خالد تھتھال ۔ استنبول
پندرہ جولائی کی شام ساڑھے سات بجے ٹی آر ٹی ( ترکی رادیو تیلی ویزی یون کُورومو) پر اعلان ہوتا ہے کہ ترکی کے فوج نے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ ملک کو اس وقت کونسل برائے امن چلا رہی ہے۔ ملک میں مارشل لا نفاذ کے علاوہ کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں نیا آئین لانے کی بھی نوید سنائی گئی۔
اس کے فوراً بعد ہی استنبول ایئرپورٹ کے باہر ٹینک کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ تمام پروازیں منسوخ کر دی جاتی ہیں۔ ٹی وی سکرینوں پرفضا میں اڑتے طیاروں کی گھن گرج کے ساتھ فائرنگ کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ استبول کے مرکزی پلوں پر فوجی ٹینک کھڑے ہیں ۔ انقرہ میں بھی فوجیوں کی نقل و حرکت کے علاوہ جنگی طیارے اور ہیلی کاپٹر نیچی پرازیں کرتے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ لیکن ابھی تک یہ واضع نہ ہو پایا تھا کہ کہ اس گرووپ کے پیچھے کون لوگ ہیں۔
ترک وزیرِ اعظم بنالی یلدرم کا این ٹی وی پر بیان آتا ہے جس کے مطابق فوجی قدم غیر قانونی ہے۔ حکومت کا تختہ نہیں الٹا گیا بلکہ اقتدار حکومت ہی کے پاس ہے۔ ہم اس امکان پر کام کر رہے ہیں کہ حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش ہوئی ہے۔ ہم اس کی اجازت نہیں دیں گے۔
فوج کی ترکی ریاست میں مداخلت کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہ تھا۔ اس کا آغاز 1960ء میں جنرل جمال گرسل کے زمانے سے ہی ہو گیا تھا۔ دوسری بار 1971ء میں سلیمان دیمرل کو اقتدار سے ہٹایا گیا۔ 1980ء میں جنرل کنعان ایویرن اور چوتھی بار نجم الدین ایربا خان کو ملک کے سیکولر نظام سےمتصادم پالیسیوں کے الزام کی وجہ سے اقتدار چھوڑنا پڑا۔
ترک فوج کے ماضی کے ریکارڈ کی وجہ سے اردوعان( اردگان کا اصل تلفظ اردوعان ہے) نے بھی اپنے دور حکومت میں فوج کی حوصلہ شکنی کیلئے فوج پر ایسے الزامات عائد کیے۔ 2007ء میں ایرگینےکون نامی سازش کا الزام سیکولر قوم پرستوں پر لگایا گیا۔ لیکن عدالت نے تسلی بخش شواہد نہ ہونے کی وجہ سے 2016ء میں سب کو رہا کر دیا۔ 2010ء میں بھی بالیوز نامی سازش کا ذکر ہوا لیکن اس بار بھی عدالت کے بقول ملزموں کو جھوٹے الزامات میں پھنسانے کی کوشش کی گئی ہے لہذا انہیں رہا کر دیا گیا۔ بالیور سازش کا سرغنہ ہونے کا الزام فتح اللہ گولین کو دیا گیا۔
مارچ 3 مارچ 1923ء میں مصطفیٰ کمال اتاترک نےجب سیکولر ترکی جمہوریہ کی بنیاد رکھی، تب سے ترک فوج ترکی کی سیکولر نظام کی محافظ قرار پائی تھی۔ جبکہ موجودہ حکومت ایک اسلام پسند حکومت ہے جس کے آنکھوں میں سیکولر ازم کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ جس کا واضح اظہار ترکی پارلیمان کے سپیکر اسماعیل قہرمان نے 25 اپریل کو کیا کہ ترکی آئین سے سیکولرازم سے متعلقہ شقیں ہٹا دی جائیں۔
