کيا انسانی حقوق کے تناظر کو چيلنج کرنے کی کوئی ضروت ہے؟

khan kakar

خان زمان کاکڑ

 کيا اس کو دنيا کی تاريخ  اور انسانی شعور کی پختگی کا ايک خوشگوار موڑ قرار ديا جائے گا کہ جب انسانوں کے قومی، تاريخی، سياسی، اقتصادی اور ثقافتی حقوق  نہ ہونے کے برابر رہے اور ان کے انسانی حقوق کا موضوع اتنے زور و شور سے ابهرا کہ ہر کوئی اس کی حقانیت کو تسليم کرنے پہ مجبور ہوتا ہوا نظر آيا؟ شايد کوئی اس  کو ايک مفروضہ يا تاريخ کے کسی گمراہ کن مطالعے کا شاخسانہ قرار د ے ليکن ہم سمجهتے ہيں کہ سرمايہ دارانہ نظام نے مستقبل کے کسی مارکس يا اس جيسے خطرے سے خود کو محفوظ بنانے کيلئے انسانی حقوق کا پہلو اپنے اندر ايک ڈسکورس کی حد تک  بہت منظم طور پر ايڈجسٹ کيا. اس کو ايڈجسٹمنٹ کی سیاست يا ایڈجسٹمنٹ کی سیاست کا نام ديا جاسکتا ہے۔

انسانی حقوق کی تاريخ کودو ہزار سال پہلے کے فطری حقوقکےرومن  تصور تک لے جائیں، يا اس کی جڑيں يونانی فلسفے ميں تلاش کی جائيں يا اس کويورپ کی  روشن خيالی کے دور کے ساتھ جوڑیں ليکن جو معروضی حقیقت ہے وه يہ ہے کہ  دوسری عالمی جنگ کے بعدانسانی حقوق  کا جو تناظر ابهرا ہے اس سے انسانوں کو اجتماع کی صورت ميں ديکهنے کی روايت کو بہت بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ اس کی وجہ سےانسان اب افراد بن چکے ہيں اور اپنے کچھ خاص انفرادی حقوق رکهتے ہيں۔

انسان کو اس کے ايک مخصوص ماحول سے نکال کر اگر آپ اس کو کائنات کے ايک باشندے کے طور پر دیکهنا شروع کرینگے تو  اس سے ميٹا نريٹيوز کو پنپنے کيلئے ايک ايسی گنجائش پيدا ہوجائيگی جس ميں جدیديت کے  نظريے، سرمايہ دارانہ نظام اور گلوبلائزيشن کی ہی جیت ہوگی۔

کيا انسانی حقوق کے تناظر سے پہلے انسان کا کوئی انسانی چہرهنہيں تها؟  سينکڑوں سالوں تک انسانی حقوق کے تناظر کی تاريخ پہنچانے والے اس تاريخ ميں سے وه حوالے کبهی نہيں دينگے جو ريڈيکل بنيادوں پر ساختياتی تبديلياں لانے والے لوگوں کی جدوجہد سے متعلق ہيں۔ انسانی حقوق کا موضوع بنيادی طور  پرلوگوں کو نظريات کے حبسسے آزاد کرانے اور نظريے کی موت کا اعلان کرنے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ آسان سی بات ہے جتنا بهی انسان کا صرف انسان ہونے اور انسان کے طور پر رہنے کی تبليغ کی جائے ليکن انسان صرف انسان نہيں اس کے ساتھ بہت  سارے حوالے تاريخی طور پر وابستہ رہے ہيں. ان حوالوں ميں قوم، نسل، طبقہ، جغرافيہ، زبان، مذہب، ماحول وغيره کا بڑا کليدی کردار رہا ہے۔

