غدار ابن غدار۔جمہور کو آپ پر فخر ہے

عبدالحئی ارین

738149-AchakzaiINP-1405832020-190-640x480

اکیسویں صدی میں سوشل میڈیا اور عوام میں شعوری و سیاسی سوچ پہلے سے زیادہ ہونے کی وجہ سے او ر ملک میں ماضی کے مارشل لاوں کے مصائب و نقصانات کے بعد پاکستان میں جمہوریت کو لپیٹنے اور ملک میں مارشل لا لگانے کا سوچنے والوں کو یقیناًاندازہ ہے کہ اب مارشل لا لگانے کا زمانہ نہیں رہا۔اور اگر کسی نے اس قسم کا سوچا بھی تو اُسے تُرکی سے بھی بدترین مخالفت کا سامنا رہے گا۔مگر انھوں نے جمہوریت دشمنی تو چھوڑنی نہیں اس لئے فوجی کودیتا نہ سہی مگر ان قوتوں نے ملک میں ایسے’ فیلے‘ چھوڑ دیے ہیں جو میڈیا اور کچھ سیاست دانوں کے لبادے میں جمہوریت کو بدنام کرنے اور عوام کو اپنے منتخب نمائندوں سے بد ظن کرنے کی سازشوں میں ہر وقت لگے رہتے ہیں۔

پاکستان میں جب بھی کوئی حکومت یا کوئی سیاسی جماعت ملک میں جمہوریت کی مضبوطی کیلئے کوششیں کرتی ہیں یا اگر کوئی حکومت ملکی خارجہ پالیسی پارلیمنٹ یعنی عوامی نمائندوں کے ذریعے چلانے کی کوشش کرتی ہے تو جواب میں نامعلوم افراد اپنے معلوم افراد جس میں سیاسی اور میڈیا کے افراد بھی شامل ہیں، کے ذریعے حکومت یا ان جمہوریت پسند سیاستدانوں کو دبانے کی سازشیں شروع کردیتے ہیں۔ اور دھمکیوں سے لے کر اُ س لیڈر کی کردار کشی کرنے سے بھی نہیں کتراتے ہیں۔

یہی کچھ آج کل ملک میں جمہوریت کے علمبردار محمود خان اچکزئی کے ساتھ ہورہا ہے۔ اچکزئی صاحب کے پیچھے کہیں پر سلیم صافی اور مبشر لقمان جیسے اسٹبلیشمنٹ کے بندے چھوڑے گئے ہیں تو کہیں پاکستان تحریک انصاف کے سیاسی نابالغین کو نیا پاکستان میں یہ کام سونپا گیا ہے کہ وہ ہر اُس سیاسی شخصیت کی کردار کشی کرے جو بوٹ پالشی بننے سے انکار کرتا ہے۔

بوٹ پالش سے یاد آیا چونکہ خیبر پشتونخوا کے زیادہ تر لوگ غربت اور بیروزگاری کی وجہ سے بوٹ پاش کے کاروبار سے منسلک ہیں اسی لئے انھوں نے اسمبلیوں میں بھی عوامی نمائندے بھیجنے کی بجائے کچھ سیاسی بوٹ پالشیے ہی بھیجے ہیں۔ مگر انھیں یہ ہر گز نہیں بھولنا چاہے کہ اچکزئی ایک فرد کا نام نہیں اور نہ ہی وہ کسی عام سیاسی پارٹی کے لیڈر ہیں بلکہ وہ قومی لیڈر اور ایک قومی تحریک کے ہردلعزیز لیڈر ہیں اور اُن کے خاندان کی سیاسی خدمات کی وجہ سے لوگ اُس کیلئے ہر قربانی دینے کیلئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔

نامعلوم افراد کے ایما پر معلوم افراد کی جانب سے اچکزئی کے خلاف جو ایک خاص مقصد کیلئے زہر پاشی کی جارہی ہے اُس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اچکزئی صاحب کو پریشر میں لا کر اُس سے قومی جدوجہد اور جمہوریت کی حق میں آواز بلند کرنے سے روکا جا سکے۔ مگرتاریخ گواہ ہے کہ جلا وطنی ہو ،اُن کی کردارکشی اور یا پھر اُ نکے خلاف قرارداد جیسی بے معنی ہتھکنڈوں سے وہ گھبرانے والا سیاست دان نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اعصاب کی جان کیسے لڑنی ہے اور کیسے جیتی جاسکتی ہے۔

جس خیبر پشتونخوا کی اسمبلی میں اچکزئی کے خلاف قرارداد لائی جارہی ہے اُس کی بنیادوں میں اچکزئی کے اکابرین کا خون شامل ہیں۔ جس جمہوریت کی وجہ سے آج جو لوگ اس اسمبلی میں بیٹھے ہوئے ہیں، وہ جمہوریت اچکزئی صاحب کے اکابرین ہی کی سیاسی جدوجہد کا ثمر ہے۔ ہم کسی کو طعنہ نہیں دیتے ہیں ورنہ آج جو لوگ اچکزئی کے خلاف منفی ہتکھنڈوں پر اُتر ائے ہیں، اُن کے اکابرین انگریز کے ایجنٹ تھےاور آج کے پاکستان میں بھی اُن کی اولادیں ڈکٹیٹرز کی کوکھ سے جنم لیے ہوئے ہیں۔

جبکہ اچکزئی کے سیاسی خاندان کے لوگ اندرونی و بیرونی سامراج کے خلاف گزشتہ تین صدیوں سے زیادہ عرصے سے سیاسی جدوجہد کر رہے ہیں۔ انسانی حقوق اور جمہوریت کی خاطر نیلسن منڈیلا سے بھی زیادہ اچکزئی کے والد خان شھید عبدا لصمد خان اچکزئی قوموں کے حقوق اور جمہوریت کیلئے اپنی زندگی کے ۳۳ قیمتی سال ہندوستان اور پاکستان کے مختلف جیلوں میں قید بامشقت گزارچکے ہیں۔ بلکہ انگریز سے زیادہ تکلیف دہ سزائیں انھیں اپنے ہی ملک میں مسلمان حکمرانوں نے دی تھیں۔

صرف جنرل ایوب خان کے دور میں لاہور کے ہائی کورٹ نے عبد الصمد خان اچکزئی کو عمر قید یعنی چودہ سال جیل کی سزا دی تھی۔ متحدہ ہندوستان ہو یا موجودہ پاکستان ، تاریخ کے طالبعلموں کو باچا خان اور خان عبدا لصمد خان اچکزئی کے علاوہ ایسا کوئی دوسرا لیڈر نہیں ملے گاجس نے جمہوریت اور انسانوں کے بنیادی انسانی حقوق کیلئے تاریخ میں اتنی لمبی جیلیں اور صوبتیں جھیلیں۔ ہر گز نہیں۔۔۔

قائد اعظم محمد علی جناح سے لےکر نیا پاکستان کے رہنماوں سمیت کسی مسلم لیگی یا تحریک انصاف کے رہنما وں سمیت آج تک کسی ایک لیڈر نے بھی ایک سال تک بطور سیاسی قیدی جیل میں نہیں گزار ے ہیں ۔ بلکہ پاکستان واحد ملک ہے جس میں سیاستدان فوج کے گیٹ تھرو سے ہوکر عوامی نمائندے بنائے جاتے ہیں۔ اسی لئے تو یہ لوگ ووٹ لیکر بوٹ کی خدمت کرتے رہتے ہیں۔