لہذا ہر کسی کو یقین تھا کہ 15 جولائی کی شام ترک فوج ملک کی سیکولر روایات کی تحفظ کیلئے میدان میں نکل آئی ہے۔ اور اسی خدشے کے پیش نظر جہاں حکومتی جماعت تمام موبائلوں پر بغاوت کو ختم کرنے کیلئے شہریوں کو باہر نکلنے کے پیغامات بھیج رہی تھی۔ ان میں ایک پیغام یہ بھی تھا کہ حکومت کو اسلام سے محبت کی سزا دی جا رہی ہے، اور سب کو اسلام کے دفاع کیلئے باہر نکلنا چاہیئے۔ چنانچہ جب ترکی صدر کا پیغام سی این این ترک پر نشر ہوا تو حکومت کے حمایتی سڑکوں پر اللہ اکبر کے واشگاف نعرے بلند کر رہے تھے۔
بالعموم ترکی عوام اور بالخصوص اردوعان کے حامیوں کی مدافعت کی وجہ سے بغاوت چند گھنٹوں میں ہی دم توڑ گئی۔ اور اب اس بغاوت کی ناکامی پر مختلف تبصرے جاری ہیں، جن میں سب سے اہم باغیوں کی منصوبہ بندی کے اناڑی پن کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ بغاوت کی مناسب منصوبہ بندی نہ تھی۔ کچھ باغی فوجیوں کے بقول انہیں پتہ ہی نہ تھا کہ فوج واقعی اقتدار پر قبضہ کرنے جا رہی ہے، ان کے نزدیک یہ کوئی ریہرسل تھی۔ چیف آف جنرل سٹاف جنرل حلوسی آکار اس سازش کا حصہ نہ تھا حتٰی کہ استنبول میں مقیم فوج کا کمانڈر بھی اس سے آگاہ نہ تھا جنانچہ اس نے جنرل آکار کو یرغمال بنا لئے جانے کے بعد فوج کی کمان سنبھال لی۔ انٹرنیٹ سروس کو معطل نہ کرنا اور ایک سرکاری ٹی وی پر قبضہ کے علاوہ تمام پرائیویٹ چینل کا چلتے رہنا باغیوں کے لئے سم قاتل ثابت ہوا۔
بغاوت کے دوسرے روز ہی بغیر کسی ثبوت کے اردوعان نے اس کا الزام اپنے پرانے ساتھی اور موجود ناقد فتح اللہ گولین کے سر تھوپ دیا۔ اور اس کے ساتھ ہی امریکہ سے مطالبہ کر دیا کہ گولین کو ترکی حکومت کے حوالے کیا جائے۔ جس کے جواب میں امریکی وزیر خارجہ نے گولین کے اس بغاوت میں ملوث ہونے کے ثبوت مانگے ہیں۔ فتح اللہ گولین نے ترکی حکومت کے عائد کردہ الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ترکی میں ہونے والے واقعات سے میرا کوئی تعلق ہے۔اور میں ترکی میں فوجی بغاوت کے ذریعے تختہ الٹنے کی کوشش کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہوں۔
75 سالہ سابقہ امام اور مبلغ فتح اللہ گولین 1999ء سے امریکہ کی ریاست پینسیلوینیا میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کئے ہوئے ہے۔ ایک وقت میں گولین اور اردوعان میں گہری دوستی تھی۔ گولین کی خدمت نامی تحریک کے زیر اثر بہت زیادہ سکول، کالجز اور دیگر فلاحی ادارے چل رہے تھے۔ یہی سکول و کالجز گولین کی تحریک میں بھرتی کے سلسلہ میں بہت معاون ثابت ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ترکی معاشرے میں 10 فیصد لوگ گولین کےحمایتی ہیں۔ ان کی بڑی تعداد پولیس، عدلیہ کے علاوہ دیگر اہم شعبوں میں موجود ہے۔ ملکی اور غیر ملکی مبصرین کے مطابق گولین کے حامی پارلیمنٹ میں موجود ہونے کے علاوہ مقبول روزنامہ زمان، ایشیا بنک نامی نجی بنک کے علاوہ سمان یولو نامی ٹی وی کے بھی مالک ہیں۔
اردوعان اور گولین کی دوستی میں تب دراڑ پڑی جب 2013 میں گولین کے سکول بند کر دیئے گئے۔ جس کے کچھ ہی عرصہ بعد اردوعان کے اہم ارکان کرپشن کے معاملات میں عدلیہ نے دھر لئے۔ اردوعان کی اپنے بیٹے سےکی گئی ایک گفتگو کی ٹیپ بھی سامنے آئی جہاں بیٹے کو دولت کو چھپانے کی نصیحت کی گئی تھی۔ اردوعان نے اسے گولین اور اسرائیل کی سازش قرار دیا۔
