کشمیر کارڈ کا استعمال کوئی نئی بات نہیں۔یہ محض انتخابی سیاست ہی نہیں، تنظیمی سیاست سے لیکر احتجاجی سیاست تک، ہر جگہ کشمیر کارڈ استعمال ہوتا رہا ہے۔مگر آزاد کشمیر کے انتخابات میں بلاول بھٹو کی طرف سے کشمیر کارڈ کا استعمال مضحکہ خیز لگتا ہے۔اس موضوع پر وہ جس انداز سے مکالمہ بازی کر رہے ہیں، وہ ان کی شخصیت اور سیاسی پس منظر سے متصادم ہے۔
آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ ایک جواں سال شخص کی زبان سے قدیم پنجابی فلم کے ولن کی طرز پر مکالمہ بازی ان کی شخصیت سے ہم آہنگ نہیں لگتی۔ اس سے سنجیدگی کم اور ڈرامہ بازی یا اداکاری کا تا ثر زیادہ ابھرتا ہے۔بلاول کا یہ روپ ان لوگوں کو تو اچھا لگتا ہے جو چالاکی، مکاری اور طاقت کے زور پر پارٹی کے رہنما بن بیٹھے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ذولفقار علی بھٹو کی آستین کے سانپ تھے۔اور ان لوگوں کا اس نابغہ روزگار شخص کو پھانسی چڑھانے میں بہت بڑا ہاتھ تھا۔
بھٹو جیسی شخصیت کو سمجھنے اور ہضم کرنے کی ان کی اوقات نہ تھی۔ اس باب میں وہ سخت نفسیاتی تضادات کا شکار تھے۔بھٹو کے خاندانی جا گیرداراانہ پس منظر اور سماجی حیثیت سے یہ محبت کرتے تھے اور اس کے سوشلسٹ نظریات سے نفرت۔ چنانچہ یہ بھٹو کے ساتھ شامل ہوئے تو اقتدار کی ظاطر اور سوشسلٹ نظریات کو گوارا کیا۔بھٹو کو جب سامراج اور اس کی گماشتہ قوتوں نے گھیرا تو ان لوگوں کو سانپ سونگھ گیا یا پھر وہ فوجی جنتا سے مل گئے۔ان میں سے کچھ کی باقیات اور کچھ نئے نو دولتیے سیاسی مسافر پیپلز پارٹی کے آج لیڈر ہیں۔
یہ بلاول کو بھٹو کے لہجے میں بولنے مگر اس کے نظریات سے دور رہنے کا مشورہ دے رہے۔اور بھٹو کا جو انتہائی کنفیوزڈ تصور ان کے ذہن میں ہے وہ بلاول کو منتقل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔وہ بلاول کو وہ تقریریں دکھاتے ہیں جس میں بھٹو نے کشمیریوں کے حق خود اردیت کی پر جوش حمایت کی تھی یا پھر اس نے بھارت سے ہزار سال تک جنگ کرنے کی بات کی تھی۔یا پھر گھاس کھانے اور ایٹم بنانے کی بات کی تھی۔مگر وہ بلاول کو یہ نہیں بتاتے کے بھٹو صاحب نے یہ تقاریر ستر کی دھائی میں کیں تھیں اور ہم 2016میں آزاد کشمیر کے انتخابی جلسوں سے مخاطب ہیں۔
بھٹو ایک غیر معمولی طور پر ذہین مگر عملیت پسند سیاست کار تھے۔تاریخ میں یہ دو خوبیاں بہت کم لوگوں میں یکجا ہوئیں ہیں۔پاکستانی لیڈروں میں تو ان دونوں کاالمیے کی حدتک قحط رہا۔اپنی غیر معمولی ذہانت اور بے پناہ سیاسی شعور کے بل بوتے پر بھٹو نے پاکستانی سیاست کا انتہائی درست تجزیہ کیا۔مسائل کو سمجھا، سمجھایا، اور ان کا واضح حل پیش کیا۔بھٹو نے سوشلزم کا نعرہ محض اس لیے نہیں لگایا کہ یہ اس دور کا ایک مقبول عوامی بیانیہ تھا۔بھٹو کو بجا طور پر یہ یقین تھا کہ پاکستان جیسے سماجی اور معاشی طور پر پسماندہ سماج میں تیز رفتار ترقی کی ضمانت صرف سوشلزم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ انہوں نے اس سمت میں پیش قدمی بھی کی۔
وہ اس میں کیوں ناکام ہوئے۔ اس کی بڑی واضح وجوہات تھیں جو اس کالم کے احاطہ سے باہر ہیں۔ایک عملی سیاست کار کے طور پرگاہے انہوں نے کشمیر کارڈ بھی کھیلا مگر اس بنیاد پر ان کو کوئی بھارت دشمن جنگ باز شخص نہیں قرار دیا جا سکتا۔ستر کی دھائی میں ملاں، ملٹری اور جاگیرداری نے مل کر ملک کے اندر ایک بھارت دشمن فضا اور جنگی جنون پیدا کر رکھا تھا۔اس میں کشمیر ایک عوامی بیانیہ تھا جس سے بھٹو لا تعلق نہیں رہ سکتا تھا چونکہ اس کا مقابلہ ہی امن دشمن جنگ باز قوتوں سے تھا۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھٹو ہی تھا جس نے جنگ کی بات کے ساتھ ساتھ شملہ معاہدہ بھی کیا جو بھارت کے ساتھ امن کی طرف ایک بڑی پیش رفت تھی۔
جو لوگ شملہ کی اندرونی کہانی جانتے ہیں وہ اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ اس سارے معاہدے کی بنیاد ہی اس بات پر تھی کہ بھٹو اندرا گاندھی کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو گئے تھے وہ ایک امن پسند شخص ہیں جو بر صغیر میں امن اور ترقی کے خواں ہیں۔وہ مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل کے حل کے خواہشمند تھے مگر ان کو خدشہ تھا کہ اس معاملے میں جلد بازی پاکستان میں فوجی بغاوت کا با عث بنے گی۔ چنانچہ اندرا گاندھی نے ان کی زبانی یقین دھانیوں پر معاہدے پر دستخط کر دئیے۔ یہی وجہ ہے کہ نیویارک ٹائمز سمیت دنیا بھر کے اخبارت نے اس معائدے کو خفیہ ڈیل کا نام دیا۔یہ خفیہ ڈیل بھٹو کی امن کی خواہش اور یقین دھانی کے علاوہ کچھ نہیں تھی۔
اب اگر بلاول بھٹو وزیر اعظم نواز شریف کی امن کی طرف پیش قدمی اور خواہش کو ملک دشمنی یا کشمیر دشمنی قرار دے تو یہ بڑی بد قسمتی کی بات ہے۔ اس سے پاکستان یا کشمیر میں کچھ جنگ باز قوتوں کو تو کچھ فائدہ ہو سکتا ہے مگر اس خطے کے عوام اور کشمیر کو کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا ۔ اس سے امن کی کوششوں اور تصورات کو دھچکا لگتا ہے اور خطے میں موجود جنگی جنون میں اضافہ ہوتا ہے جو دائیں بازوں کی رجعت پسند قوتوں کا یجنڈا ہے۔یہ ایجنڈا پیپلز پارٹی جیسی روشن خیال جماعت کو زیب نہیں دیتا۔
♠