آصف جاوید
سوشل میڈیا پر اپنی ویڈیوز سے شہرت پانے والی پاکستانی ماڈل قندیل بلوچ کو کل ملتان میں ان کے گھر میں قتل کر دیا گیا ہے۔ قندیل کی موت دم گھٹنے سے ہوئی اور ان کے گلے پر تشدد کے نشانات بھی ہیں۔ قندیل کے قتل پر ان کے والد کی مدّعیت میں مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ والد نےالزام لگایا ہے کہ قندیل کو اُس کے بھائی وسیم نے اپنے بڑے بھائی اسلم شاہین جو فوج میں نائب صوبیدار ہے کے کہنے پر قتل کیا ہے۔ والد نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ قندیل کے بھائی کی، اپنی بہن سے کوئی ناراضگی یا دشمنی نہیں تھی۔ جس سے واضح ہوتا ہےکہ قندیل بلوچ کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا ہے۔
اپنے قارئین کو بتاتے چلیں کہ قندیل بلوچ کی جانب سے چند روز قبل وفاقی اور صوبائی وزارتِ داخلہ کے حکام کو درخواست دی گئی تھی کہ اس کی جان کو خطرہ ہے اور انھیں سکیورٹی فراہم کی جائے۔ تاہم اس درخواست پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی تھی۔
قندیل بلوچ اپنے معاشرے کی باغی تھی۔ وہ ایک آزاد خیال اور بے باک زندگی گزارنے کی متمنّی خاتون تھی۔ قندیل نے پاکستان کے رجعت پسند معاشرے سے کھل کر بغاوت کی، اور سماج کے ٹھیکیداروں کو اپنا دشمن بنالیا۔ قندیل بلوچ بلا کی ذہین اور سمجھدار خاتون تھیں۔ قندیل نے سوشل میڈیا کو اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا تھا۔
اداکاری اور چہرے سے دئیے گئے تاثّرات کی ادائیگی کے حوالے سے قندیل بلوچ ایک کمزور ٹیلینٹ کی خاتون تھی، جس کااس کو بخوبی اندازہ تھا۔ اس کا کوئی گانا مشہور نہیں ہوا، نہ ان کے کریڈٹ پر کوئی مشہور ڈرامے ہیں، نہ فلموں میں کوئی اداکاری ہے، نہ ہی وہ کوئی نامور ماڈل بن سکیں، مگر پھر بھی وہ مشہور ہوگئیں، اسے شہرت حاصل کرنے اور خبروں میں رہنے کا فن آتا تھا۔ وہ اظہار کے معاملے میں کسی مصلحت کو خاطر میں نہیں لاتی تھی، اور بے خوف ہوکر اپنے احساسات اور جذبات کا اظہار کرتی تھی۔ وہ اظہارِ رائے کی آزادی کی عمل پرست خاتون تھی۔
وہ پاکستانی سوشل میڈیا کی سپر سٹار بن گئی تھی اور فیس بک پر انھیں فالو کرنے والوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ تھی۔ قندیل کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا ہے کہ وہ ان دس اہم شخصیات میں شامل تھی جن کو پاکستان میں گوگل پر سب سے زیادہ تلاش جاتا ہے۔ گو کہ انڈیا کی سپر ہیروئن سنی لیون کی وجہ شہرت تو کچھ اور ہی ہے، مگر پھر بھی کچھ منچلے انہیں پاکستان کی سنی لیون بھی کہتے تھے۔ پچھلے دنوں وہ تواتر کے ساتھ خبروں میں رہی۔
حالیہ دنوں قندیل بلوچ کی ایک نئی البم بھی میڈیا پر آئی تھی جس میں اس نے ایک گانے کی تھیم پر بڑی بے باکی سے اپنے خوبصورت جسم کی نمائش کی تھی، اپنی اس پرفارمنس پر وہ ایک بار پھر شدید تنقید کی زد میں تھی۔اس سے قبل ماہِ رمضان میں اس کی رویت ہلال کمیٹی کے ایک رکن مفتی عبدالقوی کے ساتھ ’سیلفیز‘ بھی منظرِ عام پر آئی تھیں ، جس کے نتیجے میں مفتی عبدالقوی کو کمیٹی کی رکنیت سے بھی خارج کر دیا گیا تھا۔
قندیل بلوچ اپنی بے باکی کے سبب ہمیشہ تنقید کی زد میں رہی، انہیں پاکستان کے قدامت پرست طبقے اور مذہب کے ٹھیکیداروں کی طرف سے شدید تنقید اور ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ میڈیا کو دئے گئے ایک انٹرویو میں قندیل بلوچ نے واضح کیا تھا کہ وہ اب قدامت پرست ذہنیت کے کنٹرول سے بہت دور نکل چکی ہیں(اس نے ہاتھ سے نکل چکی ہیں کا لفظ استعمال کیا تھا)۔ اس کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ لوگ اس کے بارے کیا کہتے ہیں، وہ اپنی آزادی کا خوب فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ اس نے اعتراف کیا تھا کہ “میرے والدین نے مجھے آزادی دی اور میں مانتی ہوں کہ میں نے اس کا ناجائز استعمال کیا ہے ، لیکن اب میں ہاتھوں سے نکل چکی ہوں“۔
قندیل بلوچ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تضادات کا شکار تھیں، اپنے فیس بک پیج پر لگائے گئے ویڈیوز میں وہ کبھی گانا گاتی تھیں ، کبھی کرکٹ ورلڈ کپ میں پاکستان کی جیت کے لیے بے لباس ہونے کا اعلان کرتی تھی، کبھی تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان سے شادی کرنے کا اعلان کرتی تھیں ۔ وہ بھارت میں بھی تب جانی گئی جب اس نے بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کی توہین کی۔ وہ مخالفانہ فضاء پیدا کرکے شہرت حاصل کرنے کا ہنر خوب جانتی تھی۔ وہ خود کہتی تھی کہ آج کل کے دور میں ٹی وی اور فلم سے زیادہ بڑا پلیٹ فارم سوشل میڈیا ہے۔ بس سوشل میڈیا پر اپنے آپ کو منوانے کا فن آنا چاہئے۔
وہ بے باک اور خود سر ضرور تھیں مگر بدکردار نہیں تھیں، انہیں اپنی عزّتِ نفس اور اپنی عصمت کی حفاظت کا گہرا احساس تھا۔ میڈیا کو دئے گئے اپنے ایک اور انٹرویو میں اس نے انکشاف کیا تھا کہ ” کہ اس نے ابتدا میں شو بز میں جانے کی کوشش کی تھی، لیکن وہاں جگہ بنانے کے لئے لڑکیوں کو اپنے جسم کی رشوت پیش کرنی ہوتی ہے، لڑکیوں کا جنسی استحصال ہوتا ہے، شو بزکے اس چلن سے مایوس ہو کر قندیل نے سوشل میڈیا کا انتخاب کیا تھا۔ اپنے اوپر ہونے والی تنقید اور پاکستانی معاشرے کی منافقت کا پردہ چاک کرتے ہوئے اس نے کہا تھا کہ
غیرت مندو،دیکھتے بھی ہو، مذاق بھی اڑاتے ہو، برا بھلا بھی کہتے ہو۔ تو پھر دیکھتے کیوں ہو؟
♥