ایمل خٹک
عید کے موقع پر حسب روایت صوبہ پختونخوا کی اکثر مساجد میں مذہب کی سربلندی کیلئے دعا مانگی گئی اور اسلام کے خلاف سازش کرنے والے یہود و نصاریٰ اور مغرب کی سازشوں کا تفصیل سے ذکر کیا۔ اس طرح ہرسال کی طرح ان کی تباہی اور بربادی کیلئے دعا مانگی گئی۔ علماء کشمیر کی مجاہدین اور افغان طالبان کی فتح مبین کیلئے دعا مانگنا نہیں بھولے۔ پاکستان اور دنیا میں مذہب کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کا ذکر تو کجا ان کا نام تک نہیں لیا گیا۔ بلکہ اسے اسلام دشمن بیرونی قوتوں کی کارستانی قرار دیکر ان کی بھرپور مذمت کی گئ۔ اندرون ملک دہشت گردی کے واقعات کا حسب معمول سرسری ذکر کیا گیا جبکہ سعودی عرب میں حالیہ حملوں کو زیادہ وقت دیا گیا۔
ہمارے علماء جو اکثر ریاست کے پروردہ ہیں کا المیہ یہ ہے کہ وہ برے طالبان کی مذمت کرنا تو کجا نام تک بھی نہیں لیتے۔ دہشت گرد تنظیمیں تو خود اپنی کاروائیوں کی ذمہ داری لینے میں جھجک محسوس نہیں کرتیں اور ذمہ داری لینے میں دیر نہیں لگاتیں مگر ہمارے علماء ان کا نام لینے سے احتراز کرتے ہیں۔ جب تک خود علماء یعنی دینی طبقہ مذہب کے نام پر دہشت اور انتہاپسندی پھیلانے والوں کی مذمت نہیں کرتے اس وقت تک مذہبی دہشت گردی کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ دہشت گرد اپنی دہشت گردی اور عسکریت پسندی کو مذ ہبی جواز فراہم کرتے ہیں۔ اور ملک کے نامی گرامی علما ء کے فتووں سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ مذہب کا نام لے کر نوجوانوں کو گمراہ کرتے ہیں اور انھیں دہشت گردی کی راہ پر ڈالتے ہیں۔
اس سلسلے میں چند نئے اور مثبت رحجانات سامنے آئے ہیں ۔ کچھ عرصے سے چند علماء نے فرقہ اور مسلک کی بنیاد پر مخالف فرقے سے تعلق رکھنے والی بعض دہشت گرد تنظیموں کی مخالفت شروع کی ہے۔ مگر مین سٹریم دیوبندی علماء کی طرف سے اس سلسلے میں مجموعی طور پر تا حال مجرمانہ خاموشی ہے۔ خاموشی کی وجہ نیم رضامندی بھی ہو سکتی ہے اور ڈر اور خوف بھی۔
عید اور خاص کر جمعے کے خطبے سن کر عجب احساس ہوتا ہے کہ ہمارے علماء صاحبان کس دنیا میں رہ رہے ہیں اور عوام کے روزمرہ مسائل سے ان کا دور کا واسطہ بھی نہیں۔ دو تین بیانیے ہیں جو بلا استثنا آپ کو ہرخطبے میں ملیں گے۔ ایک تو مذہب ہمیشہ خطرے میں ہوتا ہے، کبھی مسجد کو تو کبھی مدرسے کو۔ یہ ایک دائمی خطرہ ہے جس کا مولوی طبقے کو سامنا ہے۔
دوسرا طاغوتی طاقتوں نے اسلام کو بدنام کرنے کاٹھیکہ لیا ہوا ہے۔ وہ مسلمانوں کو آپس میں لڑا بھی ر ہی ہیں اور ان کو بدنام کرنے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جا نے نہیں دیتے۔
ان کے بیانیے سن کر احساس ہوتا ہے کہ دنیا مذہب اسلام کے دشمنوں سے بھری پڑی ہے اور وہ اسلام کے پیچھے پڑےہوئے ہیں کہ کب اور کیسے اس کو بدنام کیا جائے۔ یہود و نصاری کی ریشہ دیوانیوں کی وجہ سے آج مسلم دنیا میں فساد پھیلا ہوا ہے اور مسلمان بذات خود اتنے بے بس اور لاچار ہیں کہ دشمن جب اور جہاں چاہے ان کو استعمال کرسکتا ہے۔
ہم خود بڑے معصوم ہیں سارا کیا دھرا بیرونی قوتوں کا ہے۔ وہ ہمیں مالی امداد بھی دیتےہیں اسلحہ اور گولہ بارود بھی وہ دیتے ہیں۔ عسکری تربیت بھی وہ دیتے ہیں ۔ اس طرح عسکری تربیت گاہیں اور مراکز دشمن کی سرزمین پر قائم ہیں اور حتی کہ دہشت بھی بیرونی قوتیں پھیلاتی ہیں ۔
ایک عام بیانیہ یہ بھی ہے جو ہر دھماکے کے بعد دہشت گردی کرنے والوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کوئی مسلمان ایسا کام نہیں کر سکتا۔ یہ اور بات ہے کہ دھماکہ کے بعد بہت سے مسلمان پاکستانیوں کو شک یا ارتکاب جرم کرنے کی شبے میں گرفتار کیا جاتا ہے۔ اور ان کو سزائیں بھی دی جاتی ہیں۔
اگر ہمارے مولوی حضرات جتنا وقت طاغوتی قوتوں کو بد دعائیں دینے اور ان کی مذمت کرنے میں صرف کرتے ہیں اس کا آدھا وقت بھی عام مسلمانوں کو مذ ہب کے نام پر دہشت پھیلانے اور خون ریزی کرنے والوں کی مذمت اور ان کی نظریاتی پول کھولنے میں لگا دیتے تو شاید بہت سے معصوم اور سادہ لوح مسلمان نوجوان گمراہ ھونے سے بچ جاتے۔
اس سے انکار نہیں کہ دشمن ہمیں زک پہنچانے اور نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کرینگے مگر کبھی ہم نے اپنے گریبان میں جھانکنے اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ دشمن سے زیادہ ہم اس صورتحال کے خود کتنے ذمہ دار ہیں۔ بیرونی قوتوں کے رول سے انکار نہیں مگر جب تک اندرونی لوگ اس کے آلہ کار نہیں بنیں گے دشمن ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ مگر دشمن کو تمام خرابیوں کا ذمہ دار ٹھہرانا خود فریبی سے زیادہ کچھ نہیں ۔ اپنی صفیں درست کرنے اور اصلاح احوال کی ذمہ داریوں سے اپنے آپ کو مبرا کرنے کے لیے دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانا آسان ہے۔
اگر جمعے اور عید کے خطبوں کو صحیح طریقے سے مانیٹر کیا جائے تو کئی خطباء کو مروجہ قانون کے تحت جیل کی سلاخوں کے پیچھے پائیں گے۔ اب یہ مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے کہ خطبات کو کنٹرول کیا جائے اور ریاست علماء کی مشاورت سے خطبات کیلئے ضابطہ اخلاق بنائے۔ کئی اداروں نے اس سلسلے میں کام کیا ہے اس سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔ اور متعلقہ وزارت یا محکمے ماڈل خطبات تیار کرکے اس پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔
♦