مختلف قسم کی ناانصافيوں ميں پلے بڑهے ہوئے ان لوگوں کو حقوق کے لحاظ سے ايک جيسے انسان کہنے يا بنانے کی جو سياست تهی وه اب سماجی سائنس کے حاوی ڈسکورسز ميں ماضی کے ايک حوالے اور ايک ناکام نظريے کے طور پر موجود ہے۔وه قوم پرست تحريکيں جنہوں نے سامراج کے خلاف تاريخی جدوجہد کی تهی ان کےتاريخی تناظر کو مٹا کر ان کے ليڈروں کے صرف وه اقوالِ زرين پيش کيے جاتے ہيں جن ميں انسان کے حوالے سے کوئی بات ہو۔

گزشتہ ايک ہفتے  سے عبدالستار ايدهی کا يہ قول سوشل ميڈيا ميں ايک بہت ہی بڑے پيمانے پہ شئیر کيا جارہا ہے جس ميں انہوں نے کہا ہے ، کہانسانيت کی خدمت کرنا ميرا  مذہب ہے جو دنيا ميں ہر مذہب کی بنياد ہے۔اس بيان سے ميں کوئی واضح معنی نکالنے ميں ناکام ہوں۔يہ بالکل ايسا ہے جب کوئی کہے کہ اس کا مضمون تاريخ  ہے،جب تک وه يہ نہ بتائے کہ کونسی تاريخ، کس دور اور کس علاقے کی تاريخ، اگر جنرل تاريخ بهی ہو تو اس کی بهی اگر کچھ حدود معلوم نہ ہوں، تو اسے کوئی معقول مطلب نہيں ليا جاسکتا۔

انسانی حقوق کے کلاسيکی تصور کے برعکس اس کے جديد تصور کو لبرل جمہوريت سے عليحده کرکے کبهی نہيں ديکها جاسکتا۔فرد کی آزادی، سول آزادی، لبرلزم، قانون کی عملداری اور جمہوريت کے حوالے سے سوشل تهيوری ميں انسانی حقوق کے تصور کی تشکيل اور ردتشکيل کا سلسلہ ايک لمبے عرصے سے چلا آرہا ہے۔

ايک ساده سی حقيقت  اس بحث ميں يہ بهی سامنے آتی ہے کہ انسانی حقوق کی کائناتی شکل و صورت ساری دنيا کو ايک ہی اصول کے تحت لانے اور چلانے کا مقصد اپنے اندر پوشيده رکهتی ہے۔ وه جو صديوں تک غلامی کی زندگی بسر کرتے رہے، وه جو نو آبادياتی قبضوں سے نئے نوآبادياتی قبضوں ميں چلے ان کو ايک دم کاسموپوليٹن شہری ڈکلير کرنا بالکل ايسا ہے جيسا اين جی اوز کے کاغذات ميں بہت سارے ترقياتی کام ہوئے ہوتے ہيں يا ترقی پسندوں کی نظموں ميں انقلابات دروازے پہ دستک دينے کهڑے ہوتے ہيں اور يا قوم پرستوں کے تصورات ميں بڑے بڑے علاقوں کو فتح کيے ہوتے ہيں۔

انسانی حقوق کے تناظر ميں غربت کا مسئلہ کسی طبقاتی ناانصافی اور قومی نابرابری ميں سے ابهر ہوا نہيں ہوتا ہے بلکہ يہ ايک ايسا اشاريہ ہوتا  ہے جس کے ذريعے دنيا کے مختلف حصوں کے درميان فرق کو ظاہر کيا جاسکتا ہے۔ اس فرق کو پهر ايک بيرونی مداخلت سے مٹانے کی جو سياست ہے اس کی ايک لمبی تاريخ ہے۔ اس سياست کے تہذيب سے ترقی تک کے سفر ميں صرف نام نہيں بدل چکے ہيں بلکہ اس نے  اپنے ساتھ بہت کچھ بهی بدل کرکے رکھ ديا ہے حتی کہ ان تحريکوں اور لوگوں کو بهی اپنے ساتھ بدل ديا جوکبهی دنيا کو تہذيب يافتہ بنانے والی سياست کے خلاف  اپنے اپنے علاقائی، قومی، تاريخی اور ثفافتی رنگوں ميں لڑ  رہے تهے۔