اگر چہ گولین کے بقول اس کی تحریک کی نوعیت سیاسی نہیں بلکہ فلاحی ہے لیکن اردوعان حکومت کے کہنا ہے کہ گولین کی تحریک کے واضع سیاسی مقاصد ہیں جن کے حصول کیلئے اس کی تحریک ترکی کے سیکورٹی، انٹیلیجنس، اور عدلیہ کے ادارے میں اپنا رسوخ پیدا کر چکی ہے۔ گولین کے مخالفین گولین کے سیاسی مقاصد کیلئے 1999ء کے ایک ویڈیو کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے جس میں گولین نے اپنے پیروکاروں کو یوں پیغام دیا۔
۔”تم نظام کی انتڑیوں تک اس انداز سے داخل ہو جاؤ کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو تا آنکہ تم طاقت کے مرکز میں پہنچ جاؤ۔۔۔۔۔اس وقت کا انتظار کرو جب تک ریاست کی تمام قوت تمہارے ہاتھوں میں نہ آ جائے اور جب تک ترکی کے تمام آئینی ادارے تمہاری طرف نہ آ جائیں“۔
کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ ہے اس کا شائد کبھی پتہ نہ چل سکے لیکن اس بغاوت کے حوالے سے مختلف آرا کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ اپنی گرتی مقبولیت کو سہارا دینے اور اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کیلئے اردووعان نے یہ ڈرامہ رچایا۔ کرد حلقوں کے نزدیک فوج کے اندر سیکولر خیالات کے حامی لوگوں نے گولین کے حمایتیوں کو بغاوت کرنے پر اکسایا، کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ بغاوت ناکام ہو جاائے گی اور یوں فوج سے گولین کے حمایتیوں کی صفائی ہو جائے گی۔
ایک اور تھیوری کے مطابق اردوعان حکومت کو بھنک پڑ گئی تھی کہ گولین کے حمایتی اس کی حکومت کا تختہ الٹنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ لہذا ان کے خاتمے کیلئے اردوعان نے پہلے سے ہی منصوبہ بنایا ہوا کہ 16 جولائی کو گولین کے فوج میں موجود حمائیتیوں کی صفائی کر دی جائے۔ جونہی بغاوت کے منصوبہ سازوں کو اس بات کا پتہ چلا تو انہوں نے اپنے اس وقت سے پہلے ہی بغاوت کر دی جس کا منصوبہ وہ بنا رہے تھے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اردوعان کے دور میں معیشت نے بہت زیادہ ترقی کی، افراط زر نوے فیصد سے کم ہو کر ساڑھے چھ فیصد کی سطح پر آ گیا۔ غیر ملکی قرضے ختم ہوئے۔ ملکی کرنسی لیرا کی قدر و قیمت دوسری کرنسیوں کے مقابلے میں بڑھی۔ زر مبادلہ کے ذخائر میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ نئی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے بے پناہ غیر ملکی سرمایہ کاری ہوئی۔ بہت زیادہ تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں آیا۔ خواندگی کی شرح 98 فیصد تک جا پہنچی۔ پولیس کے محکمے میں اصلاحات ہوئیں، رشوت کا تقریباََ خاتمہ کر دیا گیا۔ ملکی مواصلات اور ذرائع آمد و رفت کا نظام بہتر ہوا۔ علاج معالجے کی بہتر سہولیات کی فراہمی کے علاوہ ملک میں سیاحت کو بہت زیادہ فروغ ہوا۔ موت کی سزا ختم کر دی گئی۔ کرد مسئلے کو حل کرنے کی خواہش ظاہر کی گئی۔ کردوں کے وہ شہر جن کے نام بدل کر ترکی زبان میں کر دیئے گئے تھے، انہیں واپس کرد زبان مین تبدیل کیا گیا۔ کرد زبان کے استعمال کی اجازت دی گئی۔ یورپی یونین میں شمولیت کی خاطر ملک میں سزائے موت کا خاتمہ ہوا۔
