پیشہ ورانہ عقل اور چالاکی

qazi-310x387فرحت قاضی

پیشے اور عقل کاچولی دامن کا رشتہ ہوتا ہے ایک پیشہ یا روزگار سیدھاسادا یا پھر پیچیدہ ہوتا ہے تو اسی حساب سے اس انسان کی ذہنی اڑان بھی ہوتی ہے کھیتی باڑی ایک پیشہ ہے یہ سیدھا سادا محنت کاکام ہوتا ہے اس میں ایک کسان کھیتوں میں ہل چلاتا ،بیچ بوتا ان کو وقتاً فوقتاً پانی دیتا اور فصل پکنے پر کٹائی کرتا ہے اس میں ذہن سے زیادہ ہاتھوں اور پیروں سے کام لیا جاتا ہے چنانچہ اس کے بازو اور ٹانگیں بلکہ پورا جسم تکڑا ہوجاتا ہے سر بھی بڑا اور موٹا ہوجاتا ہے مگر دماغ سیدھا سادا اور سپاٹ رہ جاتا ہے کھیتی باڑی کا کام سیکھنا بھی آسان اور سہل ہوتا ہے بیٹا باپ اور چھوٹا بھائی بڑے بھائیوں کو دیکھ دیکھ کر بالآخر یہ تمام مراحل سیکھ لیتا ہے۔ 

تجارت اوردکانداری کھیتی باڑی سے قدرے مختلف پیشہ ہوتا ہے ایک دکاندار بڑی مارکیٹ سے اشیاء سستے داموں خرید کر پھر اسے چھوٹے شہر اور گاؤں میں مہنگا فروخت کرتا ہے چنانچہ جب وہ تھوک بازار میں تاجر سے کچھ خریدتا ہے تو اسے ہاتھوں میں الٹتے پلٹتے ہوئے ایک ایک کرکے کئی خامیاں نکالتا اوراسے بتاتا جاتا ہے تاکہ اسے ارزاں قیمت پر خرید سکے لیکن جب اسی چیز کو وہ اپنے گاہک پر بیچتا ہے توپھر اس کی فقط خوبیاں ہی سامنے لاتا اور گناتا ہے اور اسے اس چیز کا احساس اور یقین دلاتاہے کہ وہ کم قیمت دے کر ایک اعلیٰ اور معیاری چیز خرید رہا ہے اور یہ کسی طور بھی گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔

گاہک کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے یوں تو ہر پیشہ میں پیشہ ور کو اپنے آپ کو دیانت دار ثابت کرنا ہوتا ہے تاہم دکاندار اس معاملہ میں کچھ زیادہ ہی حساس واقع ہوتا ہے تاکہ اس سے زیادہ سے زیادہ مال خریدا جائے یہی سبب ہے کہ آپ کو قریب قریب ہر دکاندار حاجی اور داڑھی والا نظر آئے گا وہ بات بات پر مذہب کا حوالہ اور اخلاقیات کا مظاہرہ کرتا ہوا ملے گا جبکہ کبھی کبھار یہ اخلاق کم اور اداکاری زیادہ ہوتی ہے اور یہ سب کچھ اس کے پیشے کا تقاضہ ہوتا ہے ۔

پولیس کی ملازمت ایک اہلکار کو رفتہ رفتہ شکی مزاج بنادیتی ہے اس کے تھانے کی حدود میں قتل ہوتا ہے تفتیش ہوتی ہے پتہ چلتا ہے کہ قاتل بیٹا یا بھائی ہے تو رشتوں کے تقدس پر اس کا اعتماد متزلزل ہوجاتا ہے چنانچہ وہ ہر ایک کو شک کی نظر سے دیکھنے لگتا ہے اور یہ اس کی نفسیات کا ایک اٹوٹ حصہ بن جاتا ہے حتیٰ کہ وہ دوست ،احباب اور رشتہ داروں سمیت ہر رشتہ و تعلق کو بھی مشکوک سمجھتا ہے اسی طرح جب وہ کسی کو روکتا ہے اس کی تلاشی لیتا ہے تواختیارات کا احساس اسے رعب داب ڈالنا سکھا دیتا ہے پیشہ ورانہ خدمات کے دوران اسے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ جس کے کندھوں پر چادر اور سرپر ٹوپی ہوتی ہے وہ دیہاتی اور ان پڑھ ہے۔ اس لئے اس کی جامہ تلاشی باآسانی لی جاسکتی ہے۔