انسانی حقوق کی سياست مختلف رنگوں کو محفوظ بنانے کی بجائے رنگوں کو مٹانے کی سياست کے طور پر رہی ہے. اس کو آپ ايک مثبت اقدام بهی کہہ سکتے ہيں ليکن دنيا ميں ايسے لوگ بهی رہتے ہونگے جن کو جب آپ اپنے رنگوں سے عليحده کرينگے تو ان کے وجود کا خاتمہ ہوجائے گا۔ وه حلقے جن کے نزديک انسانی حقوق کا مسئلہ بڑا مقدم رہا ہے ان کا تجزيہ آپ اگر غور سے کريں تو وه کسی نہ کسی حوالے سے گلوبل مارکيٹ کے کنزيومرزم کو بڑهانے کے اشتہار چلاتے ہونگے۔

ہميں ايک بڑے عرصے سے يہ بات ذہن نشين کرائی گئی ہے کہ لوگوں کو سيکورٹی فراہم کرنا رياست کی ذمہ داری ہے۔يہ کہتے ہوئے ہم رياست کی قانونی عملداری کی حقيقت کو اتنا جذب کرجاتے ہيں کہ وه ہماری رگوں ميں ايک لازم حقيقت کے طور پر رچ بس جاتی ہے۔ رياست جو اپنے جيسے رويہ رکهنے اور بولنے والا انسان پيدا کرتی  ہے وه انسان  اپنے تخيل ميں جتنا بهی ايک بڑی دنيا کا کاسموپوليٹن شہری ہو ليکن معروضی طور پر اس کے نزديک کامياب زندگی کا راز قانون کی پاسداری ميں ہی  چهپا ہوا ہوتا ہے۔جيسا کرپشن، گورننس اور قانون کی علمداری ايک دوسرے  سے جڑے ہوئے تصورات ہيں اسی طرح انسانی حقوق،  گلوبلائزيشن، پس قومی رياست ، بين الاقوامی قانون ، اس کی پاسداری اور گورننس کے تصورات کو ايک دوسرے سے عليحده نہيں کيا جاسکتا۔

انسانی حقوق کی سياست اور تنظيموں نے رياستوں کی بالادستی کو چيلنج کرنے کی بجائے ان کو قانون کی عملداری مضبوط بنانے کا موقع اور جواز فراہم کرديا ہے. قانون کی عملداری مضبوط ہونے سے انسانوں کی آزادی کا معيارجتنا کمزور پڑتا ہے اس حقيقت کا ان لوگوں کو بخوبی پتہ ہے جو اس تجربے سے گزرے ہوں يا جنہوں نے قانون کی عملداری اور انسانی آزادی کے تعلق کا کوئی تنقيدی مطالعہ کيا ہو.

مخصوص قوميتوں اور مذہبی اقليتوں پہ ہونے والے تشدد کو انسانيت کے خلاف جرمقرار دينے والے لوگ ٹهکرائے ہوؤں سے کوئی ہمدردی نہيں ظاہر کرتے بلکہ ان کی مخصوص نوعيت کی جدوجہد کے ابهرنے کے امکان کو کمزور بنانے کی ساز ش کرتے ہيں۔ وه يہ کہتے ہيں کہ ساری انسانيت ايک بدن کی مانند ہے۔ اس بدترين جهوٹ کے پلندے ميں پلنے والی نفسيات سے پهر دنيا ميں باريک نوعيت کے تضادات کو سمجهنے کی توقع نہيں کی جاسکتی۔

اس بحث ميں پاکستان کا وه لبرل طبقہ جس نے سماجی سائنس محترم ارشد محمود اور مبارک حيدر سے سيکهی  ہے وه اپنے ردعمل ميں مجهے انسانی چہرے سے ايک ناآشنا فرد کے طور پر ڈکلئير کرسکتا ہے اور اس کی وجہ جديديت سے ميری  دوری اور میری  قبائلی تہذیبی نرگسيت بتائے گا۔ ليکن ميں شروع ميں ہی ايک پتے کا نکتہ  رکھ ديتا ہوں وه يہ کہ وزيرستان کی پانچ صديوں کی تاريخ اٹهائيں، اس پورے عرصے ميں جتنا تشدد ہوا  ہے اس کو شمار کريں ، اس کا موازنہ گزشتہ پندره سال ميں وزيرستان ميں ہونے والے تشدد سے کريں  اور پهر انسانی چہرے ميں جو تبديلی آئی ہے اس کی بارے ميں اپنی رائے سے ہميں مستفيد کریں۔

