عمران خان کی نئی احتجاجی تحریک

جنید الدین

news1027

بالآخر وہ وقت آن پہنچا ہے جس دوران میڈیا کو خبر ڈھونڈنے کیلئے خاص تگ و دو نہیں کرنا پڑتی.اور تحریک انصاف پچھلے دو معرکوں جن میں سے ایک دھرنا اور دوسرا ہڑتال تھا کہ بعد تیسری دفعہ اب پانامہ تحریک کی صورت میں اس گہہ الفت میں کودنے کو تیار ہو گئی ہے۔

اپریل کے ابتدائی ہفتہ میں منظر عام پہ آنے والی پانامہ دستاویزات نے بین الاقوامی پلیٹ فارم پہ بہت سے سیاسی مہروں کو پس پشت ڈال دیا ہے.لیکن پاکستان میں آج تک ٹی او آر پر اتفاق نہ ہونا سیاسی ناپختگی کا واضح ثبوت ہے۔ٹی او آر وہ اصول و ضوابط ہیں جن کی بنا پر تحقیق شروع ہونی ہے کہ آیا احتساب صرف وزیر اعظم اور ان کے خاندان کا ہی ہونا ہے یا باقی شرفا و صالحین کو بھی اس کار خیر میں شامل کیا جا سکے گا۔

خان صاحب خود بھی ایک آف شور کمپنی کے مالک نکلے ہیں،کمپنی خواہ شیل سہی مگر ان کی طرف سے اس کا چھپایا جانا نواز لیگ کیلئے بھاگتے چور کی لنگوٹی کے مترادف ہی ہے کہ ان کا میڈیا سیل اور ترجمان پانی میں مدھانی ڈالنے کا کام خوب جانتے ہیں۔ نواز لیگ کی دوسری حکمت عملی روز اول سےمارنے سے زیادہ تھکانے کے اصول پر کاربند ہے۔مزید یہ کہ ساری تفتیش کا دورانیہ کتنا ہوگا۔پی ٹی آئی اور اپوزیشن نوے کی دہائی اور نواز شریف کے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب شروع کرنے پہ مصر دکھائی دیتی ہے جبکہ نواز شریف حسب ماضی اپنا خاندانی انسائیکلو پیڈیا کھول لیتے اور بھٹو مرحوم کے ان کے خاندان پہ ظلمات کا ناول پڑھنے لگتے ہیں۔

تحریک انصاف جس کی اکثریت مختلف پارٹیوں سے تعلق رکھتی تھی اس دوران شد و مد کا شکار دکھائی دیتی ہے.ایک طرف ان کے لوگ پوزیشن کو مضبوط کرنے کیلئے باقی پارٹیوں کو ساتھ لیکر چلنا بھی چاہتے ہیں اور دوسری طرف ہر پارٹی کا ذاتی مفاد کو اولین ترجیح دینا اور عین وقت پر ساتھ چھوڑنا بھی انہیں خوفزدہ کر دیتا ہے۔

اسی طرح کی گھمبیرتا متحدہ اپوزیشن اور ایم کیو ایم کی باہمی چپقلش میں دیکھی گئی یہاں تک کہ شاہ محمود قریشی نے واضح کہہ دیا کہ انہیں متحدہ پہ رتی بھر اعتماد نہیں ہے۔یہ بھی قابل غور ہے کہ کسی بھی ہنگامی صورتحال کے وقت جمہوریت کے خطرے کی بات چل نکلی تو پیپلز پارٹی کو پہلو بدلنے میں ذرا وقت نہیں لگے گا ۔رہی بات جماعت اسلامی اور پاکستان عوامی تحریک کی تو ان دونوں کے مینڈیٹ کو کسی بھی صورتحال میں فرق نہیں پڑنے والا کہ یہ کتھارسس کرنے کی حد تک میدان میں نظر آئیں گی۔

حقیقی مقابلہ صرف تحریک انصاف اور نواز لیگ کا ہے اور اس کی کامیابی اور ناکامی ہی 2018 کے الیکشن نتائج کی بنیاد ثابت ہو گی۔

ٹائم فریم دو یا تین مہینوں کے فرق سے وہی ہو گیا ہے جوتقریباً پانچ سال پہلے تھا۔

پانچ سال پہلے ان دنوں تک تحریک انصاف کی حیثیت بالکل صفر تھی اور اسے تانگہ پارٹی جیسے ناموں سے یاد کیا جاتا تھا۔پیپلز پارٹی کرپشن کو فرائض منصبی کا درجہ دے چکی تھی تو عوام نے بھی تو نہیں اور سہی کا رویہ اپنا لیا۔اب مقابلہ پرانے اور نئے کھلاڑی کا تھا،لوگ جوق در جوق تحریک انصاف کے اکتوبر والے جلسے میں شریک ہوئے مگر پرانے عناصر اور ٹکٹوں کی تقسیم کے باعث تحریک انصاف مرکز میں کچھ خاص کارنامہ نہ دکھا سکی.۔

آج پھر پی ٹی آئی اسی مقام پہ کھڑی ہے،وقت کم ہے اور مقابلہ سخت،اگر پی ٹی آئی نواز شریف کو استعفیٰ پر مجبور نہیں کر سکتی جس کے امکانات کافی ہیں تو اس کے پاس عوام کے پاس لےجانے کو کیا بچتا ہے۔

تحریک انصاف نے جو غلطیاں کی ہیں اور جو اس کی شکست کا باعث بنیں گی ان میں سب سے بڑی پارٹی کی تنظیم سازی ہے۔تنظیم سازی نہ ہونے کی صورت میں ٹکٹوں کی بندر بانٹ مقدر ہو جائے گی اور جتنا کم وقت اگلے انتخابات میں باقی ہے نئی اور شفاف تنظیم سازی ممکن نظر نہیں آتی،چودھری سرور اور شاہ محمود قریشی پارٹی میں ہر گز اپنی گرفت کمزور نہیں دیکھ سکتے۔

خاکم بدہن تحریک کی ناکامی کے بعد عمران خان  لوگوں کو اگر لوڈ شیڈنگ کے مسئلہ پر متفق نہیں کر سکتے تو اگلے انتخابات جیتنا نا ممکن ہو سکتا ہے۔مزید یہ کہ پی ٹی آئی نے اس عرصہ میں پیپر ورک بالکل نہیں کیا جس کے تحت کسان پالیسی بننا تھی۔تعلیم اور صحت کے مسائل پر کوئی تحقیق یا لائحہ عمل بھی سامنے نہیں آیا۔

عمران خان کیلئے کرو یا مرو والی صورتحال بن چکی ہے۔نتیجہ چند دن میں عوام کے سامنے ہو گا۔

Comments are closed.