مقبول ملک، بون جرمنی
آزاد پاکستان کی انہتر سالہ تاریخ میں آج تک بہت سے ہیرو انتقال کر چکے ہیں، کچھ کو ‘نامعلوم‘ حملہ آوروں نے قتل کیا، کچھ کو پھانسی دی گئی، جو بچے وہ زمین پر یا فضا میں بم دھماکوں میں مارے گئے اور باقی اپنی طبعی موت مر گئے۔ ان سب ہیروز کی موت کو عظیم اور ناقابل تلافی قومی نقصان قرار دیا گیا۔ عوامی رائے اور ہمدردیوں کو دیکھا جائے تو ایسا تھا بھی۔ لیکن ان تمام ‘عظیم پاکستانیوں‘ کے بارے میں ملکی عوام کسی متفقہ رائے کے حامل نہیں ہیں۔ ان کے بارے میں اجتماعی رائے عامہ ہمیشہ منقسم ہی رہی ہے اور اب تک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی پارٹی کے مقتول یا مرحوم رہنما کے سیاسی جانشینوں کی حکومت نے اگر اپنے دور میں ایسے کسی رہنما کو شہید قرار دیا تو حکومت بدلنے کے ساتھ ہی اس شہید کی سرکاری حیثیت ایسے تبدیل ہوتی رہی جیسے بجٹ میں خسارے کے اعداد و شمار ہر بار بدلتے رہتے ہیں۔
پاکستانی تاریخ نے ایسا وقت بھی دیکھا ہے کہ ایک لیڈر کو پھانسی لگا دینے والا حکمران بعد میں خود بھی شہید ٹھہرا۔ پاکستان کی سیاسی لغت ابھی تک ‘شہید‘ کی کسی متفقہ تعریف کی تلاش میں ہے۔
اس تحریر کا موضوع پاکستان کی جو شخصیت ہے، وہ اب خود موجود نہیں رہی۔ لیکن یہ ایک ایسی شخصیت تھی، جس کے پورے پاکستان کے متفقہ اور دائمی ہیرو ہونے پر کسی کو کوئی اختلاف نہیں تھا۔ اس پاکستانی کا نام عبدالستار ایدھی تھا، نہ کوئی سیاسی رہنما، نہ کوئی وی آئی پی اور نہ کوئی ایسا ‘عظیم لیڈر‘ جس کی موت ایک روایتی ‘ناقابل تلافی نقصان‘ ہو۔ ایدھی صاحب مختلف قسم کے پاکستانی تھے۔ ایک باعمل اور باعقیدہ مسلمان، لیکن انسان ایسے جنہوں نے زیادہ سے زیادہ حد تک مذہبی دہشت گردی اور خونریز فرقہ پرستی کا شکار ہوتے جا رہے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عشروں تک یہ کہنے کی نہ صرف ہمت کی بلکہ ایسا کر بھی دکھایا کہ دنیا کا کوئی بھی مذہب انسانیت سے بالاتر نہیں ہے۔
ایدھی صاحب خود ایک غریب انسان تھے لیکن وہ پاکستان کے سب سے زیادہ قابل محبت اور امیر ترین انسان بھی تھے۔ عبدالستار ایدھی نے اپنی زندگی میں غریبوں، ناداروں، بیواؤں اور یتیموں کی دیکھ بھال اور بہبود کے لیے اربوں ڈالر خرچ کیے اور وہ بھی عشروں تک۔ حادثات کے بعد زخمیوں کی مدد کرنے والا اور ہلاک شدگان کی لاشوں کو ہسپتالوں میں پہنچانے والا ایدھی فاؤنڈیشن کے تحت کام کرنے والا ایدھی ایمبولینس نیٹ ورک پاکستان میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے۔
ایدھی صاحب کا ایک اور بڑا کام لاوارث لاشوں کی تدفین بھی تھا۔ جب عام گھروں میں کوئی انتقال کر جاتا ہے تو خود اہل خانہ بھی لاش کو ہاتھ لگانے سے ڈرتے ہیں۔ لاش اگر لاوارث ہو اور متعفن ہونے لگے تو اس کو بھلا کون ہاتھ لگاتا ہے۔ ایدھی صاحب کی انسانیت دوستی کی حد تو یہ ہے کہ انہوں نے نصف صدی سے بھی کہیں طویل عرصے تک ہر اس انسانی زندگی کو بچانے اور اسے بہتر بنانے کے کوشش کی جسے بچایا یا بہتر بنایا جا سکتا تھا اور ساتھ ہی انہوں نے ہر اس انسان کی لاش کو بھی مکمل انسانی احترام دینے کی کوشش کی جو ان کے یا ان کے ادارے کے ہاتھ لگی۔ اس میں کسی شک و شبے کی کوئی گنجائش ہی نہیں کہ انسان اور انسانیت کے وقار کو ان کے جملہ تقاضوں کے ساتھ جس طرح عبدالستار ایدھی نے سمجھا اور ان پر عمل کیا، ویسا شاید ہی کبھی جدید دور کے کسی دوسرے انسان نے سمجھا ہو۔