يہ ايک تاريخی مسئلہ ہے اور اس کيلئے تاريخ کا مطالعہ اور شعور چائيے کہ کس طرح وزيرستان ميں انسان کا انسانی چہره ايک جديد  رياست، اس  سے پہلے ايک جديد جہاد اور اس سے بهی پہلے ايک جديد نوآبادياتی نظام کے ہاتھوں برباد ہوتے ہوئے  يہاں تک پہنچا؟ اگر کوئی جديديت سے دوری يا تہذيبی نرگسيت کا مسئلہ ہوتا، اگر تعليم کی شرح کی بات ہوتی يا اگر کسی پسماندگی کی وجہ ہوتی  تو وزيرستان سے  تين سو سال پہلے اس سے تين سو گنا زياده نقل مکانی ہونی چاہے تهی جو ابهی آپريشن ضرب عضب کے دوران ہوئی۔ ميں نہيں مانتا اور نہيں جانتا کہ جديد تہذيبنے انسان کو انسان کا اپنا چہره ديا اور اس کو اپنے حقوق کا شعور ديا۔ميں جديد تہذيبکے اندر کے تضادات کو کچھ اس طرح ديکهتا ہوں جس طرح انسانی معاشروں کے اندر کے ان گنت تضادات۔

يہ جو انسانی حقوق کے حوالے سے رياست کو سبق سکهانے والے لوگ نظر آتے ہيں آپ ان سے پوچھ سکتے ہيں کہ رياست کے اندر رہتے ہوئے کونسی زبان بولنی پڑتی ہے؟ اس ريسرچ کيلئے ضروری نہيں کہ آپ کراچی يا بلوچستان   کا دوره کريں۔ آپ لاہور ميں بہت ساروں سے معلوم کرسکتے ہيں۔ آپ محترم آئی اے رحمان سے پوچھ سکتے ہيں کہ آپ جب اقليتوں کے حقوق پہ بات کرتے ہيں تو  کيوں جناح صاحب کی تقاريرميں سے ہی دلائل تلاش کرتے ہيں؟

اس کے علاوه انسانی حقوق والوں سے يہ پوچهنا چائيے کہ ہٹلر اور سٹالن کو ايک ہی تناظر ميں پرکهنے سے کيا دنيا ميں کوئی بڑا امن قائم ہوا؟ کيا اسی کی دہائی ميں افغانستان کی انقلابی حکومت کا تشدد اور مجاہدين کا تشدد ايک دوسرے کو بيلنس کرنے کيلئے کافی ہے؟ کيا پاکستان ميں بلوچ مزاحمت کار اور طالبان کچھ ايک ہی قسم کے جرم کے مرتکب ہورہے ہيں؟ انسانی حقوق کے علمبردار ملاؤں کوقابو کرنے کيلئے رياست سے فورس کو  استعمال کرنے کا مطالبہ تو کرتے رہتے ہيں ليکن جس علاقے کو فوج  فتحکرجاتی ہے تو وہاں پر پهر انسانی حقوق کے مسئلے کی نوعيت غيرمقبول حد تک بدل کيوں جاتی ہے؟

