پختون کیا ہے؟ افغان کیا ہے؟

بہار ناصر

afghan_smile_3_800

پختون دنیا کی وہ قوم ہے جو تاریخ میں ایک نام کی بجائے چھ ناموں یعنی افغان، پختون یا پشتون، پٹھان، روھیلہ، کوہستانی اور سلیمانی کے نام سے، یاد کی اور پکاری جاتی ہے۔ لیکن میں پہلے صرف پہلے دو ناموں یعنی پختون اور افغان پر بحث کروں گا۔

تاریخ اور ادب کے ایک ادنی ٰطالب علم کی حیثیت سے عرض کروں گا کہ پختون اور افغان ایک ہی قوم کے دو نام ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جس کی زبان پختو یا پشتو ہے اور آدھی ڈیورنڈ لائن کے اس طرف اور آدھی اس طرف (یعنی کابل سے دریائے امو، دریائے امو سے دریائے بولان، دریائے بولان سے دریائے اباسین (دریائے سندھ)، دریائے اباسین سے چترال اور چترال سے کابل تک)آباد ہے۔

افغان:۔

افغان پختونوں کے جدامجد کا نام ہے یعنی یہ پختونوں کی ولدیت ہے اور پشتو زبان بولنے والی قوم تمام اس کی نسل سے ہے۔ یعنی یہ پختونوں کا نسلی نام ہے۔

پختون :۔ 

افغان قوم زمین کے جس ٹکڑے پر آباد تھی یا آباد ہے اس زمین یا اس وطن کا نام پختونخوا ہے اور اس میں رہنے والی قوم یعنی افغان قوم اپنے وطن کے نام کی مناسبت سے پختون کہلائی جاتی ہے۔ یعنی پختون، افعان قوم کا وطنی نام ہے۔

جس طرح کہ پنجاب ایک وطن کا نام ہے اور اسی مناسبت سے اس کے رہنے والے پنجابی اور ان کی زبان بھی پنجابی کہلائی جاتی ہے یا سندھ ایک وطن کا نام ہے اور وطن کی مناسبت سے اس کے لوگ سندھی اور ان کی زبان بھی سندھی کہلائی جاتی ہے۔ یا بنگال ایک وطن کا نام ہے اور اسی مناسبت سے اس میں رہنے والے لوگ بھی اور ان کی زبان بھی بنگالی کہلائی جاتی ہے۔ یوں ہی پختونخوا وطن کا نام ہے اور اسی مناسبت سے اس کے لوگ پختون اور ان کی زبان پختو کہلائی جاتی ہے۔ لیکن اس وطن میں رہنے والوں کی آبائی یا نسلی نام افغان ہی ہے۔ پختون صرف اس قوم کا وطنی نام ہے)۔

تاریخ کے ابتدائی ادوار میں زمین کے اس ٹکڑے یا وطن کا نام پکتیکا تھا جس کی وجہ سے اس کے رہنے والے لوگ یعنی افغان قوم پکتین کہلائی جاتی تھی اور ان کی زبان یعنی افغانی زبان پکتو کہلائی جاتی رہی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس وطن کا نام پکتیکا سے پختیخا اور پشتیخا میں تبدیل ہوا۔ اور اس مناسبت سے اس کے رہنے والے پکتین کی بجائے پختین یاپشتین اور ان کی زبان پکتو کی بجائے پختو یا پشتو کہلانے گی۔ اور بعد میں اس وطن کا نام پھر تبدیل ہوکر پختیخا یا پشتیخا کی بجائے پختونخوا یا پشتونخوا بنا اور اسکے رہنے والے پختین یا پشتین کی بجائے پختون یا پشتون کہلانے لگے اور ان کی زبان پختو یا پشتو ہی رہی۔

یاد رہے کہ افغانستان کا ایک صوبہ جوکہ پختونخوا علاقے کے وسط میں آتاہے آج بھی پکتیکا کہلاتاہے۔ اور یہ بھی واضح رہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقے خصوصا وزیرستان اور افغانستان کے صوبہ خوست کے لوگ آج بھی پختون کو پختین کہتے ہیں۔