ایدھی صاحب تعفن چھوڑ جانے والی لاوارث انسانی لاشوں تک کو خود اپنے ہاتھوں سے غسل دے کر ان کی تدفین کا اہتمام کرتے تھے۔ کیا انہیں تب ایسی لاشوں سے اٹھنے والی بو کبھی ناگوار نہیں گزری ہو گی؟ میرے خیال میں ایدھی صاحب کی، جو اس حوالے سے ایک عظیم غسال بھی تھے، تب صرف آنکھیں کام کرتی تھیں اور انہیں کسی بھی لاوارث لاش کو نہلاتے ہوئے صرف یہی دکھائی دیتا تھا کہ وہ ایک انسان کی لاش ہے، جس کی دنیا سے جسمانی رخصتی کا اہتمام پورے بشری وقار اور مذہبی تقاضوں کے مطابق کیا جانا چاہیے۔ ایسے میں یہ کچھ تعجب کی بات نہیں کہ ایک غسال کی موت پر پاکستان کے قریب بیس کروڑ شہری یہ سوچ کر انتہائی افسردہ ہیں کہ آج وہ سب روحانی اور جذباتی طور پر یتیم ہو گئے ہیں۔ انسانی تاریخ میں ایسا پہلے کب اور کہاں ہوا ہو گا کہ ایک درویش غسال نے پسماندگان اور سوگواران کے طور پر اپنے پیچھے بیس کروڑ یتیم چھوڑے ہوں؟
شاید بہت سے لوگ یہ نہ جانتے ہوں کہ عبدالستار ایدھی سالہا سال تک صبح ناشتے میں چائے کے ساتھ ایک دن پہلے کی باسی روٹیوں کے وہ ٹکڑے کھاتے تھے جو ان کے زیراہتمام چلنے والے یتیم خانوں میں بچوں کے لیے تیار کردہ رات کے کھانے کے بعد بچ جاتے تھے۔ ایدھی صاحب ایک ایسے باعزت فقیر بھی تھے جو ملک کے مختلف شہروں میں اپنے اداروں کے لیے مالی عطیات جمع کرنے کے لیے عام لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتے تھے اور جہاں بھی وہ زمین پر بیٹھ جاتے، چند ہے گھنٹوں میں کروڑوں روپے کے عطیات جمع کر کے اٹھتے تھے۔
ایدھی صاحب کے کام کو عشروں تک ان کا ساتھ دینے والی اب ان کی بیوہ بلقیس ایدھی اور بیٹا فیصل ایدھی آئندہ بھی جاری رکھیں گے۔ سوال یہ ہے کہ اس کام میں عام پاکستانی ان کی کیا مدد کر سکتے ہیں؟ جواب ہے: وہی جو ایدھی صاحب کی زندگی میں کی جاتی تھی، دامے، درمے، سخنے! لیکن دو کام اور بھی ہیں جو عبدالستار ایدھی کے بیس کروڑ پسماندگان اور بھی کر سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک عوام کا ہے اور دوسرا خواص کا۔
عوام کا یہ کہ ایدھی صاحب کے بلا رنگ و نسل اور مذہب اور فرقے کی تفریق کے انسانیت کی خدمت کے عملی پیغام کو ہر کوئی اپنے اپنے طور پر جہاں تک ممکن ہو اپنا لے۔ حکمرانوں، سیاسی رہنماؤں اور دیگر خواص کا کام یہ ہونا چاہیے کہ وہ ایدھی صاحب کے انتقال پر تعزیتی بیانات جاری کر کے اور اظہار افسوس کے لیے کیمروں کے ساتھ ان کے گھر جا کر اس لیے اپنا قد بڑا کرنے کی کوشش نہ کریں کہ بعد میں ‘خدمات کے اعتراف کی انہی گراں قدر کوششوں‘ کی خبریں اور تصویریں سرکاری محکموں اور سیاسی پارٹیوں کے میڈیا سیلز کے ذریعے ٹی وی چینلز سے نشر اور قومی اخبارات میں شائع ہوں گی۔
ایدھی صاحب کے لیے کسی ‘جوہر شناس‘ سیاسی حکمران کی طرف سے بعد از مرگ کسی بڑی سول اعزاز کا اعلان تو بالکل نہیں کیا جانا چاہیے۔ جس عظیم درویش، اپنے دور کے ولی، یتیموں کے والی اور لاوارث لاشوں کے غسال کا کہنا یہ تھا کہ ان کی نظر میں نوبل امن انعام کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور وہ صرف انسانیت کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، ایسے انسان کے پیغام کو خاموشی، عاجزی اور انکساری سے عملی طور پر پھیلایا جانا چاہیے، نہ کہ اس کی موت کو سیاسی تشہیری دکانداری کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔
ایدھی کے انتقال کا زندہ خواص کی طرف سے اپنا قد بڑھانے کے لیے سیڑھی کے طور پر استعمال کیا جانا زندوں اور مُردوں کا ستر ڈھانپنے والے عبدالستار کی عمر بھر کی جدوجہد کے ساتھ اجتماعی ناانصافی ہو گی۔
♠