پاکستان میں جس سوال پر سب سے زیادہ بحث و مباحثہ جاری ہے وہ یہ ہے کہ ترکی میں ناکام ہونے والی فوجی بغاوت کے پاکستان پر کس قسم کے اثرات رونما ہو سکتے ہیں۔ ماہرین کی رائے میں اب جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹنا آسان نہیں رہا۔
بین الاقوامی امور کے ممتاز پاکستانی ماہر اور لاہور یونیورٹی آف مینیجمینٹ سائسز (لمز) کے شعبہ سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ترکی کی تازہ صورتحال کے پاکستان پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ ان کے بقول،’’جو لوگ جمہوریت پسند ہیں، آئین کو ایک مقدس دستاویز سمجھتے ہیں اور ملک میں سیاسی استحکام چاہتے ہیں، ان کے حوصلے بلند ہوں گے جبکہ میڈیا میں فوج کو مدعو کرنے والے یا جمہوری حکومت کے خلاف سازشیں کرنے والے لوگوں کے حوصلے پست ہوں گے‘‘۔
ان کے بقول میڈیا بار بار ترکی کے واقعات دکھا کر عوام کو جو آگاہی فراہم کر رہا ہے اس کے پیش نظر یہ کہنا درست ہو گا کہ پاکستان میں اب جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹنا مزید مشکل ہو گیا ہے۔اس سوال کے جواب میں کہ کیا پاکستانی عوام کی طرف سے کسی غیر جمہوری اقدام کی صورت میں ترکی کے عوام جیسی مزاحمت دیکھنے کو ملے گی۔
ڈاکٹر رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ اس بات کا حتمی اندازہ لگانا آسان نہیں ہے لیکن ان کے بقول یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ مزاحمت ضرور ہو گی اور بڑے شہروں میں اس کی شدت زیادہ ہو گی۔ ماضی میں ایک ٹی وی پر قبضہ کر کے کام چل جایا کرتا تھا اب اتنے سارے نجی ٹی وی چینلز کو اعتماد میں لے کر اگر کوئی منصوبہ بنایا گیا تو وہ خفیہ نہیں رہ سکے گا۔
اسی طرح سوشل میڈیا کی دنیا، سیل فون اور بین الاقوامی سطح پر کمیونیکیشن سسٹم میں ہونے والی ترقی کی وجہ سے اب جمہوری حکومتوں کے تختے الٹنا آسان نہیں رہا ہے۔ تاہم ڈاکٹر رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ پاکستان کی جمہوری حکومت کے خلاف کسی بغاوت کی صورت میں مختلف علاقوں میں مختلف رد عمل سامنے آ سکتا ہے۔ غیر جمہوری اقتدار میں حصہ پانے کے خواہشمند، مفاد پرست اور موقع پرست عناصر مٹھائیاں بھی بانٹ سکتے ہیں۔ لیکن سارے پاکستان میں ردعمل ایک طرح کا نہیں ہو گا۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا عالمی دنیا نے جس طرح ترکی کی جمہوری حکومت کی حمایت کی ہے، کیا کسی غیر جمہوری اقدام کی صورت میں عالمی دنیا پاکستان کی جمہوری حکومت کو بھی ایسی سپورٹ فراہم کرے گی؟ ڈاکٹر رئیس کہتے ہیں کہ عالمی دنیا جمہوری حکومت کو سپورٹ کرے گی “جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ صدر مشرف کو بھی غیر جمہوری اقدام کے بعد ڈیڑھ سال تک آئسو لیشن میں رہنا پڑا۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے اپنے دورہ پاکستان میں ان کے ساتھ تصویر بنوانا بھی پسند نہ کیا۔ اس لیے توقع ہے کہ امریکا اور مغربی حکومتیں جمہوری حکومت کا ساتھ دیں گی“۔