لیکن جونہی یورپی یونین میں شمولیت کی درخواست قبول نہ ہوئی تو پھر پہلے سے مختلف ایک نئے اردوعان کا ظہور ہوا۔ جو ایک وزیر اعظم کی بجائے ایک مطلق العنان حکمران تھا۔ ذرا ذرا سی بات پر صحافی قید ہونے لگے۔ انتہا یہاں تک آن پہنچی کہ دور صدارت میں ”صدر کے توہین“ کے الزام میں 1800 مقدمات درج ہوئے۔ کرد مسئلے کو پرامن طور پر حل کرنے کی بجائے بندوق کے زور پر حل کرنا بہتر سمجھا گیا جس کی وجہ سے کردوں نے جوابی کاروائی کی۔ ہمسایہ ممالک میں مداخلت سے ان ممالک میں اثر و رسوخ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ اور اس مقصد کے حصول میں کسی بھی ضابطے کا خیال نہ رکھا گیا۔
شام اور عراق جانے والے جہادیوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ دعش کے تیل کی سمگلنگ میں اردوعان کے بیٹے کے ملوث ہونے کا ذکر اخبارات میں آ چکا ہے۔ دعش کو اسلحہ سمگل کرنے کی تصاویر اور خبریں چھاپنے والے ترک صحافیوں کو قید کر دیا گیا۔ اور خود سری کی انتہا یہ کہ روس کا جنگی طیارہ مار گرایا۔ جس کے جواب میں کئے گئے روسی اقدامات نے ترکی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا۔ سیاحت ترکی کی معیشت میں خاص مقام رکھتی ہے لیکن اس سال ترکی کے شہر جو کبھی ان مہینوں میں روس کا کوئی شہر ہونے کا تاثر دیتے تھے، وہاں مقامی لوگ روسی زبان کا ایک لفظ سننے کو ترس گئے ہیں، ساحل سمندر ویران ہو گئے ہیں۔ دوکانیں، ریستوران اور ہوٹل گاہکوں کے انتظار میں کھڑے تھک گئے، اگرچہ اردوعان نے روسی صدر پوتن سے معافی مانگ لی لیکن دوسرے دن استنبول ایر پورٹ پر دھماکہ ہو گیا۔
ملک میں خوشحالی کا بلبلہ پھٹنے لگا۔ پچھلے کچھ عرصہ سے ملک میں اس قدر بے چینی پائی جا رہی تھی کہ ہر کسی کو نظر آ رہا تھا کہ اردوعان کا سیاسی کریئر اب ختم ہونے جا رہا ہے۔ اگلا انتخاب اردوعان ہار جائے گا۔ ایسے میں فوجی بغاوت کو ہونا اردوعان کیلئے گویا ایک خدائی امداد ہے۔ جس کا اظہار ہفتہ کے روز ایک جنازے میں اردوعان نے کچھ یوں کیا۔ ”یہ بغاوت خدا کی طرف سے ایک تحفہ ہے کیونکہ اس کی وجہ سے ہمیں فوج میں صفائی کا موقع ملے گا“۔
لیکن اردوعان نے پوری بات نہیں کی، اس بغاوت سے وہ فوج کے علاوہ میڈیا، عدلیہ اور پولیس کے علاوہ ہر اس شعبے سے ان لوگوں کی صفائی کرنے جا رہا ہے جس سے اس کے راج سنگھاسن کو کسی قسم کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ۔ یوں لگ رہا ہے کہ اردوعان اب ترکی فوج اور پولیس کو ان خطوط پر تشکیل دینا چاہ رہا ہے کہ وہ ملک یا اپنے ادارے سے وفادار ہونے کی بجائے اردوعان کی ذاتی محافظ پولیس اور فوج بن جائے۔
اردوعان نے ہفتہ کے روز کہا تھا کہ اس سازش میں ملوث افراد کو بھاری قیمت ادا کرنے پڑے گی۔ انہوں حکومت مخالف رویوں کو کینسر سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ کینسر کا مرض بدقسمتی سے پوری ریاست میں پھیل چکا ہے لہذا تمام ریاستی اداروں سے اس وائرس کو ختم کرنے کا عمل جاری رہے گا کیونکہ یہ وائرس اب بہت پھیل چکا ہے۔
