سیاسی درستگی

خالد تھتھال

selin_goren_c0-183-640-556_s885x516

Selin Goren, who was attacked by three men in Mannheim where she works as a refugee activist.


انسان کے تمام خیالات، تصورات، نظریات و عقائد تاریخ کی حرکت کا نتیجہ ہیں۔ لیکن انسان کے ہی پیدا کردہ یہ نظریات سے کبھی کبھار اتنی تقدیس وابستہ کر دی جاتی ہے، اور ان سے وابستگی کی انتہا یہ ہوجاتی ہے کہ انہیں بچانے کیلئے انسان اپنی سب سے عزیز متاع بھی لٹانے سے گریز نہیں کرتا۔ ہمارے ہاں ایک عام محاورہ ہے کہ جان کا صدقہ مال اور عزت کا صدقہ جان۔ یعنی جب آپ کو اپنی جان اور مال میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کرنے کا کہا جائے تو جان بچانے کو ترجیح دی جائے اور اگر کبھی عزت پر بن جائے تو اسے بچانے کیلئے جان کی قربانی دے دیں۔

لیکن اسی عزت جسے بچانا سب سے مقدم ٹھہرایا جاتا ہے، اسی عزت کی قربانی جہاد بالنکاح کے نام سے ابھی کچھ عرصہ پہلے کنواری مسلمان لڑکیوں نے اپنے مسلمان مجاہد بھائیوں کے فطری تقاضوں کو پورا کرنے کیلئےدی ہے۔ اور ایسے واقعات صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہیں ہیں، اس میں ترقی یافتہ ممالک کی خواتین بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ جو اپنے نظریات کیلئے کچھ بھی قربان کرنے کو تیار ہو جاتی ہیں۔

میرا ماضی مارکسسزم سے وابستہ رہا ہے۔ میرا پہلا عشق ماسکو نواز مارکسیت تھی۔ ناروے میں ستر کی دہائی میں ماؤ نواز جماعت کا زور تھا۔ ان کے متعلق افواہ سنی تھی کہ یہ جماعت یکم مئی کے جلوس میں اپنے سیکشن میں کھڑے لوگوں کی تعداد بڑھانے کیلئے زندہ گوشت مہیا کرتی تھی۔ یعنی ان کی جماعت سے وابستگی یا ہمدردی رکھنے والی لڑکیاں اس مقصد کی خاطر جنسی عمل سے بھی گزرنے کیلئے تیار ہو جاتی تھیں، کیونکہ اس سے جماعت اور نظریئے کے مفاد کو تقویت ملتی تھی۔ ان وقتوں میں ”امریکیو، ویت نام سے نکل جاؤ“ کا نعرہ ہر دیوار پر چسپاں نظر آتا تھا، کچھ عرصہ بعد اس نعرے کا رخ سوویت یونین کی طرف ہو گیا۔ ” سوویت یونین، افغانستان سے نکل جاؤ“، سوویت یونین, ایتھوپیا سے نکل جاؤ“، انگولا سے نکل جاؤ، فلاں ملک سے نکل جاؤ۔ مجھے ان نعروں سے بہت چڑ تھی۔

ایک شام میں اسی ریسٹورنٹ میں موجود تھا جہاں کے متعلق افواہ تھی کہ وہاں زندہ گوشت ملتا ہے۔ بیئر کے ایک آدھ گلاس نے مجھے تہہ خانے میں موجود بیت الخلا میں بھیج دیا۔ مغرب میں بیت الخلا رفع حاجت کے علاوہ آرام کرنے کی جگہ تصور ہوتے ہیں، دیواروں پر رنگ برنگے اقوال زریں لکھے ہوتے ہیں، دروازے پر بھی یہی حال ہوتا ہے، آپ ان بیت الخلا کو ایک دانش گاہ سمجھ سکتے ہیں۔ وہیں پر بھی مجھے سوویت یونین کے مختلف ممالک سے نکل جانے کے نعرے دیکھنے کو ملے۔ مجھے شرارت سوجھی، میں نے دروازے پر لکھ دیا۔ ” سوویت، سوویت سے نکل جاؤ“۔ کیا اتفاق ہے کہ کچھ عرصہ بعد وہ نعرہ مجھے چند ایک دیواروں پر بھی لکھاا ہو ملا۔ یعنی جو نعرہ میں نے دوسرے نعروں کا مذاق اڑانے کیلئے لکھا تھا، اس میں بھی ایک معنی دریافت ہو گیا کہ سوویت ( سوویت نظام) سوویت یونین سے نکل جائے۔

