پاکستانی چینلز کے ٹاک شو یا تھرلر شوز۔۔۔

news-eye-with-mehar-abbasi-17th-520x360

پاکستانی ٹی وی ٹاک شوز میں سنسنی خیزی اتنی لازمی سمجھی جا رہی ہے کہ بھارت سے تعلقات، دہشت گردی، فوجی آپریشن اور شیعہ سنی اختلافات جیسے موضوعات پر پروگرام ناظرین کی بصیرت میں اضافے کی بجائے انہیں اشتعال دلاتے نظر آتے ہیں۔

ان حالات میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی یا پیمرا نے نیا کوڈ آف کنڈکٹ بھی جاری کیا ہے۔ لیکن کیا پیمرا کے اس کوڈ پرعمل ہو رہا ہے؟ یا پھر ان ضابطوں میں کوئی ایسی ممکنہ خامیاں ہیں کہ ایسے متعدد نشریاتی ادارے جو قانوناً پیمرا کی ریگولیشن میں ہیں بظاہر اس اتھارٹی کی کوئی پروا کرتے نظر نہیں آتے۔

اس بارے میں ڈوئچے ویلے نے جب چینل ٹوئنٹی فور نامی نجی ٹی وی کے اسلام آباد میں بیور چیف عون ساہی سے ان کی رائے دریافت کی، تو انہوں نے کہا، ’’دراصل سرکاری ایجنڈا یہ ہے کہ تعلیم، صحت اور روزگار جیسےحقیقی مسائل کی جانب توجہ نہ دی جائے بلکہ عوام کو غیر ضروری مسائل میں الجھایا جائے۔‘‘

عون ساہی نے مزید کہا، ’’ہمارے پالیسی سازوں کا ایک زاویہ ہے، یہ کہ بس کچھ بھی ایسا کیا جائے کہ عوام صبح سے شام تک ٹی وی کے سامنے ہی بیٹھے رہیں۔ اب دیکھیں نہ، خبر میں خبریت تو ہے نہیں۔ خبروں کو انفوٹینمنٹ بنا دیا گیا ہے۔ خبروں کے پیچھے گانے لگائے جا رہے ہیں۔ مزاح کا پہلو نکالا جا رہا ہے۔

ماڈل ایان علی اگر کورٹ جا رہی ہیں، تو ریٹنگ اوپر۔ لیکن کوئی یہ بھی پوچھے کہ اس کیس کی تفصیلات کیا ہیں؟ یہ تو نہیں بتایا جا رہا۔ وزیر اعظم واش روم گئے ہیں یا نہیں، یہ خبر کہیں رہ نہ جائے، اس کی فکر۔ لیکن تھر میں کتنے بچے مر گئے، اس خبر کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہ ساری بس ریٹنگ کی دوڑ ہے۔ اب یہی دیکھ لیں کہ کرائمز شو اور کرائمز کی رپورٹنگ، سنسنی سے بھرے، لفاظی انتہائی نازیبا، یہ تک کہہ دیا گیا کہ ایان تو پانچ ماہ کی حاملہ ہے وغیر ہ وغیرہ۔لیکن ریٹنگ سب سے زیادہ۔‘‘

عون ساہی نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں اکثر ٹی وی اینکرز کی قابلیت پر بھی سوال اٹھائے۔ انہوں نے کہا، ’’ ایک تو اینکرز کی کوئی ٹریننگ نہیں ہے۔ نہ انہیں رپورٹنگ اور فیلڈ میں کام کا کوئی تجربہ ہے اور نہ ہی معاملات کی کوئی سمجھ ہے۔ اس کے علاوہ ان کی اپنی آزادی بھی بہت کم ہوتی ہے۔ زیادہ تر وہ کسی اور کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہوتے ہیں۔

معاملہ جتنا مرضی حساس ہو، وہ زیادہ سے زیادہ شور شرابا کر کے جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں، چاہے اس سے کسی کی جان چلی جائے۔‘‘ چینل ٹوئنٹی فور کے اس سینیئر صحافی نے اپنے موقف کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا، ’’عامر لیاقت کے شو کی مثال ہی لے لیں، تین چار احمدی قتل ہوئے ان کی غیر ذمہ دارانہ گفتگو کے باعث۔ اور ابھی وہ تعلیمی اعتبار سے ڈاکٹر ہیں۔ تو باقی نئے اینکرز کی تو بات ہی نہ کیجیے۔ ان حالات میں پیمرا کوڈ آف کنڈکٹ کو کون جانتا ہے؟‘‘

 پاکستان کی موجودہ الیکٹرانک میڈیا مارکیٹ میں اہم صحافتی، قومی اور مذہبی موضوعات پر پروگرام ’تھرِلر شو‘ کیوں بن گئے ہیں؟سلمان تاثیر کو قتل کرانے میں پاکستان کے الیکٹرانک چینلز کا بھی ہاتھ ہے۔ مہرعباسی نے سلمان تاثیر کے خلاف انتہا ئی توہین آمیز پروگرام کیے تھے اور ایک طرح سے قاتلوں کو اکسایا گیا تھا ویسے ہی جیسے ڈاکٹر شاہد مسعود نے احمدیوں کے خلاف لوگوں کو قتل کے لیے اکسایاتھا۔