دوسری عالمی جنگ کے بعد کا اس ڈيولپمنٹ انسانی حقوق کا تناظر جس کو اقوامِ متحده کے اعلاميے کی سرپرستی حاصل رہی ہے نے  اس وقت کی ايک  اور ايجاد تيسری دنياکے اندر موجود بنيادی تضادات کو خطرناک طور پر نظر انداز کرديے۔ اسی دور کی ايک اور اہم پيداوار  پاکستانی رياست کيلئے کشمير کا مسئلہ انسانی حقوق کا ايک انتہائی اہم موضوع رہا ہےليکن فاٹا کو انگريزوں کے قانون کے تحت ستر سالوں تک رکهنا اسلام کے دشمنوںکے خلاف  صرف ايک مخصوص تزويزاتی مقام کا معاملہ ہے۔ اسی اثناء ميں گلگت بلتستان کی صورتحال کو کشمير سے کبهی موازنہ نہيں کيا جائيگا اور نہ ہی وہاں پہ انسانی حقوق کی کوئی خلاف ورزی  ہوتی ہے۔

 انسانی حقوق کے تناظر کے حق ميں ايک دليل يہ بهی دی جاسکتی ہے کہ ان کی بدولت رياستوں کی  وه اتهارٹی چيلنج ہوئی جس کی رو سے اپنی سرحدوں کے اندر رياست کو ہرقسم کا تشدد کرنے کا قانونی حق حاصل تها۔ ليکن مسئلہ يہ ہے  کہ جب رياست اپنی سرحدوں کے اندر ايک طبقے يا تحريک کو دہشت گرد قرار دے تو پهر اس کے خلاف تشدد کو استعمال کرنے کا حق چيلنج کرنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے۔ ميں طالبان کی بات نہيں کررہا اور نہ ان کے خلاف کسی قابل توجہ تشدد کا استعمال ہوا ہے۔

رياست نے بہت ساروں کو دہشت گرد قرار ديا ہے۔ بلوچوں کی قومی مزاحمتی تحريک اس کی ايک بڑی مثال ہے۔اب يہ کون طے کريگا کہ دہشت گردی کيا ہے اور کيا نہيں؟ انسانی حقوق والے شايد بلوچ سياسی کارکنان کی گمشدگی پہ تهوڑا بہت احتجاج کريں ليکن بلوچوں اور رياست کے درميان لڑائی ميں وه   کبهی کسی کی سائیڈ نہيں لے سکتے۔

بلوچوں کی تو کبهی بهی نہيں۔ ايک اور غيرمقبول مسئلے سرائيکی صوبے پہ انسانی حقوق والوں کا کوئی موقف ہمارے سامنے ابهی تک نہيں آيا ہے۔ پاک چائنا اکنامک کاريڈور کا پورا پراجیکٹ اور پهر روٹ کی تبديلی کے معاملے پر بهی انسانی حقوق والے خاموش شايد اسی وجہ سے رہے کہ ايک تو اس سے ايک لسانیمسئلہ بنانے کی کوشش کی گئی اور دوسرا يہ کہ يہ پراجکٹ بنيادی طور پر پاکستان کو ترقی يافتہ بنانے کے لئے ہے تو اس پہ کوئی تنقيدی نقطہ نظر دينے کا  مطلب ترقی کی مخالفت کرنا ليا جاسکتا ہے اور اس کو کسی بيرونی سازش سے بهی جوڑا جاسکتا ہے۔

پاکستان  اپنی سرحدوں سے باہر انسانی حقوق کا ايک بڑا استاد بنا پھرتاہے۔ افغانستان میں بیرونی فوجوں کے ہاتهوں اگر کہيں  کسی بے گناه افغان کو نقصان پہنچے تو اس سے ميڈيا ميں انسانی حقوق کا ايک بڑا مسئلہ بنايا جائيگا اور اس کو طالبان کی دہشت گردی کيلئے جواز کے طور پر بهی استعمال کيا جائيگا۔پاکستان برما ميں مسلمانوں پہ تشدد کے واقعات کو انسانی حقوق کی سنگين خلاف ورزی قرار ديکر وہاں پہ اس طرح کے سیکولر نظام لانے کا مطالبہ کرتا ہے  جسکا وه خود اپنی سرحدوں کے اندر بڑا مخالف رہا ہے۔