لیکن پھر زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ تاریخ نے ایک ایسی کروٹ لی کہ نہ جنوں رہا، نہ پری رہی۔ انسانی دکھوں کا دائمی مداوا کرنے کا دعویدار سائنسی نظریہ ایک صدی سے کم عرصہ میں تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بن گیا۔ اور کچھ عرصہ کیلئے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی صورت ایک ”گواچی گاں“ کی سی ہو گئی۔ لیکن بائیں بازو کے لوگ بہت اچھی سوچوں کے مالک ہوتے ہیں، وہ ہر وقت ایسے لوگوں کی تلاش میں رہتے ہیں جن کی مدد کر کے اپنا انقلابی فریضہ سر انجام دیے پائیں۔

کہا جاتا ہے کہ امریکہ کو اپنی جارحانہ خارجہ پالیسی کو جاری رکھنے کیلئے ہر وقت کسی بیرونی دشمن کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر ایسا دشمن نہ بھی ہو تو پیدا کر لیا جاتا ہے۔

جیسے کمیونزم کے بعد اسلام کو اس کا مقام دے دیا گیا۔ اسی طرح بائیں بازو سے متعلقہ لوگوں کو بھی ایسے لوگوں کی دریافت میں زیادہ دیر نہ لگی۔ پرولتاریہ کی جگہ لینے کیلئے تارکین وطن کا گروہ وجود میں آ چکا تھا۔ اب پرولتاریہ کی جگہ تارکین وطن اور پرولتاریہ کی آمریت قائم کرنے کی انقلابی جنگ کی جگہ نسل پرستی کے خلاف جدوجہد نے لے لی۔

نسل پرستی کے خلاف جدوجہد ابھی کسی نتیجے پر نہ پہنچی تھی کہ بائیں بازو کے دوستوں کو لگا کہ اب تارکین وطن کی بجائے مسلمانوں کو ان کی مدد کی ضرورت ہے۔ لہذا مسلمانوں کے ہر مطالبے کی حمایت ان لوگوں پر واجب ٹھہری۔ بات صرف بائیں بازؤ تک ہی محدود نہیں بلکہ وہ لبرل اور فیمینسٹ خواتین جنہوں نے حقوق نسواں کے نام پر کبھی اپنی انگیائیں جلائیں تھیں، وہ بھی حجاب کے استعمال کیلئے اپنی مسلمان بہنوں کی یا تو مدد کو پہنچیں یا خاموش رہیں۔

لیکن مسلمان خواتین کے مساوی حقوق، زبردستی کی شادی، بچیوں کے ختنوں اور غیرت کے نام پر قتل ہونے والے واقعات پر ان کی زبان کو تالے لگے رہے۔ کیونکہ کوئی مغربی مرد یا خاتون اتنا بڑا رسک نہیں لے سکتی کہ اسے اسلام یا مسلمانوں سے نفرت کرنے والے کا خطاب ملے۔ خواہ اس کیلئے انہیں کوئی بھی قیمت ادا کرنا پڑے۔ برطانیہ میں مقیم ایک پاکستانی خاتون کی ”بناز اے لو سٹوری“ پر تبصرہ کرتے نک کوہن نامی ایک منہ پھٹ صحافی نے برطانیہ کے گارڈین نامی اخبار میں اس حالت پر کچھ یوں تبصرہ کیا۔