ایک گرگٹ جس طرح رنگ بدلتا ہے اسی طرح ایک پولیس اہلکار آبادی اور اس کے رہائشیوں کا طرز رہائش ، لباس اور انداز گفتگودیکھ کر اپنا رویہ بدلتا رہتا ہے رویوں کی یہ تبدیلی یا سمجھ بوجھ کایہ احساس دراصل اس کو اس کا پیشہ سکھا دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ پسماندہ علاقوں اور ناخواندہ لوگوں میں رہ کر وہ ہر ایک کی جیب میں ہاتھ ڈالکر اس کی جامہ تلاشی لیتا ہے لیکن مہذب اور پوش علاقوں میں اس کا رویہ اس کے برعکس ہوتا ہے وہاں وہ بڑے ادب اور سلیقے سے بات چیت کرتا ہے۔

ایک کسٹم اہلکار بس میں داخل ہوتا ہے چالیس اور پچاس مسافروں میں سے صرف ایک یا دو کو کھڑا کرکے تلاشی لیتا یا بس سے اتارتا ہے اس کا اسی فی صد اندازہ صحیح نکلتا ہے کیونکہ اسے اپنی ملازمت کے دوران تجربہ ہوجاتا ہے کہ ایک شخص کوئی جرم کرتا ہے تواس کی حرکات وسکنات اور لب و لہجہ عام شہریوں سے مختلف ہوتا ہے وہ جان لیتا ہے کہ مجرم اپنے سائے سے بھی ڈرتا ہے۔

پیشہ ہر انسان کو اپنی مناسبت اورلوازمات سے آگاہ کرنے کاباعث بنتا ہے وکالت کا پیشہ وکیل کو باتونی اور چالاک بنا دیتا ہے ایک وکیل اپنے ہم پیشہ افراد سے یہ سیکھ لیتا ہے کہ بالاخانہ میں الماری اور اس میں قانون پر لکھی گئی بے شمار کتابوں کا ایک موکل پر کیا نفسیاتی اثرہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کو انگریزی یا پھر اس زبان کے چند فقرے ضرور آنے چاہئیں ایک وکیل کے پاس جج سے پہلے موکل کو پھنسانے کے لئے چینی چپٹی اور اسے قائل کردینے والے دلائل کی مہارت بھی ہونی چاہئے وہ اپنے موکل کو یقین دلاتا ہے کہ اس کے مقدمہ میں ایک ایسا نقطہ ہے جس سے وہ حریف کو چت کرسکتا ہے۔

پیر اور توہمات کے ذریعے پیسہ کمانے والے جانتے ہیں کہ معاشرے میں ہر طبقہ اور ہر علاقے کے باسیوں کی الگ الگ نفسیات ہوتی ہے وہ لوگوں کی عقلی سطح سے واقف ہوتے ہیں ایک نجومی آدمی کے لباس اور حلیہ کو دیکھ کر یہ جان لیتا ہے کہ اس کا کیا مسئلہ ہے کیونکہ آدمی کا چہرہ اس کی عمر اور ظاہری وضع قطع اس کے علاقے اور معاشی پوزیشن کی غمازی کرتے ہیں کہ وہ دیہاتی یا شہری ہے وہ ان پڑھ یا لکھا پڑھا ہے وہ امیر یا غریب ہے۔ سووہ ایک ڈاکٹر کی طرح اپنے گاہک کے سامنے نسخہ رکھتا ہے اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حاجت مند شخص اگر مریض ہے تو صرف اسی کے پاس نہیں آیا اور وہ بے روزگار ہے تو اس کے پاس ہی نہیں آیا ہے بیماری کی صورت میں وہ ڈاکٹر کے پاس بھی جاتا ہوگا اور بے روزگار ہے تو ادھر ادھر دوڑ دھوپ بھی کرتا ہوگا البتہ جب مریض کی طبیعت دوا سے سنبھل جاتی ہے اور بے روزگار کو روزگار مل جاتا ہے تو وہ کمال ہوشیاری سے اسے اپنے علم اور عمل کا ثمر کہہ کر اس کا تمام سہرا اپنے سر باندھ لیتاہے ۔ضعیف الاعتقاد شہری تو اس سے انکار کر ہی نہیں سکتا بلکہ وہ اس کے کاروبار کا اشتہار بن جاتا ہے حالانکہ یہی پیر خود بیمار پڑجاتا ہے تو دوسرے شہر جاکر ڈاکٹر سے علاج کرواتا ہے۔

