خون میں ڈوب کے ابھرا ہے مری عید کا چاند

12695990_10206729873699704_2066619818_n

منیر سامیؔ۔ ٹورنٹو

اب کی عید پہ کئی مسلم ملکوں میں عید پرخوں رنگ چاند طلوع ہوا ہوگا۔ یہ سطور بادلِ نا خواستہ قلم زد کرتے ہوئے ہمیں ممتاز شاعر احمد ندیمؔ قاسمی کی ایک معرکہ آرا نظم کے کئی مصرعے یاد آگئے۔یوں لگتا ہے کہ یہ نظم لکھتے وقت ، جو انہوں نے چھ ستمبر 1965کے لیے لکھی تھی، ان کے شاعر ذہن میں مستقبل کا منظر نامہ ہوگا۔ پہلے تو یہ مصرعے ملاحظہ ہوں:

چاند اس رات بھی نکلا تھا، مگر اُس کا وجود

اتنا خوں رنگ تھا جیسے کسی معصوم کی لاش

تارے اس رات بھی چمکے تھے مگر اس ڈھب سے

جیسے کٹ جائے کوئی جسم ِ حسیں قاش بہ قاش

یہ مصرعے پڑھنے کے بعد آپ بنگلہ دیش میں ہونے والے اس تازہ ترینِ قتلِ عام پر غور کریں جس میں شقی القلب شدت پرست مسلم درندوں نے ایک ریستوران میں بیس لوگوں کو انتہائی سفاکانہ طور پرقتل کیا ۔ وہ اپنے ایک ایک شکار سے اس کا مذہب پوچھتے تھے۔ اگر وہ مسلمان ہوتا تو اسے ایک طرف چھوڑ دیتے تھے ، اور اگر غیر مسلم تھا تو تیز دھار آلوں سے اس کے ٹکڑے کر دیتے تھے۔ کیا یہ پڑھ کر آپ کو اسلامی تاریخ میں اور کربلا میں لاشوں کا مثلہ کرنا یاد آیا؟جن ظالموں سے ہمارا واسطہ ہے وہ اسلامی تاریخ کو جوں کا توں واپس لانا چاہتے ہیں، اور اپنی سفاکی کے لیے ان کے پاس اپنی ہی تاریخ کی مثالیں موجو د ہیں جو ہر معترض کا منہ بند کرنے کے لیے کافی ہیں۔

یہ ظالم اس بھیانک شام کو صرف غیر ملکی غیر مسلموں کے ٹکڑے نہیں کر رہے تھے بلکہ وہ تو ہمیں یہ مصرعہ بھی یاد دلانا چاہتے تھے کہ، ’گھر کے آنگن میں رواں خون تھا گھر والوں کا‘، سو انہوں نے اس وقت وہاں موجود بنگلہ دیشی مسلمانوں کے بھی ٹکڑے کیے۔ جن میں ایک ممتاز مسلم بنگلہ دیشی آرٹسٹ خاتون ’عائشہ اخوند‘ بھی شامل ہیں ۔ اُن کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے سر پر دوپٹہ نہیں اوڑھا تھا اور حجاب نہیں باندھا تھا۔ قتل کرنے والوں نے ان سے خود کو مسلم ثابت کرنے کے لیے کلمہ پڑھنے کو کہا، لیکن انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ تم کو مجھ سے میرا مذہب پوچھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس پر انہوں نے ان پر بھی تیز دھار ہتھیاروں سے حملہ کرکے ان کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے۔بنگلہ دیش میں تیز دھار ہتھیار وں سے انسانی حقوق کے کارکنوں اور سیکولر ازم کا پرچار کرنے والوں کے قتل کا سلسلہ ایک زمانے سے جاری ہے۔ گزشتہ تقریباً ایک سال میں کم از کم سات یا آٹھ اس قسم کے قتل ہوئے ہیں ۔