۔”اگر برطانوی لوگ 2040ء میں مڑ کر پیچھے دیکھیں گے کہ کیسے ان کے ”نسل پرستی کے مخالف“ پیشروؤں نے بچیوں کے ختنوں، اغوا اور قتل کو برداشت کیا تو انہیں پتہ چلے گا کہ اس صورت حال میں بہتری دیا خان اور ڈی سی آئی گوڈ کے تنہا کام کی وجہ سے آئی، نہ کہ اس میں ان کنجریوں کا کوئی ہاتھ تھا جو اپنے آپ کو آج کے وقتوں میں لبرل کہلواتی ہیں“۔

( نوٹ۔ دیا خان برطانیہ میں مقیم ایک فلمساز اور ہدایتکارہ کا نام ہے، اور گوڈ ایک خاتون ہیں جو پولیس میں ڈائرکٹر آف سنٹرل انٹیلی جنس کے طور پر متعین ہیں۔ انہوں نے ایک بھولی بسری فائل سے دھول جھاڑ کر اس میں درج مقتول لڑکی کا کیس سلجھایا اور قاتلوں کو عراق سے واپس لا کر سزا دلوائی )۔

مقامی مرد یا خواتین تو مسلمانوں کے اندر کے مسائل کو سامنے لانے سے کتراتے ہیں، اور ان کے پاس اس رویئے کا یہ دفاع ہے کہ یہ ان لوگوں کی ثقافت ہے جس میں ہم اپنا ہاتھ نہیں ڈال سکتے۔ لیکن حیرانی تب ہوتی ہے جب کوئی مسلمان خود تنقیدی یا خود اصلاحی کی بات کرتا ہے تو انہیں لوگوں سے تنقید بھی سننے کو ملتی ہے جو صدیوں پہلے یورپ میں نشاۃ ثانیہ کے نام اٹھنے والی تحریک کے فوائد کا ذکر کرتے نہیں تھکتے ۔

سنہ 2010ء میں میرے ایک عراقی نژاد دوست ولید الکبیسی نے اخوان المسلیمین کے متعلق فلم بنائی جس میں اس جماعت سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں کے انٹرویوز تھے، جس سے اس جماعت کے نظریات، خواہشات، مقاصد اور طریقہ کار پر روشنی پڑتی ہے۔ یہ ایک پیغمبرانہ فلم تھی جس نے دو سال کے اندراپنا سچ ثابت کر دیا، لیکن جب یہ فلم سینما میں لگی تو ولید کو بہت زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ رائی کا پہاڑ بنا رہا ہے۔

ایسا ہی ایک واقعہ تب پیش آئے جب چند سال پہلے پروفیسر مبارک حیدر صاحب اوسلو آئے تھے۔ ایک تنظیم نے ان کے ساتھ میٹنگ رکھی تھی۔ حاضرین میں چند مقامی لوگ بھی تھے۔ اس لئے تقریر انگریزی میں تھی۔ حاضرین میں موجود لاعش گُول ے نامی مشہور نارویجن فلاسفی نے اس تقریر کو بہت قابل اعتراض ٹھہرایا کہ مبارک صاحب کی تقریر کے نکات کو نسل پرست استعمال کر سکتے ہیں، لہذا ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیئے۔

تحرش جمیعۃ نامی عرب کھیل کس سے بھولا ہوا ہے جو مصر سے شروع ہوا اور پچھلے سال سال نو کی رات کو اس کا پہلا مظاہرہ جرمنی کے شہر کولون میں دیکھنے کو آیا۔ جرمنی میں جنسی زیادتیوں کے خلاف کام کرنے والے گیسا نام گروپ کی سٹیفی بورمیستر کا کہنا ہے کہ پناہ گزینوں کے جنسی حملوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔ یہ لوگ ایک ایسے معاشرے سے آتے ہیں جہاں ان کے نزدیک یورپی خواتین کا کچھ اور امیج ہے۔ اور یہ یہاں آ کر اپنی مردانگی کا اظہار کرنے کیلئے خواتین کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں۔ اس رویئے کو نہ تو معاف کیا جا سکتا ہے اور نہ قبول کیا جا سکتا ہے۔