پختون یا افغان قوم کے وطن (ڈیورنڈ لائن کے اس طرف بھی اور اس طرف بھی) کا تاریخی نام پختونخوا ہی ہے۔ ثبوت یہ ہے کہ رحمان بابا چار سو سال پہلے پشاور میں اور خوشحال خان خٹک ساڑھے چار سو سال پہلے اکوڑہ خٹک میں رہتے تھے دونوں نے اپنی شاعری میں اپنے وطن کا نام پختونخوا لکھاہے اور قوم کا نام کسی جگہ افغان تو کسی جگہ پختون یاد کیا ہے۔

اسی طرح عظیم پختون شہنشاہ احمدشاہ ابدالی کا تعلق کندھار سے تھا انہوں نے بھی تین سو سال قبل اپنی شاعری میں اپنا وطن پختونخوا کے نام سے یاد کیا ہے۔ پیر محمد کاکڑ، عبدالسلام اشیزئی اور علامہ عبدلعلی اخوندزادہ کا تعلق جنوبی پختونخوا یعنی کوئٹہ، پشین کے علاقے سے تھا۔ انہوں نے بھی صدیوں پہلے اپنی کتابوں میں اپنے وطن کو پختونخوا کے نام سے ہی یاد کیا ہے۔

اب آپ کے ذہن میں ضرور یہ سوال پیدا ہوچکا ہوگا کہ اگر پختون یا افغان قوم کے وطن یا علاقے کا تاریخی نام پختونخواہے تو پھر لفظ افغانستان کہاں سے آيا اور کب آیا۔

تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پختونوں یا افغانوں کے علاقے میں حکومتیں اور حکومتوں کے حدود متواتر تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ کبھی اس علاقے میں چھوٹی چھوٹی پختون یا افغان حکومتیں/ بادشاہتیں کام کرتی رہی ہیں تو کبھی اتنی بڑی حکومت وجود میں آجاتی کہ ا س کی حدود تاجکستان، ازبکستان، اذربائجان، ایران، بنگال اور ہندوستان تک پہنچ جاتی تھی۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے آپ مختلف افغان حکمرانوں شہاب الدین غوری، محمود غزنوی، میروائس خان نیکہ، سوری بابا (شیرشاہ سوریفریدخان)، احمدشاہ بابا (احمد شاہ ابدالی) کی سلطنتوں کے حدود کا مطالعہ کریں۔

جس طرح کہ میں نے اوپر وضاحت کی کہ چونکہ ان حکومتوں میں سے پہلے والی ایک بھی حکومت کی حدود پختونوں کے وطن کے حدود تک محدود نہیں تھی تو اس لیے شاید پہلے والی کسی حکومت کا نام بھی حکومت پختونخوا یا حکومت افغانستان نہیں ٹھہر سکا۔ تاہم احمدشاہ ابدالی کی حکومت کی حدود فتح ہند سے پہلے تقریبا تمام پختون علاقوں کو سمیٹ لی تھی بیشک اس میں بلوچ، ازبک، تاجیک وغیرہ کے بھی کچھ علاقے شامل تھے۔

میر وائس خان نیکہ اور احمدشاہ بابا کے زمانے ہی سے پختونخوا وطن کے حکومتوں کی حدود کو اس وقت دنیا کے دیگر اقوام نے افغانستان کے نام سے پکارنا شروع کیا۔ ظاہر بات ہے اس وجہ سے دنیا نے اس حدود اور علاقے کو افغانستان کے نام سے پکارنا شروع کیا کہ یہاں کی اکثریت علاقے بھی افغان قوم کے تھے اور حکمران بھی افغان تھے۔ حکومتوں کے لین دین اور رابطوں میں ان حکومتوں کا نام افغانستان استعمال ہونے لگا اور یوں آ ہستہ آہستہ افغانوں کے وطن کا نام پختونخوا سے افغانستان میں تبدیل ہوا۔ اور اسی نام سے کرنسی بھی بن گئی اور یہی سرکاری نام بنا۔ لیکن میں نے پہلے وضاحت کی احمدشاہ ابدالی اپنی حکومت کا نام افغانستان ہونے کے با وجود اپنے وطن کا نام پختونخوا لکھتے تھے۔

چائنیز و عرب سیاح اور مورخین جو ہزاروں سال پہلے پختونوں یاافغانوں کے وطن آئے تو انہوں نے اس قوم کا نام اپنی ڈائریوں میں پختونخوا لکھاہے۔ان تاریخی حوالہ جات سے ثابت ہوتاہے کہ پختونخوا نام افغانستان نام سے زیادہ قدیم اور تاریخی ہے۔