ابھی اس رمضان میں بنگلہ دیش میں مثلہ کیا جانے والوں کا خون خشک بھی نہیں ہوا تھا کہ عراق کے شہر بغداد میں کم از کم سو شہریوں کی ہلاکت کی خبر آگئی۔ ہم نے اپنی سادہ دل افسردگی میں سوچا کہ مسلمان تو اس مبارک مہینہ میں اپنی روح کی طہارت اور باطن کی پاکیزگی کی کوشش کرتے ہیں، تو کیا اس مہینہ میں خون بہانہ حرام نہیں ہونا چاہیئے ؟مسلم روایت میں اس کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش تو معلوم ہو اکہ چار اسلامی مہینے ایسے ہیں جن میں قتل و غارت گری اور خون بہانا حرام ہے۔ یہ محرم ، رجب، ذی قعد، اور ذوالحج ہیں۔ لیکن تاریخ یہ بھی کہتی ہے کہ یزید نے بھی تو محرم ہی میں امام حسینؔ اور ان کے ساتھی شہیدوں کا مثلہ کیا تھا ، اور اپنے فوجیوں کو لوٹ مار کرنے کی اجازت دی تھی۔

حیران کن طور پر اسلامی تاریخ کی کئی اہم جنگیں رمضان میں لڑی گئیں جن میں جنگِ بدر، جنگِ خندق، جنگِ حتین جس میں صلاح الدین ایوبی نے لیلتہ القدر میں حملہ کرکے بیت المقدس دشمنوں سے چھینا تھابہت ہی معروف ہیں۔ اس کے علاوہ اولین اسلامی تاریخ سے اب تک رمضان میں کئی جنگیں لڑی جاتی رہی ہیں۔ سو اگر اسلامی شدت پرست یا وہ گروہ جو سارے عالم میں اسلامی خلافت یا تشدد کے ذریعہ اسلامی نظام قائم کرنا چاہتے ہیں ، تو انہیں رمضان کی پاکیزگی کا واسطہ کون دے سکتا ہے؟

سو ہم زخمی دل سے بس یہ کہہ سکتے ہیں کہ، ہماری تاریخی روایتوں کی بنیاد پر جانے کتنے عرصہ تک ہم اور آپ عید کے لہو رنگ چاند دیکھتے رہیں گے، اور جانے کب تک رمضان کے مبارک مہینہ میں ہم فیض کے یہ مصرعے بھی یاد کرتے رہیں گے کہ، ’ہر آئے دن یہ خداوندگان ِ مہر و جمال ، لہو میں غرق مرے غمکدے میں آتے ہیں۔ اور آئے دن مر ی نظروں کے سامنے ان کے ، شہید جسم سلامت اٹھائے جاتے ہیں‘۔

لیکن تمام تر بے بسی کے باوجود بھی ہم میں سے کئی لوگ اب بھی یہ کہتے ہیں کہ ، ’میرا دشمن مجھے للکار کے جائے گا کہاں۔ خاک کا طیش ہوں ، افلاک کی دہشت ہوں میں۔۔آخری بار اندھیرے کے پجاری سن لیں۔۔میں سحر ہوں ، میں اجالا ہوں ۔۔حقیقت ہوں میں۔ ہمیں یقین ہے کہ ہم میں ایک بڑی تعداد ان امن پسندوں کی ہے جومذہب کے نام پر تشدد کے بھی خلاف ہیں ، اور جو مذہب کے نام پر بنائے جانے والی ہر حکومت کے انکاری ہیں۔ ان لوگوں میں سے جو جو جہاں جہاں بھی ہیں، ہم انہیں عید کی مبارک بھی دیتے ہیں، اور ان میں سے ہر اک کے لیے دعا کرتے ہیں کہ، ’تُو جہاں کہیں بھی ہو۔۔ تیری خیر ہو پیارے۔۔۔تیری خیر ہو پیارے‘۔

Comments are closed.