ترکی میں 42 صحافیوں کے وارنٹ گرفتاری

Turkish military personnel who were aboard a Blackhawk military helicopter are transferred to a prosecutor's office in the city of Alexandroupolis, northern Greece, Sunday July 17, 2016. A Blackhawk military helicopter with seven Turkish military personnel and one civilian landed in the Greek city, where the passengers requested asylum. While Turkey demanded their extradition, Greece said it would hand back the helicopter and consider the men's asylum requests. (Giannis Moιsiadis/InTime News via AP) GREECE OUT

ترکی کے ذرائع ابلاغ کے مطابق ترک حکام نے31 ماہرین تعلیم کو حراست میں لے لیا ہے اور 42 صحافیوں کی گرفتاری کے احکاماتجاری کر دیے گئے ہیں۔

ترکی میں ایک ناکام فوجی بغاوت کے بعد یہ اقدام ایک متنازعہ کریک ڈاؤن کے تحت ان افراد کے خلاف اٹھایا جا رہا ہے جن کے بارے مین انقرہ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ امریکا میں مقیم ترک مبلغ فتح اللہ گولن کے حامی ہیں۔ ترک حکومت فوجی بغاوت کا الزام فتح اللہ گولن پر عائد کرتی ہے۔

ترکی کے سرکاری خبر رساں ادارے انادولو کے مطابق جن صحافیوں کے خلاف پوچھ گچھ کے لیے وارنٹ جاری کیے گئے ہیں ان میں ایک نام ممتاز قلم کار نازلی لیکاک کا بھی ہے جو صدر طیب ایردوان کے ناقدین میں سے ہیں۔ لیکاک نے ترک عالم فتح اللہ گولن کی تحریک کو کچلنے کےخلاف صدر ایردوآن کی مخالفت کی ہے۔

دوسری جانب گولن نے اس فوجی بغاوت میں کسی بھی طور ملوث ہونے سے انکار کیا ہے جس میں قریب 290 افراد ہلاک ہوئے تھے اور جسے صدر ایردوآن کی وفادار فورسز اور حکومت نواز مظاہرین نے کچل دیا تھا۔ خبر رساں ایجنسی انادولو کے مطابق اب تک پانچ صحافیوں کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔

ترک صدارتی دفتر کے ایک سینیئر عہدیدار کی طرف سے غیر ملکی میڈیا کو بھیجے جانے والے ایک ٹیکسٹ میسج میں کہا گیا ہے، ’’استغاثہ نے ان صحافیوں کو فوجی بغاوت کے منصوبے سے متعلق سوالات کے لیے حراست میں لینے کی درخواست کی تھی۔ یہ گرفتاریاں ان کی صحافتی سر گرمیو‌ں کے حوالے سے نہیں بلکہ ممکنہ مجرمانہ طرز عمل کے تناظر میں کی گئی ہیں۔‘‘ یہ بات اس سینیئر عہدیدار نے ترک حکومت کے قواعد و ضوابط کے مطابق نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتائی۔

حکومت نواز اخبار’ صباح‘ کے مطابق مطلوبہ صحافیوں کی فہرست میں ایک اخبار کے ایڈیٹر ایرکان اکر اور ایک نیوز شو کے میزبان ایرکن اکوس بھی شامل ہیں۔ حکام کو مطلوب ایک اور صحافی حانیم بصرہ ایردل ہیں۔ ایردل سابق کالم نگار اور زمان اخبار کے رپورٹر ہیں۔ اس اخبار کو رواں برس مارچ میں گولن کی تحریک کے ساتھ روابط ہونے پر حکومت نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔

انادولو کی رپورٹ کے مطابق اکتیس ماہرین تعلیم کو استنبول اور چار دوسرے صوبوں میں پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا ہے، جن میں زیادہ تعداد پروفیسروں کی ہے۔ سکیورٹی حکام نے استنبول میں قائم فوج کی وار اکیڈمی پر بھی چھاپہ مارا ہے اور وہاں سے چالیس افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔ گزشتہ ہفتے ترک حکومت نے ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے ناکام فوجی بغاوت کے تناظر میں فوج، عدلیہ اور دیگر اداروں سے لگ بھگ تیرہ ہزار افراد کو حراست میں لے لیا تھا۔

DW

Comments are closed.