مقصد یہ نہیں ہے کہ افغانوں کے وطن کا نام افغانستان ہونا چاہیے یا پختونخوا۔ اگر چہ لفظ افغانستان، پختونخوا کی بہ نسبت نیا ہے تاہم غلط نہیں۔ کیونکہ دونوں نام اسی قوم کی پہچان ہیں اور پہچان ثابت کررہے ہیں۔ جو بھی ہو درست ہے۔ اگر چہ کسی وقت یہ دونوں نام ایک ہی علاقے کے تھے۔ تاہم آج وہ علاقہ دو سیاسی حصوں میں بٹ چکاہے اور ڈیورنڈ لائن کے اس طرف والے حصے کا نام افغانستان اور اس طرف والے حصے کا نام پختونخوا ٹھہرا ہے۔ اور ہم ان دو حصوں کو الگ الگ ناموں سے پکارتے ہیں۔

مقصد صرف یہ تھا کہ افغان اور پختون دو الگ قومیں نہیں ہیں یہ ایک قوم کے دو نام ہیں۔ جن میں سے پہلا نام یعنی افغان اس قوم کا نسلی نام ہے اور دوسرا نام یعنی پختون اس قوم کا وطنی نام ہے۔ نسل اور خون کے اعتبار سے سارے پختون افغان ہی ہیں۔ جیسے کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ افغان یا افاغنہ پختونوں کے جدامجد یعنی ولدیت کا نام ہے تو بھلا کوئی کیسے اپنی ولدیت سے انکار کرسکتاہے۔ اگر پاکستان کے پختون نسلاً افغان نہیں ہیں تو پھر کون ہیں؟ اور ان کا جد امجد کون ہے۔ پختون کے نام سے تو افغان یا پختونوں کے شجرہ نسب میں کوئی جدامجد نہیں گذرا ہے۔ تو پھر کیا ہم نیا شجرہ بنائیں اور اپنےنئے جدامجد کی تلاش شروع کریں۔

کنفیوژن کے شکار تمام پاکستانی بھائیوں سے عرض ہے کہ اور کوئی تاریخی مطالعہ آپ نہیں کرسکتے تو کم از کم وہی مطالعہ پاکستان کی کتاب جوآپ نے سکول میں پڑھی تھی اس کو ایک بار پھرذرا غور سے پڑھیں کہ اس میں لفظ پاکستانکی تشریح کس طرح کی گئی ہے؟ کیاآپ کے مطالعہ پاکستان میں نہیں لکھا گیاہے کہ پاکستانکے پکا مطلب پنجابی، الفکا مطلب افغان، ککا مطلب کشمیری سکا مطلب سندھی، تانکا مطلب بلوچستان یعنی بلوچ قوم ہے۔

اب آپ بتائیں کہ اگر پاکستان کے نام میں موجود افغان لفظ کا مطلب پاکستانی پختون نہیں ہیں تو پھر کون ہیں؟ اور کونسے افغان تھے یہاں کہ جن کو پاکستان کے نام میں شامل کیا گیا؟ 

اگر یہ نہیں تو پھر کب پاکستان کے پختونوں سے ان کا نسلی نام ڈیلیٹ ہوا۔ اور کیوں ڈیلیٹ ہوا وجہ کیا تھی؟

کسی پاکستانی پختون کا اپنے اپ کو افغان کہنا کوئی گناہ کبیرہ تو نہیں۔ افغان بھی اسی قوم کا نام تو ہے؟ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ کوئی پاکستانی پختون اپنے آپ کو افغان کہتاہے تو گویا وہ پاکستان کو ماننے سے انکار کرتاہے یا وہ پختونخوا صوبے یا بلوچستان کے پختون علاقوں کو افغانستان کا حصہ سمجھتا ہے۔ افغانوں کے علاقے کا یہ حصہ ایک وقت افغانستان کا حصہ تھا لیکن آج نہیں ہے۔ افغان اور افغانی یا افغانستانی میں سیاسی طور پر واضح فرق ہے۔ پاکستان کے پختون افغان ہیں لیکن افغانی یا افغانستانی نہیں ہیں۔ کیونکہ لفظ افغانی یا افغانستانی ایک ملک کے نیشنیلیٹی کو ظاہر کرتاہے۔ پاکستانی پختون نسل، قوم، اور خون کے لحاظ سے افغان تو ہیں لیکن افغانی یا افغانستانی کی بجائے پاکستانی ہیں۔ یعنی بائی نیشنیلیٹی پاکستانی ہی ہیں۔