يہاں پہ مختلف قوموں اور مذہبی اقليتوں پہ روزانہ کی بنياد پر جو تشدد کيا جاتا ہے اس کو چند لبرل حلقے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا نام تو ديتے آرہے ہيں ليکن رياست اس کو کسی بيرونی ہاتھ يا مٹهی بر شرپسندوں کے ساتھ جوڑ کر اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے ديتی ہے۔ مذہبی اقلیتوں اور خواتين پر ہر قسم کے تشدد کا واقعہ ہوجائے تو صرف يہ کہنا ميڈيا ميں کافی سمجها جاتا ہے کہ اسلام نے جو حقوق مذہبی اقليتوں اور خواتين کو دئيے ہيں کسی اور مذہب نے نہيں دئيے ہيں۔ رياست اپنی ذمہ داری ، تاريخی اور ساختياتی مسائل اور معاشرے کے اندر موجود متعصابہ رويوں پہ بحث کرنے کی بجائے لوگوں کو مختلف مذاہب کا تقابلی جائزه لينے کا کام سپرد کرديتی ہے۔

 پاکستان ميں انسانی حقوق کی تعريف بهی يا تو اسلام سے ماخوذ ہے اور یا جناح صاحب کی گياره اگست کی تقرير سے۔اسلام کی مختلف تشريحات اور جناح صاحب کی تقرير کے بعد پاکستانيوں کی سوچ کام کرنا چهوڑ  ديتی ہے۔ رياست جس کو  روايتی طور پر ايک عمرانی معاہدے کے طور  پر ديکها جاتا تها، پاکستان ميں اس کو ايک مابعدالطبيعاتی حقيقت کے طور پر عوام کے ذہن ميں بٹهايا گيا ہے۔ لوگوں کی سوچ کو جس لائن پر متعين کيا جاچکا ہے اس ميں رياست کو جاننے اور اس کے ساتھ اپنے تعلق کو سمجهنے کی بجائے رياست کو کسی طرح اور کسی سے بڑھ کرکے ماننے کی کوشش کی جاتی ہے۔

رياست جب خود ايک عقيدے کی شکل اختيار کرجائے وہاں پر انسانی حقوق کا موضوع بهی عقيدے کی راسخ گوئی اور اس کی مختلف تشريحات کا پابند رہے گا۔ اس حوالے سے نہ تو پهر  آزاد ی سے سوچنے کی گنجائش رہتی ہے اور نہ اس حقيقت کو تسليم کيا جاتا ہے کہ ايک انسان کے بنانے ميں مختلف قسم کے تاريخی، جغرافيائی، سیاسی، اقتصادی ، ثقافتی اور ماحولياتی عوامل کارفرما رہتے ہيں۔ کروڑوں انسان کو اپنی مادری زبان سے عليحده کرنا اور ان کو جبری طور پر دوسری زبانوں کا محتاج بنانا انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہيں بلکہ پاکستان کی يکجہتی کو قائم رکهنے کی ايک جائز پاليسی ہے۔

افغانستان ميں انسانی حقوق کی پامالی کرنے والے طالبان اور القاعده (کسی کی واضح پشت پناہی کے ساتھ) اور انسانی حقوق کو يقينی بنانے والی بيرونی دنيا کی افواج  دونوں نے بغير کسی دعوت کے آکر افغانستان کو ايک ايسا زون سمجها جہاں پہ وه اپنے اپنے ايجنڈے  کے مطابق ايک کاسموپوليٹن  انسان کو تشکيل کرسکتے اور اس کا دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلق کے معيار ات متعين کرسکتے تهے۔ يہ غلط فہمی نہ ہو کہ ميں افغانستان ميں طالبان اور ايساف کو ايک ہی پيمانے کی بيرونی قوتيں اور ايک جيسے خطرناک سمجهتا ہوں بلکہ کہنے کا مقصد صرف يہ ہے کہ موجوده دنيا ميں افغانستان کا انسان   ايک بہت بڑے عرصے سے جو اپنے طور پر رہنے کا حق کهو چکا ہے اس کی ذمہ داری کس پہ عائد ہوگی اور اس کيلئے کيا دنيا کے کسی قانون ميں  کوئی سزا مقرر ہے اور سزا دينے والا  کوئی ہے بهی؟