پیروں اور تعویز گنڈوں کے کاروبار سے وابستہ افراد کے کام سے کئی دیگر افراد کو بھی فائدہ پہنچتا ہے اس لئے اس پیشے نے بعض علاقوں میں باقاعدہ کاروبار کی صورت اختیار کرلی ہے ایک علاقہ میں ایک پیر ہے لوگ اس سے تعویز بنوانے آتے ہیں تو اس سے تانگے بان اور رکشا ڈرائیور کو بھی فائدہ پہنچتا ہے ساتھ ہی ساتھ کباب،پھول اور تسبیح فروشوں کی اشیاء بھی فروخت ہوجاتی ہیں چنانچہ پھر وہ پیر کے حوالے سے محیرالعقل واقعات اور معجزات مشہور کردیتے ہیں گو کہ لوگ جاتے تو پیر سے تعویز لینے کے لئے ہیں لیکن ساتھ ہی ان افراد کا کاروبار بھی عوام کی آمد و رفت سے چمک اٹھتا ہے اب جبکہ تعلیم عام ہورہی ہے عام شہری کی ذہنی سطح بھی بلند ہورہی ہے اس لئے صرف مردہ پیر اور ان کی کرامات ہی رہ گئی ہیں چنانچہ ان مرحومین کے کارنامے بیان کرکے پیسہ کمایا جارہا ہے۔

ایک پیر اپنی شکست کو اپنے پیشے کی موت سمجھتا ہے اس لئے اگر کسی کا اس کے مشورے اور تعویز سے بھلا نہیں ہوتا تو اس کا ذمہ اپنے سر نہیں لیتا ہے بلکہ وہ اس شخص کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہتا ہے کہ اس کے مشورے پر خلوص نیت سے عمل نہیں کیا گیا توہمات کے بیوپاری عوام کو کبھی بھی حقیقت تک پہنچنے نہیں دیتے وہ ہر واقعہ کو غیر مرئی قوتوں کا کارنامہ گردانتے ہیں جن دیہات میں تاحال علم کی روشنی نہیں پہنچی ہوتی ہے وہا ں پر ان کا پیشہ خوب چلتا ہے کیونکہ یہ لوگ اپنے پیشے کو فروغ دینے کے لئے بیماری کو جن بھوت سے منسوب کردیتے ہیں اور یہ احساس دلاتے رہتے ہیں کہ یہ کسی ڈاکٹر اور طیبب کے بس کی بات نہیں اس کا علاج فقط ان ہی کے پاس ہے یہی جن بھوت کونکالنے کا طریقہ جانتے ہیں جب کسی شخص سے زیادہ پیسہ لینا مقصود ہو تو اسے کہتے ہیں کہ مریض ہندو جن کے زیر اثرہے اور زیادہ محنت کی ضرورت ہوگی تاکہ زیادہ ریاضت اور کوشش کا کہہ کر زیادہ پیسے وصول کرسکیں ۔

جس آبادی کے باسی واقعات کے باہمی تعلق اور رشتہ سے نابلد ہوتے ہیں فطرت کے قوانین کی جانکاری نہیں رکھتے ہیں انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا ہے کہ سورج اور چاند گرہن کیوں ہوتا ہے زلزلہ کیسے آتا ہے شدید گرمی سے نمی اڑ جاتی ہے اور اس سے پیدا ہونے والے خلاء کو پر کرنے کے لئے ادھر ادھر سے ہوائیں اور بادل آتے ہیں تو طوفانی اور تند و تیز ہوائیں چلتی ہیں تو وہ اسے غیر مرئی قوتوں کا کام سمجھ لیتے ہیں اور اپنے اعمال سے باندھ لیتے ہیں اسی طرح اگر وہ بیماریوں کے بارے میں علم نہیں رکھتے ہیں تو ذہنی عوارض کو جنوں اور بھوتوں سے منسوب کردیتے ہیں جبکہ پیر اور نجومی ان کی اس سادہ لوحی سے اپنی تجوریاں بھرتے رہتے ہیں۔