لیکن محب وطن پاکستانی جو کہ دراصل ایک کنفیوزڈ ذہن کا مالک ہے مطالعہ کرنے کی بجائے گا لی گلوچ میں مصروف ہے۔اللہ ہم سب کو مطالعہ کرنے اور گالی گلوچ پہ اترنے سے پہلے کچھ مثبت سوچنے کی توفیق عطا فرمائے۔

محب وطن پاکستانی ایک بار پھر وہی کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کنفیوژن صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرکے دوبارہ اس وطن کا تاریخی نام یعنی پختونخوا رکھا جا رہا تھا۔

اس وقت بھی معاملہ سادہ اور بد نیتی سے پاک تھا لیکن کنفیوزڈ لوگوں نے لفظ پختونخواکے ساتھ ہلگا کر اس سے لفظ پختونخواہبنا یا اور معاملے کو الجھا کر کئی قسم کے شکوک و شبہات پیدا کیے تھے۔ لفظ پختونخوااور پختونخواہ میں زمین اور آسمان کا فرق تھا۔ پختونخوا پشتو زبان کا لفظ ہے جسکا مطلب ہے پختونوں کا علاقہ ہے) ۔ اس نام کا باقاعدہ ایک تاریخی پس منظر ہے جبکہ لفظ پختونخواہفارسی کا لفظ ہے جسکا مطلب بنتاہے کہ پختون مانگتاہوں یا پختون چاہیے۔ اس لفظ کا کوئی تاریخی اور سیاسی پس منظر نہیں۔ اس لفظ کو میڈیا پر قابض نااہل اینکروں اور سرکاری لکھاریوں نے تاریخی پختونخوا لفظ کو بگاڑ کر بنایااور کنفیوژن پھیلانے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔

آج بھی یہی چند مخصوص نااہل صحافی اور سیاست دان پختونخواکی بجائےاخبار، ٹی وی، اور جلسوں میں پختونخواہلکھتے اور پڑھتے ہیں۔ جو حد درجے تک افسوس کی بات ہے۔ جو نہ صرف ان صحافیوں کی نا اہلی ثابت کرتی ہے بلکہ بد نیت اور بد بودار عمل بھی ہے۔ خوالفظ میں الفسے اگے ہنہیں ہے۔ یہخواپشتو زبان کا لفظ ہے جس کا ایک معنی ہے سمت، طرفاور جغرافیہ کے جوالے سے اس کی معنی ہے علاقہ،زمین، وطن یا لینڈ۔ خواہلفظ نہ تو پشتو ڈکشنری میں ہے نہ اس کی کوئی معنی ہے۔ یہ فارسی زبان کا لفظ ہے جسکا مطلب ہے مطلوب ہوں۔ چاہتاہوں۔ مانگتاہوںپختونخواہ لکھنا یکسر غلط ہے۔

پختونخوا اور افعانستان میں آپ کو بہت سے ایسے چھوٹے بڑے علاقوں کے نام مل جائیں گے جن کے اخر میں لفظ خوااتاہے۔ مثلا ژوب کے قریب ضلع شیرانی میں ایک وسیع علافہ ہے جسکا نام مانی خواہے۔اسی طرح افغانستان میں ایک بڑے علاقے کا نام وازیخوا ہے۔ اسی طرح اور بھی کئی چھوٹے بڑے ایسے نام ہیں۔

بالکل اسی طرح لفظ افغان سے بھی تاریخی مطالعہ نہ رکھنے والے چند نا اہل لوگوں نے ڈرامہ بنا کر میڈیا اور سوشل میڈیا کی زینت بنایا اور کنفیوژن پھیلانے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ افغان تمام پختونوں کا تاریخی نام ہے اور اس میں کوئی برائی یا سیاسی بدنیتی نہیں ہے۔

اب آتے ہیں پختون/افغان قوم کے دیگر ناموں کی طرف۔ جیسا کا ابتدا میں کہا گیا کہ پختون کو پٹھان، روہیلہ، کوہستانی اور سلیمانی بھی کہا گیا ہے یا کہا جاتاہے۔ 