افغانستان ميں ايک کائناتی انسان پيدا کرنے کی جو سياست ہے وه افغان کو افغان رہنے نہيں ديتی بلکہ اس سے يا تو  دنيا کے خلاف لڑنے والا مجاہد بنايا جاتا ہے اور يا لبرل ڈيموکريسی کے اخلاقيات و اصولوں کی پاسداری کرنے والا انسان۔ مجهے آخرالاذکر انسان نسبتاً پسندہوگا ليکن اس ماڈرن انسان کے پانے ميں نہ چاہتے ہوئے بهی بہت کچھ گنوانا پڑے گا۔انسانی حقوق کے علمبرداروں کی دليل بهی تو يہ ہے کہ ترقی يافتہ ہونے کی ايک قيمت ضرور ہوتی ہے جس کو ادا کرنا پڑے گا۔

افغانستان ميں کم عمر لڑکوں کے ساتھ جنسی زيادتی کے کچھ واقعات ميڈيا ميں رپورٹ ہوئے ہيں اور اس کو عالمی سطح پر انسانی حقوق کی تشويشناک خلاف ورزی قرار دی گئی ہے۔ مسئلہ يہ ہے کہ اس عمل کو افغانوں کی ثقافت کا حصہ قرار ديکر اس کے خلاف باہر سے سماج ميں مداخلت کرنے کا جواز فراہم کيا جاتا ہے۔يہ وه نکتہ ہے جہاں پہ انسانی حقوق کا تناظر کلچرل ريليٹيوازم  پہ خطرناک حد تک  حاوی ہوجاتا ہے اور پهر کوئی يہ جاننے کی کوشش نہيں کرتا کہ خود افغان معاشرے کے اندر اس نام نہاد بچہ بازیکی روايت کو ثقافتی طور پر کس طرح سمجها جاتا ہے؟ 

 اس کو ثقافتی طور پر جس طرح بهی سمجها جاتا ہے يہ کسی غلط يا صحيح ہونے کا مسئلہ نہيں بلکہ اس کی تاريخ، سياست اور معيشت جاننے کی ضرورت ہے۔سماجی سائنس کا مقصد صرف غلط اور صحيح کے درميان فرق کرنا يا غلط اور صحيح کو تشکيل کرنا ہی کيوں بنا؟ کيوں نہ کسی مسئلے کو تاريخی تناظر ميں جاننے پہ اکتفاء کيا جائے؟ کسی  مسئلہ کو بنا کر يا کسی موجود مسئلے کو جان کر پهر اس کو حل کرنے کی فوری ضرورت کيوں محسوس کی جاتی ہے؟

انسانی حقوق کے بڑے تناظر ميں فيمنزم  کی مختلف شکليں بهی دنيا ميں کلچرل ليبلائزيشن کی مرتکب رہی ہيں۔نائن اليون کے بعد کا افغانستان ديگر لبرل اور جہادی نظريات کی طرح فيمنزم کا بهی شکار( وکٹم) رہا۔ افغان خواتين پہ طالبان نے جو مظالم کيے تهے يا  ان  کوجن مستبد روايات کا پابند بنايا  تها ان کے خلاف عالمی سطح پر ايک علمی اور عملی مشن کا آغاز ہوا۔

افغانستان ميں نيٹو افواج کی موجودگی کا ايک مقصد افغان خواتين کو محفوظ يا آزاد کرانا بهی تها۔ اب سوال يہ بنتا ہے کہ اس محفوظ يا آزاد کرانے کا کام صرف ان خواتين کو طالبان کے استبداد سے محفوظ يا آزاد کرانے تک محدود تها يا ان کو اپنی ايجنسیسے بهی محفوظ يا آزاد کرانا  تها؟ اس سوال کا ايک امريکن انتهروپالوجسٹ ليلا ابولوغاد نے اپنے ايک مضمون ميں جواب دينے کی کوشش کی ہے کہ افغان خواتين کو  واقعی محفوظ ہونے کی ضرورت ہے؟۔

