افغان صدر اشرف غنی نےکہا ہے کہ افغانستان قیام امن کے لیے ، پاکستان کے ساتھ مل کر جو اقدامات اٹھارہا ہے وہ کامیاب نہیں ہورہے کیونکہ پاکستان عملی طور پر ابھی تک اچھے اور برے دہشت گردوں میں فرق کررہا ہے۔
افغان صدر نے نیٹو سربراہ کانفرنس میں دوسرے دن تقریر کرتے ہوئے کہا ”ہمارے ہمسایوں سے (سوائے پاکستان کے) علاقائی تعاون کے اقدامات مثبت نتائج دے رے ہیں” ۔
انھوں نے کہا کہ چار ملکی امن عمل پر راضی ہونے کےباوجود پاکستان اچھے اور برے دہشت گردوں کے درمیان فرق رکھ رہا ہے جو کہ اس خطے کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
۔“ ہمسایہ ممالک کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ کسی بھی رولز کی غیر موجودگی ہے جس کے ذریعے ہم اس خطے میں عالمی مدد کے باوجود امن کی صورتحال کو بہتر بنانے میں ناکام ہیں”۔
افغان صدر نے کہا دنیا کے رہنماوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ” افغانستان کثیر الجہتی مسائل میں گھرا ہوا ہے اور وہ القاعدہ اور داعش کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیا ، چائینز اور روسی خطوں سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد گروپوں اور پاکستان کی طرف سے پاکستانی اور افغان طالبان گروپوں سے براہ راست مقابلہ کررہا ہے”۔
سنہ 2015 کا دہشت گردی کے خلاف مکہ ڈیکلریشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے عرب مسلمان کمیونٹی سے مذاکرات بڑے مفید تھے۔
انہوں نے مسجد نبوی پر حالیہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں اور ہمیں مل کر اس چھوٹے سےگروہ کے خلاف مقابلہ کرنا چاہیے جو ہماری تہذیب کو ہائی جیک کرنا چاہتے ہیں۔
اشرف غنی نے تمام نیٹو ممالک کا شکریہ ادا کیاجنہوں نے افغان فورسزکے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر افغانستان میں نائن الیون کے بعد پیدا ہونے والے حالات کا مقابلہ اور قیام امن کے لیے کام کیا ۔
اشرف غنی نے کہا “نیٹو نے لڑاکا فورسز اور امدادی کاموں سے افغانستان کی ترقی میں اہم رول ادا کیا ہے اور اس سے ہماری 352000مضبوط فوج کی تربیت کی ہے”۔
انہوں نے امریکی صدر باراک اوبامہ کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے افغانستان میں امن کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں اور افغانستان میں امریکی دستوں کی موجودگی کو برقرار رکھا ہے۔
Daily Dawn