ہم جس معاشرے میں رہتے اور روزگار کرتے ہیں اس میں ایک انسان اپنی مطلب براری کے لئے دوسروں کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتا ہے چنانچہ ایک پیشہ سے منسلک انسان کو اپنے پیشے اور موقعہ کی مناسبت سے فائدہ اٹھانے کی لالچ ہوتی ہے ہر ایک اس تگ و دو میں رہتاہے کہ اس کا جو پیشہ ہے اس میں زیادہ سے زیادہ مہارت حاصل کرکے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاسکے اپنے مفادات کے حصول کے لئے وہ اپنے ذہن کو نت نئے طریقوں سے بھرتا رہتاہے یوں وہ روز بروز عقل مندی اور ہوشیاری کی منازل طے کرتا رہتا ہے اسی لئے وہ اپنے تئیں عقل مند بھی سمجھتا ہے۔

ہم اس صورت حال کو پیش نظر رکھ کر یہ تیقن کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ پیشہ عقل کے لئے بنیاد کا کام دیتا ہے البتہ یہ عقل یا چالاکی عموماً اپنے پیشہ تک محدود ہوتی ہے ایک کاشتکار اس حد تک تو عقل مند ہے کہ اسے موسموں کے تغیر و تبدل اور ہر قسم کے بیجوں کے بارے میں جانکاری ہوتی ہے اسے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کھیتوں میں کب ہل چلانا چاہئے کس وقت پانی دینے کی ضرورت ہوتی ہے اور کون سا درخت کتنے عرصہ کے بعد پھل دینے لگتا ہے۔مگر وہ یہ جانکاری نہیں رکھتا ہے کہ دیہاتوں میں گردش کرنے والی رسموں،رواجوں،سماجی اور اخلاقی قدروں اورادب واحترام کے پیداکردہ ماحول سے جاگیردار کومالی فائدہ اور جانی تحفظ فراہم کیا گیاہے 

اسی طرح وہ یہ بھی نہیں جانتا ہے کہ ملکی قوانین کے ذریعہ محنت کش طبقہ کے ہاتھ پیر باندھے جاتے ہیں اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ قانون کی نظر میں سب شہری برابر ہیں لیکن اس سب کے باوجود وہ یہ نہیں جانتا کہ بالآخر زندان غریبوں سے بھرے ہوئے کیوں ہیں چونکہ یہ اس کاکام اور پیشہ نہیں ہے اس کی عقل اور فہم کے دائرے میں صرف ہل اور بیل ہی آئے ہوتے ہیں محنت ومشقت ہی اس کا مقدر ٹھہرا ہوا ہوتا ہے خان خوانین کی فرمانبرداری ہی اس کا نصیب بنا ہوتا ہے اس لئے اس سے آگے اس کی سوچ کا دائرہ بند ہوجاتا ہے اسی طرح وہ قانون فطرت کو بھی نہیں سمجھتا چنانچہ بارش کے لئے زیارتوں پر نذرانے دیتا ہے اور مصائب کو ٹالنے کے لئے کالے بکرے پر چھری پھرواتا ہے وہ زیارتوں پر جاتا ہے اور پیروں کو تعویزوں کے لئے پیسہ دیتا ہے محض اس لئے کہ اس کی دیہاتی ذہنیت پیر کے طریقے جاننے سے قاصر ہوتی ہے۔

