ترکی میں فوجی بغاوت کی کوشش

36532A6B00000578-3692693-image-a-74_1468625514356

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق صدر طیب اردوآن جو کہ ایک تفریحی مقام پرتھے واپس استنبول پہنچے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ باغی کمزور پڑ رہے ہیں۔

ترک فوج کے ایک گروپ کی طرف سے ملک کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی خبریں موصول ہو رہی ہیں جبکہ صدر ایردوآن نے نامعلوم مقام سے سی این این ترک نیوز ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ بغاوت کی کوشش ناکام بنا دی جائے گی۔

خبر رساں اداروں کے مطابق ترک فوج نے ملک بھر میں کرفیو نافذ کر دیا ہے جبکہ انقرہ میں فوجی ٹینک سڑکوں پر آ چکے ہیں اور انقرہ میں فوجی

طیارے نیچی پروازیں کر رہے ہیں۔

خبر رساں اداروں کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ ترکی کے قومی نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی پر ایک نیوز کاسٹر نے فوج کا بیان سنایا ہے کہ ملک بھر میں غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔

دریں اثناء انقرہ اور استنبول میں فائرنگ کی آوازیں گونج رہی ہیں اور جرمن نیوز ایجنسیوں کی خبروں سے پتا چلا ہے کہ اتا ترک ایئرپورٹ کو فوج نے اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔

دوسری طرف ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ ملکی فوج کے ایک گروپ کی طرف سے بغاوت کی کوشش کے خلاف احتجاجی طور پر سڑکوں پر نکل آئیں۔

ایردوآن نے اس عہد کا اظہار کیا ہے کہ وہ اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے’ممکنہ اقدام‘ کریں گے۔ انہوں نے یقین کا اظہار کیا کہ بغاوت

کی کوشش ناکام ہو جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ وہ اب بھی ملک کے صدر اور کمانڈر ان چیف ہیں۔ایردوآن نے مزید کہا کہ بغاوت کی کوشش کرنے والوں کو ’بھاری قیمت چکانا‘ پڑے گی۔

ایردوآن نے موبائل فون سے فیس ٹائم کے ذریعے سی این این ترک نیوز ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فوجی بغاوت کو ناکام بنانے کے لیے عوام کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بغاوت کی یہ کوشش مختصر وقت میں ہی ناکام بنا دی جائے گی۔

ترکی کی اپوزیشن جماعت نے بھی اس بغاوت کی مذمت کی ہے۔ ترکی کی سب سے بڑی حزب مخالف کی سیاسی جماعت ریپبلکن پیپلز پارٹی(جوکہ سیکولر جماعت کہلاتی ہے) کے رہنما کمال کیلدورف نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ عوام کی رائے کو اولیت دیتےہیں۔ ترکی پہلے ہی فوجی حکمرانوں کے باعث کافی نقصان اٹھا چکا ہے اور مزید اس کا اہل نہیں۔

عالمی رہنماوں نے بھی ترکی کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ترجمان اشٹیفن زائبرٹ نے ہفتے کی صُبح ترکی کی صورتحال کے بارے میں ایک ٹوئٹ پیغام میں کہا، ’’جمہوری اداروں کا احترام کیا جانا چاہیے اور ترکی میں انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جانے چاہییں‘‘۔

امریکی صدر باراک اوباما نے تمام فریقوں پر زور دیا ہے کہ وہ ترکی کی جمہوری طور پر منتخب حکومت کی حمایت کریں۔ اوباما نے اپنے نیشنل سکیورٹی کے مشیروں کے ساتھ ایک اجلاس کے بعد ایک بیان میں تمام ترکوں سے تحمل کا مظاہرہ کرنے اور تشدد اور خونریزی سے باز رہنے کا مطالبہ کیا۔

یورپی یونین کے سیکرٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ نے ہفتے کی صُبح ایک بیان دیتے ہوئے کہا، ’’میں ترکی کی صورتحال کا جائزہ انتہائی باریک بینی اور تشویش کے ساتھ لے رہا ہوں۔‘‘۔ترک صدر رجب طیب ایردوان کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے اُن کا مزید کہنا تھا، ’’میں تحمل اورسکون اور ترکی کے جمہوری اداروں اور ملکی آئین کے مکمل احترام کا مطالبہ کرتا ہوں‘‘۔

ترکی کے پڑوسی ملک یونان کے حکومتی اہلکاروں کے مطابق ترکی کی تازہ ترین صورتحال کے پس منظر میں ایتھنز میں یونانی پولیس اور فوج کے اہلکاروں کا ہنگامی اجلاس منعقد ہو رہا ہے۔

دریں اثناء اسلامی جمہوریہ ایران نے جمعے کو ترک فوج کے ایک گروپ کی طرف سے فوجی بغاوت کی کوششوں کی خبریں موصول ہونے پر تہران کی گہری تشویش کا اظہار کیا۔ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے اپنے ایک ٹوئیٹ پیغام میں کہا ہے، ’’استحکام، جمہوریت اور ترک عوام کا تحفظ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور یکجہتی اور دانشمندی اس وقت کا اہم ترین تقاضا ہے‘‘۔

DW/Newyork Times

Comments are closed.