اس بارے میں معروف ٹی وی اینکر عاصمہ شیرازی نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’ اس بات کا ریٹنگ سے بہت گہرا تعلق ہے کیونکہ ریٹنگ کی بنیاد ہی پر اشتہار ملتے ہیں۔ اس وجہ سے کہا جاتا ہے، ’پروگرام میں تھوڑی سنسنی ڈالیں تاکہ ریٹنگ اوپر جائے‘۔ میرا نہیں خیال کہ ایسے میں پیمرا کے کوڈ آف کنڈکٹ کو ملحوظ خاطر رکھا جا تا ہے اور صاف بات تو یہ ہے کہ بہت سے اینکرز کو تو یہ بھی نہیں پتہ ہو گا کہ پیمرا کا کوڈ آف کنڈکٹ ہے کیا؟‘‘

عاصمہ شیرازی نے ایک خاص نجی نشریاتی ادارے کے بارے میں اپنی رائے دیتے ہوئے کہا، ’’ایک مخصوص چینل، جس کا میں نام نہیں لینا چاہتی، وہ تو سوائے سنسنی پھیلانے کے اور کچھ کر ہی نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ نیوز اینکرز بھی بلند آواز میں اور ڈرامائی انداز میں خبریں پیش کر رہے ہوتے ہیں تاکہ ان کی ریٹنگ اور بڑھے۔

داخلی سلامتی کے موضوعات پر پاکستانی ٹی وی چینلز کی پروگرامنگ کے بارے میں عاصمہ شیرازی کہتی ہیں، ’’ملک میں دہشت گردی میں ان ٹاک شوز کی بدولت تو کوئی کمی نہیں آ سکتی۔ نہ ہی کرپشن کم ہو گی۔ اس کی جڑیں بہت گہری اور پرانی ہیں۔ یہ فرق ضرور پڑ سکتا ہے کہ عوامی آگہی میں سنجیدگی سے اضافہ کیا جائے۔ اس طرح معاشرہ آگے بڑھ سکتا ہے۔ مثال کے طور پر مولانا عزیز کے معاملے پر بحثیں اور ٹاک شوز ہو رہے ہیں۔ مولانا عزیز کے حمایتی اپنی جگہ موجود ہیں، لیکن اس متنازعہ مذہبی شخصیت سے ہمدردی میں کافی کمی بھی آئی ہے۔ بلکہ اب تو ان کے حمایتی بھی سنبھل کر بولنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔‘‘

پاکستان میں میڈیا سے متعلق قوانین کے ماہر محمد آفتاب عالم نے اسی سلسلے میں ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں کہا، ’’بنیادی طور پر یہ جو نیا کوڈ آف کنڈکٹ آیا ہے یہ پیمرا کا نہیں بلکہ اسے وزارت اطلاعات کے تحت نوٹیفائی کیا گیا ہے۔ اس وقت پاکستان میں میڈیا سے متعلق کئی کوڈ آف کنڈکٹ ہیں۔ ایک تو پیمرا کا کوڈ ہے۔ پھر پریس کونسل کا اپنا ایک کوڈ آف پریکٹس ہے۔ اس کے بعد سی پی این ای اور اے پے این ایس نے اپنے کوڈ بنائے ہوئے ہیں۔ ان کوڈز پر عملدرآمد اور خلاف ورزی پر ایکشن متعلقہ اداروں کا اندرونی معاملہ ہے۔ لیکن پیمرا کا کوڈ چونکہ کسی میڈیا ہاؤس کا اپنا کوڈ نہیں، اس لیے اس کی خلاف ورزی پر ایکشن بھی خود پیمرا کی طرف سے لیا جاتا ہے۔‘‘

پیمرا کی کارکردگی کس حد تک منطقی اور متناسب ہو سکتی ہے، اس بارے میں آفتاب عالم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پیمرا میں 13 ممبران ہیں۔ ان میں سے سات سرکاری افسران ہیں۔ یہ ایک سرکاری ادارہ ہے۔ اس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی رائے شامل نہیں۔ اسی لیے اس کے فیصلے بھی متوازن نہیں ہوتے۔ ویسے بھی میڈیا ہاؤسز کا یہ اپنا کام ہونا چاہیے کہ وہ خود احتسابی کریں۔ حکومت کا اس میں کوئی کام نہیں ہونا چاہیے۔ میری رائے میں یہ کوڈ آف کنڈکٹ الیکٹرانک میڈیا کے مواد کو اور آزادی صحافت کو کنٹرول کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔‘‘

آفتاب عالم نے چند بہت سنجیدہ امور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’پیمرا چونکہ ایک ریگولیٹر ہے، اس کا کام پورے سیکٹر کو ریگولیٹ کرنا ہے۔ لیکن یہ تو اس شعبے کے صرف ایک چھوٹے سے حصے کو ریگولیٹ کرتا ہے، وہ بھی نجی شعبے کے ٹی وی اور ریڈیو چینلز کو۔ نہ یہ سرکاری ٹی وی کو ریگولیٹ کرتا ہے اور نہ ہی سرکاری ریڈیو کو۔ اس لیے سچ بات تو یہ ہے کہ پیمرا کے ضابطوں کے نفاذ کے حوالے سے معاملات انتہائی سنجیدہ نوعیت کے ہیں۔‘‘

اسی موضوع پر پیمرا کے کوڈ اور اس اتھارٹی کی کارکردگی میں شفافیت کے حوالے سے ڈی ڈبلیو کی طرف سے جب اس ادارے کے سربراہ ابصار عالم سے بات چیت کے لیے رابطہ کیا گیا، تو انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرنے سے معذرت کر لی۔

DW – News desk

Comments are closed.