سعودی عرب کی وزارتِ داخلہ کا کہنا ہے کہ جدہ میں واقع امریکی قونصل خانے کی عمارت کے قریب خود کو اڑانے والا خود کش بمبار عبداللہ گلزار خان نامی پاکستانی تھا۔
سعودی وزارت داخلہ نے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ عبداللہ گلزار خان گذشتہ 12 سالوں سے سعودی عرب میں مقیم تھا۔وزارت داخلہ کے مطابق گلزار خان 15 ستمبر 1981 میں پیدا ہوا اور وہ اپنی اہلیہ اور اہلیہ کے والدین کے ہمراہ سعودی عرب میں مقیم تھا۔گلزار خان ڈرائیور تھا اور 12 سال قبل سعودی عرب آیا تھا۔
پاکستان کے ریاض میں سفیر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کا ہر اس پاکستانی شخص سے کوئی تعلق نہیں جو جو سعودی عرب میں کسی بھی قسم کے پرتشدد واقعات میں ملوث ہو۔
دوسری جانب آئی ایس پی آر نے رات گئے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستانی بّری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نےسعودی عرب کے وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان کو فون کیا اور سعودی عرب میں ہونے والے خودکش حملوں کی مذمت کی۔اس واقعے میں حملہ آور ہلاک اور دو پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے، جنھوں نے حملہ آور پر قابو پانے کی کوشش کی تھی۔
یہ حملہ سحری کے وقت امریکی یومِ آزادی کے موقعے پر ہوا ہے۔جدہ ہی کے امریکی قونصل خانے کو 2004 میں حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا جس میں نو افراد ہلاک ہوئے تھے۔امریکی محکمۂ خارجہ نے کہا کہ وہ ’تصدیق کر سکتے ہیں کہ تمام عملہ محفوظ ہے۔‘۔
سعودی وزارتِ داخلہ کے ترجمان میجر جنرل منصور الترکی نے بتایا کہ محافظوں کو صبح سوا دو بجے کے قریب ڈاکٹر سلیمان فقیہ ہسپتال کے باہر کھڑی ایک گاڑی میں بیٹھے شخص کے بارے میں شک پیدا ہوا۔یہ ہسپتال امریکی قونصل خانے کے سامنے واقع ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ جب محافظ گاڑی کے قریب پہنچے تو اس میں بیٹھے شخص نے ’ہسپتال کی پارکنگ کے اندر اپنی خودکش بیلٹ سے اپنے آپ کو اڑا دیا‘۔
سعودی عرب میں امریکی سفارت خانے نے حملے کے بعد ایک تنبیہ جاری کی ہے جس میں امریکی شہریوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ’اپنے گرد و پیش سے باخبر رہیں اور ملک بھر میں سفر کرتے وقت اضافی احتیاطی تدابیر اختیار کریں‘۔
سعودی عرب میں یہ گذشتہ چوبیس گھنٹوں میں یہ تیسرا دھماکہ ہے۔تازہ ترین دھماکہ مسجد نبوی کے باہر ہواہے جس میں چار اہلکار مارے گئے ہیں جبکہ پانچ زخمی ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور دھماکہ مشرقی شہر قطیف میں ایک دھماکہ ہوا تھا جہاں اقلیتی شیعہ برادری رہتی ہے۔
سعودی وزارت داخلہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ خود کش بمبار نے اس وقت اپنے آپ کو اڑا دیا جب اس کو مسجد نبوی کے باہر روکا گیا۔
اس مسجد میں پیغمبرِ اسلام دفن ہیں اور اسے مکہ کے بعد مسلمانوں کا سب سے مقدس مقام سمجھا جاتا ہے۔ان حملوں کی ذمہ داری ابھی تک کسی تنظیم نے قبول نہیں کی ہے۔
BBC