداروں کی نجکاری کی گئی ہے تو نتیجے میں ملازمتیں ختم ہوئی ہیں، خزانے میں کمی واقع ہوئی ہے، قیمتوں میں بے حد اضافہ ہوا ہے اور سروس کے معیار میں کمی ہوئی ہے۔
تعلیمی شعبے میں نجکاری کی وجہ سے اساتذہ کو بہت نقصان ہو گا۔ اساتذہ کو ملازمتوں سے نکالا جائے گا، پنشن اور میڈیکل الاؤنس وغیرہ سے بھی ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ جن ملکوں میں تعلیمی اداروں کی نجکاری کی گئی ہے ان پر اگر نظر ڈالی جائے تو نجکاری کی وجہ سے نیوزی لینڈ میں اساتذہ ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ معاشی حالت بری طرح متاثر ہوئی ہے اور زیادہ تر اساتذہ پیشہ چھوڑنے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں۔ اسی طرح آسٹریلیا اور چائنہ میں اساتذہ کے معیار زندگی میں کافی زیادہ گراوٹ ہوئی ہے۔ سماجی رتبہ اور رہن سہن کے حالات میں کمی واقع ہوئی ہے۔
اسی طرح اگر پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں تعلیمی شعبے میں نجکاری ہوتی ہے تو بڑے پیمانے پر بیروزگاری اور ناخواندگی پھیلے گی ، جس کی وجہ سے غربت، پسماندگی، جہالت اور جرائم میں بے حد اضافہ ہو گا۔ پچھلے عرصے سے مختلف اداروں مثلاً واپڈا، پی آئی اے اور ہسپتالوں میں نجکاری کے خلاف مسلسل احتجاج ہو رہے ہیں اور اب اساتذہ بھی نجکاری کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔
جب تک علیحدہ علیحدہ مظاہرے ہوتے رہیں گے تو اس سے ملازمین تھکن کا شکار ہو جائیں گے اور ماضی کی طرح حکمران اپنی عوام دشمن پالیسی میں کامیاب ہو جائیں گے۔ تمام ادارے عوام کے ٹیکسوں سے بنائے گئے ہیں اور خاص کر تعلیمی ادارے ہمارا آنے والا مستقبل ترتیب دیتے ہیں۔ اگر تمام اداروں کے ملازمین اکٹھے مل کر حکمران طبقے اور نجکاری کی اس ظالمانہ پالیسی کے خلاف جدوجہد کریں تو سچے جذبوں کی قسم جیت ہماری ہو گی۔
♣