ان بوٹ پالشی سیاسی نابالغین کے برعکس اچکزئی کی سیاست کوئی اسٹبلشمنٹ کا اوتار یا حادثہ نہیں ہے بلکہ ان کے خاندان کی قومی سیاست تین سو سال سے زائد عرصے پر مشتمل ہیں۔ میروئیس نیکہ کی حکومت ہو، احمد شاہ شاہی سلطنت کا سنہرا دور ہو اور یا پھر متحدہ ہندوستان میں انگریز سامراج کے خلاف اور موجودہ پاکستان میں آمریت کے خلاف حق کی آواز بلند کرنے اور حقیقی سیاسی جدوجہد میں محمود خان اچکزئی کے دادا اور پردادا نے ہمیشہ سچ کا ساتھ دیا تھا اور ان استبدادی اور عوام دشمن قوتوں کے خلاف ہمیشہ حق کی آواز بلند کی تھی۔

اس لئے ان بھٹکے ہوئے پاکستانیوں نے اگر مطالعہ پاکستان کی بجائے تاریخ کا درست مطالعہ کیا ہوتا تو آج کم از کم وہ یہ جان سکتے تھے کہ اچکزئی کے پردادا، دادا اور والد جائز عوامی حقوق اور ایک پر امن جمہوری انصاف پر مبنی او ر ترقی پسند معاشرے کے قیام کیلئے گزشتہ تین سو سالوں سے جدوجہد کر رہے ہیں۔

پاکستان میں حقیق جمہوریت اور عوام کے دیگر انسانی حقوق کیلئے محمود خان اچکزئی کے والد خان عبد الصمد خان نے نا صرف ۳۳ سال جیلوں میں سزائیں کاٹی تھیں بلکہ 1973..میں جمہوریت دشمن قوتوں نے رات کی تاریکی میں اپنا مُکرہ چہرہ چھپا کر عبد الصمد خان اچکزئی کے کمرے میں روشن دان کے راستے سے دو گر ینڈ پھینک کرجمہوریت کے اس علمبردار باپ کو شہیدکردیا گیاتھا۔

یاد رہے قومی سوال، جمہوری اقدار اور پاکستان میں مظلوم اقوام کے مفادات اور اُن کے حقوق کی بات کیلئے تکلیفیں اٹھانا محمود خان اچکزئی کو گُھٹی میں ملی ہوئی ہیں۔ پاکستان میں تمام مارشل لائی ادوار میں اگر کسی نے ان جمہوریت دشمن جرنیلوں کے سامنے پہلی اواز اٹھائی ہے تو وہ کوئی اور نہیں بلکہ محمود خان اچکزئی ہی ہیں۔ اور آج تک اس سپوت نے کسی مارشل لا کو ویلکم نہیں کہا ہے۔

جنرل ضیا الحق کے دور میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے بعد جب تمام سیاسی پارٹیاں بشمول پاکستان پیپلز پارٹی کو سیاسی پیچس لگے ہوئے تھے۔ کوئی بھی پاکستانی سیاسی جنرل ضیاء کے خلاف بولنے سے کتررا رہے تھے تو یہ محمود خان اچکزئی ہی تھے جس نے اس سیاسی جمودکو توڑا اور ذوالفقار علی بھٹو کے گھر جا کر بینظیر بھٹو کو سیاسی میدان میں آنے اور ضیاء کے خلاف جمہور کو سڑکوں پر لانے کیلئے تیار کیا تھا۔

اور خود بھی مارشل لاء کے دور میں جلسہ اور جلوس پر پابندی کے باوجود کوئٹہ میں اچکزئی کی سربراہی میں مرکزی جامعہ مسجد سے ایک بڑا جلوس ضیائی مارشل لا ء کے خلاف نکالا گیا تھا جس پر سیکیورٹی فورسز نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں اچکزئی کی پارٹی پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سات افراد شہید اور سینکڑوں زخمی ہوگئے تھے۔