اس مقصد کے حصول کیلئے بے پناہ گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔ نو ہزار پولیس کے اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے۔ جن کی جگہ پولیس کے خصوصی دستے کے 1800 ارکان کو استنبول میں تعینات کر دیا گیا ہے۔ فوج اور عدلیہ سے تعلق رکھنے والے 6000 افراد پہلے ہی حراست میں لئے جا چکے ہیں جن میں 112 کے قریب فوجی جرنیلوں اور بحریہ کے ایڈمرلوں کے علاوہ دو ہزار سے زیادہ جج بھی شامل ہیں العربیہ ٹی وی کے مطابق 17 عدالتوں کو بند کرنے کے علاوہ 2475 ججز کو گولین کے حمائتی ہونے کے الزام میں برخواست کر دیا ہے۔ مخالفین کو کچلنے کیلئے گرفتاریاں، معزولی کے علاوہ ترکی پارلیمان سزائے موت کو دوبارہ متعارف کروانے کی تجویز پر غور کر رہی ہے۔
یونانی حکومت کے بقول ان کے ملک میں ایک ترکی ہیلی کاپٹر اترا ہے جس میں 8 لوگ تھے، ان لوگوں نے اپنے آپ کو یونانی حکام کے حوالے کرتے ہوئے سیاسی پناہ کی درخواست دی، شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ لوگ اس بغاوت کے پیچھے تھے۔ ترکی حکومت کی خواہش ہے کہ ان 8 اشخاص کو واپس ترکی بھیجا جائے۔
قطع نظر اس کے کہ اس فوجی بغاوت کے پیچھے فتح اللہ گولین تھا یا سیکولر خیالات کے حامی لوگ تھے؟۔ اس بغاوت کی ناکامی کے نتیجے میں گولین کمزور ہوا ہے یا سیکولر طاقتیں؟۔ لیکن ایک چیز جو نوشتہ دیوار کی طرح سامنے نظر آ رہی ہے کہ اس سارے کھیل کا اکلوتا فاتح طیپ رجب اردوعان ہےاور وہ اس واقعہ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہا رہا ہے۔
وہ اردوعان جس کے سیاسی کریئر کے خاتمے کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ آج وہ اس قدر مقبول ہے کہ اگر آج انتخابات ہوں تو وہ 90 فیصد تک ووٹ حاصل کر سکتا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ ملک میں صدارتی نظام بھی نافذ کر سکتا ہے۔ اور اگر چاہے تو ملک آئین سے سیکولرازم سے متعلقہ شقیں بھی خارج کر سکتا ہے۔ لہذا اگر اردوعان مستقبل قریب میں نئے انتخابات کا اعلان کر دے تو کوئی اچنبھا نہیں ہونا چاہیئے۔ آج سب کچھ اردوعان کی پہنچ میں ہے جو وہ ریفرینڈم ہارنے کی وجہ سے حاصل نہ کر پایا تھا۔
اگرچہ اپنی ہی پارٹی کے نامزد کردہ وزیر اعظم احمد داؤد اوعلو کو ہٹا کر اس کی جگہ اپنے معتمد بنالی یلدرم کی تعیناتی کی وجہ سے تمام اختیارات پہلے ہی اردوعان کے ہاتھ میں تھے لیکن اب وہ انہیں اختیارات کے استعمال کو قانونی شکل دے سکتا ہے۔ اردوعان کے مخالفین اس وجہ سے اس سارے چکر کو ایک ڈرامہ قرار دے رہے ہیں۔ لہذا ہر مخالف آواز یا جس سے اسے کسی قسم کا اندیشہ ہو گا اسے کچل دیا جاتا ہے۔یوں لگتا ہے کہ ایک نیم پروفیشنل فٹ بالر سے استنبول کی میئر شپ تک پہنچنے والا اردوعان ملک کا صدر کا دور ختم ہوا اور اب اس کی جگہ سلطان طیب رجب اردوعان کا جنم ہونے والا ہے۔
♣
2 Comments