اس  نے دنيا کےکالونيل فيمنزمکے سامنے کلچرل ريلٹيوازم کا مقدمہ رکها ہے جس کے مطابق ہر معاشرے کے اپنے ثقافتی اور تاريخی تناظر کو اہميت حاصل ہوتی ہے اور باہر سے کسی کو اپنے طور پر کسی معاشرے کو ديکهنے يا بنانے کا حق حاصل نہيں۔ ميرے خيال ميں کلچرل ريلٹيوازم کبهی بهی  ايک اخلاقی تناظر سے بڑھ کر عملی دنيا ميں کوئی موثر کردار ادا نہيں کرسکا ہے۔ گلوبلائزيشن نے تو اس کی اخلاقی اہميت بهی ختم کر رکھ دی ہے۔

ابولوغاد  نے اگرچہ پردے کی لبرل سياست کے خلاف قابلِ بحث نکات اٹهائے ہيں کہ خواتين پردے کی غلام نہيں اور نہ ہميشہ ان کو زبردستی پردے ميں لپٹايا گيا ہے بلکہ پردے کے ساتھ ان کی ذات کا ايک تعلق رہا ہے اور اس کے تاريخی اور ثفافتی معنے بهی ہيں، ليکن اس مقدمے ميں اس نے گمراه کن طور پر  برقعے کوپشتون خواتين کا پرانا کلچر  قرار ديا ہے اور افغان خواتين کا مقدمہ ان کے اپنے خاص ثقافتی تناظر کی بجائے سارے مسلم معاشروں بالخصوص مصر کی خواتين کے کلچر کے تناظر ميں رکها ہے۔

ابولوغاد جو کالونيل فيمنزم اور مغربی سکالرز کو دنيا ميں موجود ثقافتی تنوع کو نظرانداز کرنے يا ختم کرنے پہ تنقيد کا نشانہ بناتی ہے ليکن جب وه اس تنوع کے حق ميں دليل دينے  لگ جاتی ہے تو  پهر اس کو افغان خواتين ايک بڑے مسلمان معاشرے کا حصہ نظر آتی ہيں اور اس کو افغان خواتين اور مصری خواتين کے درميان کوئی ايسا فرق نظر نہيں آتا جس کا وه ذکر کرسکيں۔

انسانی حقوق والوں  نے جتنا معاشروں کو غيرسياسی بنايا شايد کسی نے اتنا کيا ہو۔ وه برداشت کا درس ديتے رہیں گے ليکن وه اس تفصيل ميں جانے کی ضرورت کبهی محسوس نہيں کرينگے کہ سماج ميں برداشت کيوں ختم ہوئی؟ اور يہ کہ برداشت  کی کتنی ضرورت ہے اور کس چيز کو برداشت کيا جائے اور کس کو نہيں؟ ان کے نزديک تشدد ہميشہ اخلاقی طور پر غلط رويہ اور ايکشن رہا ہے. وه کسی بهی مقصد کيلئے کيے جانيوالے تشدد کو طالبان کے تشدد سے تشبيہ دے کرکے اس کے اخلاقی جواز کوختم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔

ہمارے مشاہدے ميں آيا ہے کہ جتنا جتنا کسی ميں انسانی حقوق کی سوک سینس بڑھتی ہے اتنا اتنا وه سماج ميں موجود تضادات کی نفی کرتا ہے۔ آخر ميں يہ کہنے کی جسارت کروں گا  کہ ان انسانی حقوق والوں کی نسبت مُلا لوگ بڑے سياسی رہے ہيں،  انہوں نے سماج  ميں بدترين تشدد کا ساتھ ديا ليکن  سماج کے تضادات سے اپنے آپ کو اتنا عليحده نہيں کيا جتنا ان لوگوں نے کيا۔ مُلاؤں کے مقاصد کو سمجهنے ميں ہميں اتنی مشکل درپيش نہيں ، جتنی مشکل کا سامنا ہمیں ان انسانی حقوق والوں سے ہے۔

Twitter: @khanzamankakar

3 Comments