تقریباً تین عشروں سے کراچی میں موجود رینجرز ابھی تک کراچی کی امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہے۔ رینجرز نہ صرف کاروبار میں مصروف ہو چکی ہے بلکہ ان سیاستدانوں کو انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے جو اس کی ماروائے قانون سرگرمیوں پر سوال اٹھاتے ہیں۔
سندھ حکومت کی تمام تر مخالفت اور اختیارات دینے سے انکار کے باوجود رینجرز اپنے مخالفین کی پکڑ دھکڑ میں مصروف ہےاور اس نے سابق صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور کے مبینہ فرنٹ مین اسد کھرل کو دوبارہ گرفتار کر لیا ہے۔
اس طرح سندھ حکومت کی تمام تر مخالفت اور اندرون سندھ میں چھاپوں کو غیر قانونی قرار دے کر خصوصی اختیارات نہ دینے اور سندھ میں رینجرز کے قیام کی مدت میں توسیع نہ کیے جانے کے باوجود رینجرز اپنی من مانی کر رہی ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومت کے درمیان تازہ تنازعہ لاڑکانہ میں اسد کھرل کی رینجرز کے ہاتھوں گرفتاری اور وزیر داخلہ کے بھائی طارق سیال کے زبردستی رہائی کے بعد پیدا ہوا ہے۔
سندھ حکومت کا موقف ہے کہ ستمبر 2013میں آپریشن کے آغاز پر رینجرز کو صرف کراچی کی حد تک آرٹیکل147 کے تحت دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کے خاتمے کے لیے اختیارات دیے تھے جبکہ صوبے کے بقیہ علاقوں میں رینجرز کو ڈسٹرکٹ پولیس کی مدد کے لیے رکھا گیا تھا۔
وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر قانون مرتضی وہاب نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے سندھ حکومت کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ رینجرز کو کراچی میں قیام امن کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے دیے گئے خصوصی اختیارات کی مدت پندرہ جون کو ختم ہو چکی ہے مگر وزیر داخلہ نے خاموشی سے ڈیڑھ مہینہ گزار دیا مگر سندھ حکومت قانون پر عملدرآمد چاہتی ہے تو اس پر بلاوجہ تنقید کی جا رہی ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت جلد اس حوالے سے فیصلہ کر لے گی۔
سندھ حکومت کو رینجرز کی کراچی سے باہر کاروائیوں پر اعتراض ہے مگر رینجرز کا موقف ہے کہ جرائم پیشہ افراد کراچی میں جرم کرنے کے بعد اندرون سندھ میں جاکر چھپ جاتے ہیں لہٰذا وہاں بھی کارروائی ضروری ہے۔ رینجرز ترجمان میجر قمبر رضا نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ رینجرز پانچ ستمبر 2013کو خصوصی اختیارات ملنے کے بعد سے اندرون سندھ کے مختلف علاقوں میں کئی ٹارگیٹڈ کارروائیاں کر چکے ہیں، جن میں مجموعی طورپر533ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔
گرفتار ملزمان میں سے 478کو پولیس جبکہ 55 کو دیگر اداروں کے حوالے کیا گیا ہے۔ ان گرفتار افراد میں کالعدم تنظیموں اور علیحدگی پسند تنظیموں کے کارندے بھی شامل تھے اور ایم کیو ایم کے عسکری ونگ کے دہشت گرد بھی جبکہ اسمگلر اور منشیات فروش بھی ان ملزمان میں شامل ہیں۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے موجودہ صورت حال سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کو ملاقات کر کے آگاہ کر دیا ہے اور دونوں جلد دبئی میں آصف علی زرداری سے ملاقات کرنے والے ہیں اور توقع یہی ہے کہ ماضی کی طرح سندھ حکومت ایک بار پھر معاملے کو ہائپ دینے کے بعد ہتھیار ڈال دے گی کیونکہ نہ تو سندھ حکومت رینجرز کے بغیر صوبہ چلانے کے قابل ہے اور نہ سندھ پولیس اکیلے صوبے میں امن و امان قائم رکھ سکتی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ایم کیو ایم کو پہلے ہی رینجرز کی کارروائیوں پر تحفظات ہیں اور نامزد میئر وسیم اختر کی گرفتاری کے بعد انہیں تفتیش کے لیے ایم کیو ایم مخالفت کے حوالے سے شہرت رکھنے والے پولیس افسر راؤ انوار کے حوالے کیا جانا۔ ایم کیو ایم کے نئے احتجاج کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