اس حوالے سے ایک قصہ ہے کہ ایک علاقے میں پیر خاندان تھا بڑی سڑک سے پیر گاہ تک کا فاصلہ لوگ تانگوں کے ذریعے طے کرتے تھے اکثر تانگے بان پیر کے کارندے تھے جو مسافروں اور سائیلان کو پیر خانے تک پہنچاتے تھے اس لئے وہ بڑی ہوشیاری سے باتوں ہی باتوں میں ان سے ان کی ضروریات اور خواہشات معلوم کرکے چھپ کے سے ان کی خبر پیر کو دیتے تھے جس وقت حاجت مند پیر کے سامنے جاتا تو پیر دور سے ہی آواز دیدیتا
’’
فکر مت کرو تمہارا مسئلہ حل ہوجائے گاتمہاری نرینہ اولاد نہیں ہے یہی ہے نا تمہارا مسئلہ،،

یہ سنتے ہی وہ عورت یا مرد پیر کے پیروں میں گر جاتا اور دل ہی دل میں سوچتاکہ یہ پہنچا ہوا اور ولی اللہ ہے دلوں کا حال جانتا ہے اور اس کے پاس غائب کا علم بھی ہے اگر سادہ لوح دیہاتی یہ جانتا کہ جس طرح وہ کاشتکاری اور زراعت کے بارے میں معلومات رکھتا ہے اس طرح پیر کو بھی یہ چالاکی اپنے پیشے کے سبب ملی ہے تو اس کے دل میں پیر اور نجومی کے لئے عقیدت کے جذبات کبھی پیدا نہ ہوتے اور نہ ہی ان کے دھوکے میں آتا ۔

دیہاتی سپاہی اور سپاہی ڈاکٹر اور ڈاکٹر وکیل سے دھوکہ کھا جاتا ہے ایک پیشے والا دوسرے پیشے والے کے دامِ فریب میں آجاتاہے تو وہ اس لئے کہ ہر پیشے کی اپنی حدودہوتی ہیں۔

پولیس کا ایک سپاہی اپنی عقل و دانش اور ہوشیاری سے مجرم پکڑ لیتا ہے تاجر اپنے کاروبار کو کامیاب بنانے کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈوں سے گاہک کو اپنی طرف مبذول کرانے کی کوشش کرتا ہے وکیل قانون کی موٹی موٹی کتابوں، تیز تیز باتوں اور دلائل سے موکل کو یقین دلادیتا ہے کہ مقدمہ اس کی مٹھی میں ہے ڈاکٹر ٹیسٹ کروانے اور ایکسرے کے بعد مریض کے لواحقین کو بتاتا ہے کہ بیماری کیا ہے اور کس طرح علاج کیا جاسکتا ہے چونکہ ہر پیشہ عقل دیتی ہے چالاکی اور ہوشیاری سکھاتی ہے لہٰذا ہر آدمی دوسرے کو اسی چالاکی اور ہوشیاری کے ساتھ بے وقوف بنانے میں مصروف ہے لیکن یہ بے چارا اور کم فہم یہ نہیں جانتا ہے کہ جس طرح یہ اوروں کو بے وقوف بنا تا ہے اسی طرح اس کو بھی بے وقوف بنایا جارہا ہے بالکل اس حکایت کی طرح 
یہ ایک چینی حکایت ہے 
جھینگر، منٹس اور چڑیا
’’
ریاست وو کے بادشاہ نے ریاست چھو پر چڑھائی کا فیصلہ کیا تو ملک بھر میں منادی کرادی کہ اگر کسی شخص نے اعتراض کیا تو اسے کو لہو میں پلوا دیا جائے گا بادشاہ کا ایک داروغہ احتجاج کرنا چاہتا تھا مگر کھلے عام جرات نہ کرسکا اس نے غلیل اور غلے لئے اور پوپھٹے عقبی باغ میں گھومنے لگاحتیٰ کہ سارے کپڑے شبنم سے تر ہوگئے تین دن یہی ہوا تو بادشاہ نے اسے بلاکر پوچھا:
’’
یہ تمہارے کپڑے شبنم سے گیلے کیوں ہوجاتے ہیں؟،،
’’
باغ میں ایک درخت ہے،، داروغہ نے جواب دیا 
’’
اس درخت پر ایک جھینگر رہتا ہے یہ جھینگر مزے سے چیں چیں کرتا اور شبنم پیتا رہتا ہے اس بات سے بے خبر کہ منٹس اس کی تاک میں ہے منٹس آگے کو جھکتا ہے اور اگلی ٹانگیں اٹھا کر جھینگر پر جھپٹتا ہے اس بات سے بے خبر کہ ایک چڑیا اس کی تاک میں بیٹھی ہے اور چڑیا منٹس کو چونچ میں دبانے کے لئے گردن نکالتی ہے اس بات سے بے خبر کہ نیچے کوئی غلیل لئے کھڑا ہے یہ تینوں صرف اسی چیز پر جھپٹنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں جو ان کی نظروں کے سامنے ہے مگر پیچھے کون سا خطرہ ہے اس کا احساس نہیں کرپاتے،،
’’
بہت خوب،، بادشاہ نے کہا اور حملے کا ارادہ ترک کردیا‘‘۔ (گلستان قصص) ۔