اسی کھیل کا شکار چوبیس سالہ سیلن گورین بھی ہوئیں۔ سیلن نوجوانوں کی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی سالڈ نامی تحریک کی ترجمان ہیں۔ سیلن اس سے پہلے عراق میں پناہ گزینوں کے کیمپ کا دورہ بھی کر چکی ہیں۔ اور ان کی حالت زار پر اسے بہت دکھ ہوا تھا۔

سیلن سے تین مردوں نے جنوری کے مہینے میں زیادتی کی ۔ یہ واقعہ مانہائیم نامی علاقے کے ایک میدان میں رات کے وقت پیش آیا جہاں سیلن مسلمان مہاجرین کے حقوق کیلئے کام کرتی ہیں۔سیلن سیدھی پولیس سٹیشن پہنچیں اور رپورٹ درج کراتے وقت مجرمین کا نسلی پس منظر بتانے کی بجائے جھوٹ بولا کہ تین جرمن بولنے والوں نے اسے لوٹا ہے۔

سیلن بقول خود یہ نہیں چاہتی تھیں کہ وہ سچ بول کر جرمنی میں مقیم پناہ گزین لوگوں کے مسائل میں اضافہ کرے کیونکہ اس سے ملک میں نسل پرستی میں اضافہ ہو گا۔ لہذا اس نے پولیس کے سامنے جھوٹ بولا اور بعد ایک فرضی پناہ گزین کے نام فیس بک پر ایک خط لکھا جس کا متن کچھ یوں تھا۔ مجھے دکھ ہے کہ تمہارا حدیں پار کر جانے والا جنسی سلوک ملک میں جارحانہ قسم کی نسل پرستی کو ہوا دے گا۔ میں چیخ چیخ کر کہتی ہوں کہ میں خاموش تماشائی نہیں رہ سکتی جب تمہیں میرے ملک کے لوگ ایک مسئلے کے طور پر دیکھیں گے۔ تم مسئلہ نہیں ہو، تم اچھے لوگ ہو اور دوسروں لوگوں کی طرح محفوظ اور آزاد رہنے کے مستحق ہو۔

سیلن نے ابھی حال میں جرمنی کے مشہور رسالے دیر شپیگل میں اپنی کہانی بتائی ہے کہ پہلا جھوٹ بولنے کے بارہ گھنٹے کے بعد وہ دوبارہ پولیس کے پاس گئیں اور سب کچھ سچ سچ بتا دیا۔ اس کے ساتھ زیادتی کرنے والے کون تھے۔ اس کا کہنا ہے کہ سچ کو کبھی نہیں چھپانا چاہیئے خواہ وہ سچ سیاسی طور پر درست نہ ہو۔

جیسے مسلمانوں میں تقیہ کا تصور ہے کہ آپ ایسا جھوٹ بول سکتے ہیں جس سے اسلام دشمنوں کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے یا اس میں اسلام اور مسلمانوں کا فائدہ ہو۔ یہی حال سیاسی درستگی کا ہے۔ مغربی ممالک کے سیاسی طور پر درست لوگوں کے مطابق آپ کو کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیئے، کوئی ایسا سچ نہیں بھولنا چاہیئے جس سے معاشرے کے ”مظلوم“ طبقات کو کسی قسم کا نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ کہا جاتا ہے کہ سیاسی درستگی کے حوالے سے یورپ میں جرمن لوگ پہلے نمبر پر ہیں، دوسرا نمبر سویڈن کا ہے۔

بڑے کرم کے ہیں یہ فیصلے
یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔

Comments are closed.