وسیم اختر کو پولیس نے اشتعال انگیز تقاریر کی سہولت کاری کے الزام میں درج دو مقدمات میں تفتیش کے لیے جسمانی ریمانڈ پر لیا ہے۔
ایس ایس پی راؤ انوار نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ دونوں مقدمات رواں برس کی ابتدا میں درج کیے گئے تھے مگر وسیم اختر بلانے کے باوجود تفتیش کے لیے نہیں آئے لہٰذا ان کو جیل سے حراست میں لینا پڑا۔ ان مقدمات میں فاروق ستار سمیت دیگر کئی رہنما بھی مطلوب ہیں۔
سینیئر صحافی امین حسین کہتے ہیں کہ وسیم اختر سمیت ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی اکثریت ایسے 23 مقدمات میں ضمانت پر ہے لیکن پہلے ایک انتہائی کمزور مقدمے میں وسیم اختر کی گرفتاری اور پھر دیگر مقدمات میں گرفتاری منصوبہ بندی کے تحت لگتی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں تین عشروں سے تعینات رینجرز کا کردار ہمیشہ ہی سے متنازعہ رہا ہے ۔ شہر میں رینجرز کو قیام امن کیلئے لایا گیا تھا مگر کراچی میں کاروبار ی مواقع دیکھ کر انکی رال ٹپک گئی اور یہ بجائے اپنےاس فرض کی ادایئگی کے کاروبار میں مصروف ہوگئے ۔
پچھلے ماہ سندھ ہائی کورٹ کو بتایا گیا تھا کہ رینجرز سندھ میں پٹرول پمپس کے کاروبار میں حصہ دار بن چکی ہے اور کئی پٹرول پمپس رینجرز چلا رہی ہے۔
رینجرز نے اپنی آمد کے ساتھ ہی ان لوگوں نے کراچی کے اہم علاقوں میں بڑی بڑی اور وسیع عمارتوں پرقبضہ کر لیا تھا ۔ کراچی کی اہم تاریخی عمارات میں ان لوگوں نےجو قبضے کئے وہ آج تک برقرار ہیں ۔
ان عمارات میں انتہائی اہمیت کے حامل محل وقوع کی ، تاریخی حیثیت رکھنے والی کراچی کی خوبصورت ترین عمارتوں میں سے ایک جناح کورٹ بھی شامل ہے ۔ ان قبضوں کا جواز تو یہ بتایا گیا تھا کہ رینجرز کو اپنے کیمپ وغیرہ قائم کرنے اور رہائش کیلئے جگہ کی ضرورت ہوگی، مگر بہت جلد یہ حقیقت سامنے آنے لگی کہ یہ قبضے دراصل بڑے بڑے کاروباری مراکز قائم کرنے کیلئے کئے گئے تھے اور آج یہ تمام جگہیں وسیع وعریض شاپنگ مال میں تبدیل ہوچکی ہیں جہاں سےکروڑوں روپے روز کی آمدنی ہوتی ہے ۔
شہر بھر میں ایسے غیر قانونی شاپنگ مال اور فوڈ کمپلیکس قائم ہیں ۔ان میں سے کئی میں شادی ہال بھی بنا دیئے گئے ہیں جن کوبھاری کرائے پرتقریبات کیلئے عام شہریوں کودیا جاتا ہے– ان فوڈ کمپلیکس میں درجنوں دکانیں اوراسٹالز بھی بنائے گئے ہیں جن سے بھاری کرایہ حاصل ہوتا ہے۔
لہذا جب بھی کراچی میں امن و امان کی صورتحال سیاسی جماعتوں کی کوششوں سے بہتر ہونا شروع ہوتی ہےرینجرز کو قارون کا یہ خزانہ اپنے ہاتھ سے جاتا ہوا نظر آتا ہے اور پھر کراچی میں آگ اور خون کا کھیل شروع کردیا جاتا ہےتاکہ یہاں قیام کا جواز باقی رہے ۔
آج سے برسوں پہلے جب کراچی میں رینجرز کی تعیناتی کا فیصلہ کیا گیا تو سیاست دانوں کا کہنا تھا کہ یہ لو گ کراچی سے کبھی واپس نہیں جائیں گے۔ یہ واپسی کیلئے آئے ہی نہیں ہیں۔ اور آج اس دانا شخص کی بات بالکل درست معلوم ہوتی ہے۔ تین عشرے قبل آپ کو یہاں امن وامان کے قیام کیلئے لایا گیا تھا تو اس قدر طویل عرصہ گذر جانے کے باوجود رینجرز اس شہر میں امن تو کیا خاک لاتے اس کی بدامنی میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔
News Desk