یہی نہیں بلکہ عوام کے حقوق اور مارشل لا کے خلاف جدوجہد کی وجہ سے اچکزئی کو چھ سال جلا وطنی کی زندگی بھی گزارنی پڑی تھی۔ اسی طرح جس رات جنرل مشرف نے ملکی آئین کو فوجی بوٹوں تلے روند کر اور جمہوریت کا گلا گھونٹ کر ملک میں مارشل لا لگایا تو پاکستان کے اخباروں میں جہاں عمران خا ن و دیگر نے مارشل لا کو ویلکم کہا تھا مگر اُنھی اخباروں میں اچکزئی اور اُس کی پارٹی پاکستان کی واحد سیاسی جماعت تھی جس نے مارشل لا کی مذمت کی تھی اور جمہوریت زندہ باد کا نعرہ لگایا تھا۔

ہمسایہ ملکوں میں ہماری ملٹری جنتا اور جاسوسی اداروں کی جانب سے اپنے پراکسیز کے ذریعے مداخلت ہو یا ملکی خارجہ پالیسی پر فوج کا قبضہ ۔ سیاست میں جاسوسی ااداروں کی مداخلت ،آمریت اور طالبان کی بربریت ہو، مذہبی منافرت یا نسلی و مذہبی امتیاز ان تمام غیر انسانی اور غیر جمہوری رویوں کے خلاف اگر پاکستان میں سب سے پہلے آواز کسی نے اٹھائی ہے تو وہ محمود خان اچکزئی اور اُس کی پارٹی ہی ہیں۔

اس ملک میں جمہوریت ہی کے ذریعے مظلوم اقوام کے حقوق کا تحفظ کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس وقت پاکستان میں مظلوم اقوام کی بقا اور اُن کے حقوق کیلئے جو واحد راستہ رہ گیا ہے وہ مضبوط جمہوریت ہی ہے۔ اور آمریت کا فائدہ اُس طبقے یا صوبے کو ہوسکتا ہے جہاں سے اکثریتی فوج کا تعلق ہے یہی وجہ ہے کہ جمہوریت کی خاطر اور مستقبل میں اس ملک میں جمہوری روایات کو پائیدار بنانے کیلئے وہ وزیر اعظم نواز شریف کا ساتھ دے رہا ہے۔ تاکہ نواز شریف اگر اس ملک کیلئے کچھ اور کریں یا نہ کریں کم از کم جمہوریت کو مضبوط کر سکیں جس سے اس ملک کے مظلوم اقوام کو ہی فائدے ہوں گے۔

چترال سے لیکر بولان و بلوچستان تک ، سرائیکستان سے لیکر سندھ کی چولستان تک مظلوم و حقوق سے محروم عوام ا چکزئی کیساتھ کھڑے ہیں۔ عوام کو اپنے اس ہر دلعزیز لیڈر پر فخر ہے۔ اس لئے آمریت کو دعوت دینے والے سیاسی پریشر گروپس ہو یا اردو میڈیا میں گُھس بیٹھئے اینکرز یا پھر فوج سے بظاہر ریٹائرڈ تجزیہ خوروں کی جانب سے محمود خان اچکزئی کی جو کردار کشی کی جارہی ہے وہ دراصل جمہوریت اور پاکستان کے مظلوم اقوام کی آواز کو ختم کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جیت ہمیشہ سچ کی ہوتی ہے، حق کی فتح ہو کر رہے گی۔ اس ملک میں آخر کار جمہوریت نے ہی مضبوط ہونا ہے۔ اب یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ ہم نےآمریت کا ساتھ دینا ہے یا پھر ہمیشہ رہنے والی جمہوریت اور اُس کے پاسبانوں کے ساتھ ۔ اس کے علاوہ عوامی سوچ رکھنے والوں ، جمہوری اور پاکستان کے محروم و محکوم اقوام کی قیادت کرنے والوں کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ آمریت پسند اور جمہوریت پسند قوتوں کی اس جنگ میں محمود خان اچکزئی کا ساتھ دے کر جمہور دشمن عناصر کو منہ توڑ جواب دیں۔

6 Comments