کیا پاکستان کی منتخب جمہوری حکومت کو بدعنوانی یا بد انتظامی کی وجہ سے حکمرانی کے حق سے محروم کیا جا سکتا ہے؟ ڈاکٹر رئیس اس سوال کا جواب ناں میں دیتے ہیں۔ ان کے بقول غیر جمہوری حکمرانوں کے ادوار میں بھی کافی بدعنوانی کی گئی ہے۔ مشرف دور میں لوگوں کی بڑی تعداد نے کرپشن کر کے ناجائز اثاثے بنائے۔ خود صدر پرویز مشرف اور شوکت عزیز کی آمدنی کے گوشوارے بھی ‘قابلِ دید‘ ہیں۔ ڈاکٹر رئیس سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کا کوئی امکان نہیں ہے لیکن اقتدار کے حصول کے لیے کام کرنے والے مفاد پرست لوگ حکومت پر دباؤ بڑھاتے رہیں گے۔
دوسری طرف بین الاقوامی تعلقات کے ایک اور ماہر پروفیسر ڈاکٹر سید حسین شہید سہروردی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ پاکستان میں کسی غیر جمہوری اقدام کے بعد ملکی عوام اس طرح سڑکوں پر نکلیں جس طرح ترکی میں لوگ نکلے ہیں۔ ان کے بقول ترکی میں لوگ اس لیے سڑکوں پر آئے تھے کہ وہ طیب ایردوآن کی گڈ گورننس سے مطمئن تھے۔ ترک حکمرانوں کی جڑیں عوام میں تھیں اور ترک حکمرانوں اور عوام میں کوئی فاصلہ موجود نہیں تھا۔
لیکن پاکستان میں صورتحال بہت مختلف ہے۔ یہاں الیکشن کے وعدے وفا نہیں ہوئے، وفاقی اور صوبائی حکومتیں اسکینڈلز کی زد میں ہیں، پولیس کا رویہ بھی عوام کے ساتھ بہتر نہیں ہے اور عوام اور حکومت میں کافی دوری پائی جاتی ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت اپنی پچھلے سالوں کی مقبولیت برقرار نہیں رکھ پائی ہے اس لیے ترکی کے مناظر پاکستان کی سڑکوں پر نظر آنے کی توقع کرنا درست نہیں ہے۔
ڈاکٹر حسین شہید سہروردی اس بات سے اتفاق نہیں کر تے کہ عالمی طاقتیں کسی غیر جمہوری اقدام کی صورت میں پاکستان کی جمہوری حکومت کا ساتھ دیں گی۔ ان کے خیال میں عالمی طاقتیں پاکستان کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے یہ دیکھیں گی کہ پاکستان کی غیر جمہوری حکومت اس خطے میں عالمی طاقتوں کے مقاصد کے حصول کے لیے کتنی معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ ان کے خیال میں پاکستان میں پرویز مشرف اور مصر میں جنرل السیسی کی حکومتوں کے ساتھ عالمی طاقتوں کا رویہ سب کے سامنے ہے۔
ڈاکٹر سہروردی کا خیال ہے کہ پاکستان میں جوڈیشل ایکٹوازم اور آزاد میڈیا کی موجودگی میں فوجی بغاوت کا کوئی امکان نہیں ہے لیکن حکومتی پالیسیوں پر بڑھتا ہوا عدم اطمینان اور اپوزیشن کی احتجاجی تحریک اگرعوام کی بہت بڑی تعداد کو سڑکوں پر لے آئی تو پھر پسِ پردہ طاقتوں کے لیے ٹینوکریٹس کی ایک عبوری حکومت کا قیام ممکن ہوسکتا ہے۔ ان کی رائے میں اس حوالے سے اگلے چار مہینے کافی اہمیت کے حامل ہیں۔
ڈاکٹر سید حسین شہید سہروردی سے جب یہ پوچھا گیا کہ ترکی کی ناکام بغاوت سے پاکستان کیا سبق سیکھ سکتا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ پہلا سبق تو یہی ہے کہ غیر جمہوری اقدام کرنے کی خواہش مند قووتوں کو اب کسی غیر جمہوری اقدام کرنے سے پہلے کئی بار سوچنا پڑے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے اپنی ساکھ اور مقبولیت کو بہتر بنانا ہو گا۔ ان کے خیال میں ٹی وی پر ٹینکوں پر چڑھے ہوئے لوگوں اور ترک فوجیوں کی گرفتاری کے مناظر کا بار بار چلنا عوامی رائے عامہ پر جو اثرات مرتب کر تا جا رہا ہے اس کے نتیجے میں جمہوری حکومت کو فائدہ ہو رہا ہے اور غیر جمہوری اقدام کے امکانات مزید کم ہو رہے ہیں۔
DW