کشمیر پر جو بیت رہا ہے، بہت افسوس ناک ہے۔مگر اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ایسا نہ پہلی بار ہو رہا ہے، اور نہ آخری بار۔یہ سلسلہ ایک مدت سے جاری ہے۔آثار بتاتے ہیں کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔دور تک صرف اندھیراہے، اور روشنی کی کوئی کرن نہیں۔کشمیری اپنے رہنماؤں کی غلطیوں سے ایک خوفناک دلدل میں پھنس چکے ہیں۔وہ اس سے نکلنے کے لیے جس قوت سے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں، اسی قوت سے دلدل ان کو اپنی طرف کھنچتی ہے۔
اس دلدل کو برقرار رکھنے کے ذمہ دار پاکستان اور بھارت کو بھی ٹھہرایا جا سکتا ہے، مگر یہ دلدل پیدا کرنے کی بنیادی اور بڑی ذمہ داری تو خود کشمیریوں کو ہی قبول کرنی پڑے گی کہ پاکستان اور آزاد ہندوستان کے وجود سے پہلے ہی اس دلدل کی بنیادیں پڑ چکی تھیں۔سو برس تک کشمیریوں نے ڈوگرا راج گوارا کیا۔اکا دکا واقعات کے علاوہ کوئی بڑی بغاوت ہوئی ، نہ کوئی قابل ذکر مزاحمت۔
تاریخ کے انتہائی نازک موڑ پر جب قومی اتحاد وقت کی سب سے بڑی ضرروت تھی تب کشمیریوں کو دنیا کی ہر خرابی ڈوگرا راج میں نظر آنے لگی۔یہاں تک کہ شیخ محمد عبداللہ جیسا دانشمند رہنما بھی جذبات کی رو میں بہہ گیا۔متحدہ ریاست کی ساری تاریخ کے اس مقبول ترین لیڈر نے کشمیر چھوڑدو تحریک کا اعلان کر کے ریاست کے اندر قومی اتحاد یا اتفاق رائے کے تصوارات کو شدید نقصان پہنچایا۔یہ سوال اس وقت غیر ضروری اور بے وقت تھا کہ مہاراجہ ہری سنگھ اچھا حکمران تھا یا برا۔یہ سوال بعد میں اٹھایا جا سکتا تھا۔
اس وقت اہم ترین سوال ریاست جموں کشمیر کے مستقبل کا تھا۔ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے ریاست کے ہر فرد،ہر پارٹی، ہر مذہبی گروہ کی رائے اہم اور ضروری تھی۔ڈوگرے دھرتی کے بیٹے تھے۔انہوں نے سو برس تک اس ریاست پر حکومت کی تھی۔ریاست کے مستقبل کے سوال پر ان کو اعتماد میں لیے بغیر جو بھی فیصلہ ہوتا اسے قومی اتفاق رائے نہیں کہا جا سکتا تھا۔چنانچہ کشمیر چھوڑ دو تحریک نے ریاست کے اندر مذہبی عدم رواداری اور بلاخر تشدد کے رحجانات کو فروغ دیا۔
جب برصغیر تقسیم ہو رہا تھا اس وقت کشمیری لیڈر جیلوں میں اور مہاراجہ ہری سنگھ قلعہ بند تھا۔حالانکہ ہونا بالکل اس کے بر عکس چاہیے تھا۔ریاست کے مستقبل کے سوال پر مہاراجہ ہری سنگھ اور ریاستی لیڈروں کے درمیان اتفاق رائے واحد قابل عمل اور با عزت راستہ تھا۔یہ اتفاق رائے ہو نہ سکا جس کے بنیادی ذمہ دار مہاراجہ ہری سنگھ، شیخ محمد عبداللہ اور چوہدری غلام عباس ہیں۔
یہ ان تین لوگوں کی ناکامی تھی کہ ریاست کے اندر اختلاف رائے ایک شدید دشمنی میں ڈھل گیا۔جس کی وجہ سے پاکستان سے قبائلی مداخلت اور ہندوستان سے فوج کشی کے لیے راہ ہموار ہوئی۔کشمیر کی بندر بانٹ ہوئی۔اور اس طرح یہاں ایک ایسی دلدل پیدا ہوئی جس سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا۔تب جو کچھ کشمیر میں ہوا تھا اس سے پاکستان اور بھارت کے حکمرانوں کو بری الذمہ نہیں قرار دیا جا سکتا، اور نہ ہی اب جو کچھ ہو رہا ہے اس سے وہ بری الذمہ ہیں۔
لیکن اس سارے قضیے کے بنیادی ذمہ دار تو آخر کار خود کشمیری لیڈر ہیں۔ یہی بات آج ان واقعات پر بھی صادق آتی ہے جو سری نگر کی سڑکوں پر رونما ہو رہے ہیں۔اپنی زندگی کے سب سے اہم اور بنیادی سوال یعنی اپنے مستقبل کے سوال پر بھی کشمیریوں کے اندر کوئی اتفاق رائے نہیں ہے۔پاور پالیٹکس میں مصروف سیاسی جماعتوں کا کوئی نظریہ یا سمت نہیں ہے۔یہ لوگ اقتدار کی باری لگانے کے لیے کسی حد تک بھی چلے جاتے ہیں۔
ان میں سے جس کی باری آتی ہے اسے ہر چیز بالکل ٹھیک لگنے لگتی ہے۔اپنے اقتدار کے دوران ان کو نہ تو کوئی انسانی حقوق کا کوئی مسئلہ نظر آتا ہے اور نہ ہی شہری آزادیوں کا کوئی سوال ۔نہ ان کو بھارتی فوج ناگوار گزرتی ہے نہ اپنی پولیس کا تشدد۔ اس کے بر عکس اپنے حقوق کی بات کرنے والا ہر کشمیری ان کو تخریب کار یا شر پسند لگنے لگتا ہے۔یہ سلسلہ یہاں ایک مدت سے جاری ہے۔
چنانچہ اب ان لوگوں کے مفادات موجودہ سٹیٹس کو سے جڑ چکے ہیں۔اب مسئلہ کشمیر ان لوگوں کے لیے بزنس بن چکا ہے۔ اس کے نام پر کچھ لیڈر اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں،کچھ پیسے بٹورتے ہیں۔کوئی جہاد کے نام پر کاروبار میں لگا ہوا ہے، کوئی لاشوں کی سیاست میں۔ کوئی انسانی حقوق کے نام پر اور کوئی امن کے نعرے پر مال بنا رہا ہے۔۔۔
چنانچہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے اس میں تبدیلی کے دور دور تک کوئی آثار نہیں ہیں۔ اور یہ تبدیلی اس وقت نہیں آ سکتی جب تک کشمیری عوام اس بات کا احساس نہیں کرتے کہ ان کے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے اور اس کا اصل ذمہ دار کون ہے۔
♠