یہی حال ہمارے معاشرے اور نظام کا ہے یہاں ایک سپاہی ان پڑھ دیہاتی کی جیب میں ہاتھ ڈالتا ہے اور اپنے اس فعل پر بغلیں بجاتا ہے کہ دیہاتی ان پڑھ ہے وہ اسے بے وقوف بنا سکتا ہے یا پھر بہادری اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک مجرم کو گرفتار کرلیتا ہے یا معمولی چور کو پکڑ کر حوالات میں بند کردیتا ہے یا پھر چور سے مک مکا کرکے پھولے نہیں سماتا ہے کہ اس نے ایک تیر سے دوشکار کرلئے ہیں مالک مکان بھی خوش اور چور سے یاری بھی برقرار تاہم وہ یہ نہیں جانتا کہ یہ سارا کچھ مکڑی کا ایک جالا ہے۔

اس سپاہی کی مانند تھانے دار یا بڑا افسر اس بات پر خوشی سے پھولا نہیں سماتا کہ اُس نے سپاہی کو جرات کا مظاہرہ کرنے پر انعام یا تمغہ دیکھ کر بے وقوف بنالیاہے اب اسی سمگلر سے سازباز کرکے میں پیسہ بھی کماؤں گا اور میری ترقی کی راہیں بھی ہموار ہوں گی لیکن اسے منٹس کی طرح معلوم نہیں ہوتا کہ چڑیا تاک میں بیٹھی ہے غرضیکہ بے وقوف بنانے کا یہ سلسلہ اوپر سے نیچے تک چلا آتا ہے تاہم ہر ایک اپنے تئیں عقل مند ہی خیال کرتا ہے ۔

بدقسمتی یہ ہے کہ سب سے بڑا باس اپنے آپ کو سب سے بڑا عقل مند ، کائیاں اور چالاک سمجھتا ہے ایک بالادست قوم بھی اپنے بارے میں ایسے ہی خیالات رکھتی ہے لیکن اس کی خوش فہمی کا پول اس وقت کھلتا ہے اور اسے اپنی بے وقوفی کا احساس ہوتا ہے جب اس کے کانوں میں کوئی یہ سرگوشی کرتا ہے کہ اس کے ہمسایہ ممالک نے اتنی ہمہ جہت ترقی کرلی ہے کہ تھوڑے ہی عرصہ میں ترقی یافتہ ممالک کی ہمسری کرنے لگے گا۔

جو شخص دوسرے انسانوں کو بے وقوف بناتا ہے درحقیقت وہ خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی چلاتا ہے مثلاً ایک جاگیردار اگر دیہاتیوں کو جاہل، پسماندہ اور ان پڑھ رکھتا ہے تو یہ اس کی بھول اور جہالت ہے اسی طرح ایک قوم دوسری قوموں کو اندھیرے میں رکھتی ہے ان کے ساتھ چالاکیاں کرتی ہے تو یہ اس کی کم فہمی اور کم عقلی ہے جو لوگ اپنے آپ کو عقل مند اور دوسروں کو بے وقوف بنانے میں لگے رہتے ہیں تو یہ ان کی عقل مندی نہیں ہے کیونکہ پھر یہی بے وقوف ان کا جینا حرام کردیتے ہیں یہ صرف اسی چیز پر جھپٹنے میں لگے رہتے ہیں جو ان کی نظروں کے سامنے ہے مگر پیچھے کون سا خطرہ ہے اس کا احساس نہیں کرپاتے ہیں ۔

Comments are closed.