جنیدالدین
اسکینڈل کوئین قندیل بلوچ قتل ہو چکی ہے.اسی بات کو لے کر سوشل و الیکٹرونک میڈیا پر ہلچل مچ چکی ہے۔آزادی اظہار کے حامی افراد غیرت کے نام پر قتل کو بنیاد بنا کر سخت رد عمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور بنیاد پرست خس کم جہاں پاک کا ورد دہرا رہے ہیں۔
غرض دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی کو بنیاد بنا کر پیلی صحافت کی علمبردار ویب سائٹس اس موقع کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مناظر کو بڑھا رہے ہیں اور ترکی،جمہوریت و آمریت کا موضوع پس پشت چلا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پہ تعزیتی پیغام دینے والے تمام احباب اندر ہی اندر انجانی سی مسرت کا بھی شکار ہیں کہ کسی بھی مشہور شخصیت خاص طور پہ راتوں رات مشہور ہونے والوں سے ہمیں خدا واسطے کا بیر ڈی این اے میں عطا ہوا ہے۔
جون ایلیا نے کہا تھا کہ میں جب کسی خوبصورت عورت کو کسی مرد کیساتھ دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ میری ذاتی حق تلفی ہوئی ہے۔
ہم ہر ایسی چیز کے متعلق شد و مد سے گفتگو کرتے ہیں جس میں کہیں نہ کہیں سازش کا عنصر نکلتا ہو خواہ آزادی اظہار پہ حملہ فرض کیا گیا ہو یا انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہو اور اس سے پہلے کہ کسی حتمی نتیجہ پہ پہنچیں بات ختم کر دیتے ہیں کہ کہیں کسی واضح نتیجہ تک نہ پہنچ جائیں اور اگر ایک دفعہ پہنچ گئے تو بات کے غلط ہو جانے کی صورت میں سبکی نہ اٹھانی پڑ جائے۔یہی رویے مزید کنفیوژن کا باعث بنتے ہیں۔
قندیل بلوچ کے قتل کی بعد جو خبر سب سے پہلے سامنے آئی وہ یہ تھی کہ مرحومہ کو فائر کر کے قتل کیا گیا تھا۔
دوسری یہ کہ یہ قتل بھائی نے بوجوہ غیرت کیا ہے اور قتل کر کے فرار ہو گیا ہے۔
اس قتل میں غیرت اور آزادی اظہار کو موضوع بنا کر بہت کچھ لکھا جائے گا اور لکھا جا بھی رہا ہے مگر تصویر کا دوسرا رخ کوئی نہیں دیکھ رہا۔
ہم میں سے تقریبآ سب نے اشتیاق احمد کے ناول پڑھے اور کرائم کنٹرول اور سی آئی ڈی نامی جرائم پہ مبنی پروگرام دیکھ رکھے ہیں اور ان کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ قتل ہر گز اس کا بھائی نہیں کر سکتا اور اگر کیا بھی ہے تو غیرت کا معاملہ ہر گز نہیں ہے.کیونکہ جو ہوتا ہے وہ دکھتا نہیں اور جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں ہے۔
اشفاق احمد ایسی صورتحال کے پس منظر میں ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ انکے محلے میں ایک مکان تھا جو کہ اپنی پراسراریت کی وجہ سے کافی مشہور تھا۔اس میں اکثر بہت سے لوگ آتے بیٹھتے اور چلے جاتے۔کبھی انہیں کسی سے بات کرتے نہیں دیکھا گی،نہ ہی کسی کو انہیں استقبال کرتے اور چھوڑتے وقت ۔ایک دن بات جب حد سے بڑھ گئی تو پولیس کو اطلاع دی گئی ۔پولیس آئی دروازہ کھٹکھٹایا اور جواب نہ ملنے کی صورت میں اس کو توڑا اور اندر گھس گئے۔اندر ایک بوڑھی عورت تھی جو کہ کوڑھی تھی اور جسے علاج کے سلسلے میں گھر والوں نے یہاں ٹھہرا رکھا تھا۔
اب کے بار بھی ایسا ہی ہو رہا ہے بختاور بھٹو سے لیکر شرمین عبید چنائے اور تمام احباب ایک ہی زاویہ نگاہ سے دیکھ رہے ہیں کہ یہی سکہ رائج الوقت ہے۔
ایک دن جیو کیساتھ میں سہیل وڑائچ کے سوال کے جواب میں قندیل نے کہا تھا کہ اسکو فیملی کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔یہی بات پریس کانفرنس میں اس نے دہرائی تھی کہ اس کے خاندان کی جان کو خطرات لاحق ہیں.اپنے بھائی کے متعلق اسکا یہ کہنا کہ وہ آرمی آفیسر ہے ہر گز غیرت کے نام پہ قتل کے مصداق نہیں ٹھہرتا۔
ہاں البتہ وہ شاہد آفریدی کو شہرت کا بھوکا اور مفتی قوی کے بارے میں جنسی بھوکے کے الفاظات دہرا چکی ہے۔کیا کہیں کوئی اور تو اس کے ہتھے نہیں چڑھ گیا کہ عزت کو قندیل جیسی منہ پھٹ سے داغدار کروا کر دھونے سے اچھا ہے کہ اس کا ہی صفایا کر دیا جائے۔
دوسری بات کہ ملتان میں ہونے کے باوجود اس خبر کو قندیل بلوچ کا چھپانا جو کہ اپنی سچ گوئی کو اپنا اصلی حسن قرار دیتی تھی مزید نئے شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔
غیرت کے نام پہ قتل مشہور ہونے سے پہلے ہوتے ہیں بعد میں نہیں۔
ویسے اگر قتل کا جواز یہی ہے تو قاتل انتہائی بیوقوف تھا جو کہ پیسے اور موبائل بھی لے اڑا۔اکثر تو ایسے ہوتا ہے قاتل خود کو پولیس کے حوالے کر کے کیس کو کمزور کر دیتا ہے۔
اصل حقائق تو تفتیش کے بعد ہی سامنے آئیں گے۔