پٹھان:۔

پختونوں کے لیے یہ نام ہندوستان میں استعمال کیا گیا۔ کسی کو کوئی پتہ نہیں کہ اس نام کے کیا معنی ہے یا یہ کہ یہ نام اس قوم کو کیوں دیا گیا۔ البتہ اس لفظ کے ساتھ ایک دیسی ڈرامہ بنا کر جوڑ دیا گیا کہ یہ نام حضرت محمد صلعم نے پختون صحابی حضرت خالد بن ولید کو بطور خطاب دیا کیو نکہ بتانعربی میں کشتی کے نچلے تختے کو کہتے ہیں جو بہت مضبوط ہوتا ہے ۔ چونکہ خالد بن ولید ایک انتہائی مضبوط سپہ سالار ثابت ہوئے لہذا حضرت محمد صلعم نے یہ خطاب دیا۔

لیکن اس بیان کا اول تو کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے۔ دوم یہ کہ خالد بن ولید کے پختون ہونے کا بھی کوئی خاص ثبوت موجود نہیں ہیں۔صحابہ کرام میں واحد عجمی صحابی حضرت بلال (رض) تھے۔ تاہم کچھ مورخین لکھتے ہیں کہ قیص کے نام سے ایک پختون سردار کوہ سلیمان کے علاقے سے حضور پاک (ص) کی دعوت پر وہاں گئے (یہ دعوت خالد بن ولید (رض) کے ذریعے ہوا۔ شاید اس دعوت کے تعلق سے لوگوں نے خاند بن ولید کو بھی پختون تصور کیا) سردارقیص نے اسلام قبول کرکے ایک غزوے میں حصہ بھی لیا۔ اور پھر حضور (ص) نے اسکا نام قیص سے تبدیل کرکے عبدالرسید رکھا اور انہیں وہاں جہاد کرنے کی بجائے واپس اپنے وطن میں جاکر تبلیغ کر نے کے لیے واپس کوہ سلیمان بھیجا۔ 

یہ نام (پٹھان) پڑھے لکھے اور تاریخ سے کچھ با خبر پختون بالکل پسند نہیں کرتے۔ بلکہ اس نام کا برا مانتے ہیں۔ کیونکہ اس نام کا کوئی تاریخی پس منظر نہیں ہے۔ اور نہ اس کا کوئی معنی معلوم ہے۔ پڑھے لکھے پختون صرف پہلے والے دونام پسند کرتے ہیں یعنی پختون اور افغان۔

روھیلہ:۔

یہ نام بھی کسی زمانے میں پختون یا افغان قوم کے لیے تاریخ میں استعمال ہواہے۔ آج بھی ہندوستان اور پنجاب میں آباد وہ قدیمی پختون جن کی اب زبان بھی پنجابی اور ہندی ہے۔ اکثر اپنے آپ کو روھیلہ پٹھان کہتے ہیں۔

کوہستانی/ سلیمانی:۔

مذکورہ بالا چار ناموں کے علاوہ تاریخ میں جا بجا پختون قوم کے لیے کوہستانی (یعنی پہاڑوں میں رہنے والی قوم) اور سلیمانی بھی لکھا گیاہے۔ علامہ اقبال نے بھی اپنی شاعری میں اس قوم کو افغان اور کوہستانی کے نام سے یاد کیا ہے۔ مغلیہ سلطنتوں کے دوران ہندوستان اور پاکستان کے علافے میں پختونوں کے لیے کوہستانی کا لفظ زیادہ زیر استعمال رہا۔ کوہ سلیمان جو کہ ڈیرہ اسماعیل خان اور ژوب/ شیرانی کے درمیان واقع ہے اور اس میں مشہور سلیمان تخت کی چوٹی بھی ہے۔ یہ پہاڑ بھی کسی زمانے پختونوں کا ایک تہذیبی مرکز رہا ہے۔ شاید اسی وجہ سے کچھ لوگ اس قوم کو سلیمانی (یعنی کوہ سلیمان کے رہنے والے لوگ) کے نام سے پکارتے رہے ہیں۔

یہاں یہ بھی ایک مفروضہ ہوسکتاہے کہ کچھ مورخین نے افاغنہ یا افغان کے والد ارمیا نامی شخص کے بارے میں لکھاہے کہ ارمیا ،حضرت سلیمان (ع) کے فوجی لشکر کے سپہ سالار تھے۔ شاید سلیمانی لفظ ،اگر زیادہ قدیم ہے، تو ممکن ہے پختون کو اسی رشتے اور تعلق کے بابت سلیمانی کہا گیا ہو۔ تاہم اس نام کا بھی کوئی منطقی رشتہ معلوم نہیں۔

14 Comments