اینٹی پاليٹيکس سوشل ميڈيا اور اس  کا نيا سماجی جانور

khan kakar

خان زمان کاکڑ

قنديل بلوچ کے قتل کے واقعے کے ساتھ سوشل ميڈيا نے اپنے بهر پور تعلق کا اظہار کيا۔ اس واقعے کی مخالفت، حمايت، يا ان دو صورتوں کے علاوه بحث و مباحثے اور تبصروں کی شکل ميں کئی روز تک  جو کچھ ايک بہت بڑے پيمانے پہ پوسٹ کيا گيا اس سے کم ازکم یہ ثابت ہوا کہ قنديل کا قتل ايک ايسا واقعہ تها جس کے ساتھ پاکستانيوں کا اور پاکستان سے متعلقہ لوگوں کا کسی نہ کسی حوالے سے ایک تعلق تها۔  اس تعلق کے تين بڑے حوالے ہيں:۔

۱۔ قنديل خود بهی سوشل ميڈيا سے وابستہ یا اس میڈيا کی ایک پيداوار تهی۔ وه سوشل میڈیا والوں کے خاندان میں سے تهی اور وه اس خاندان کے ساتھ قرابت اور رقابت کے کئی  رشتوں ميں منسلک تهی۔ کہتے ہيں کہ اسی سوشل ميڈيا نے پهر اس کی جان بهی لے لی۔

۲۔ وه ايک خاتون تهی۔ کہتے ہيں کہ خاتون ميں کششزياده ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ اس کی لاش ميں بهی کششہوتی ہے اور اس کی لاش کو بهی کئی روز تک مردوں کی پہنچ سے محفوظ رکهنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ عورتوں کے جسم میں مردوں کیلئے کشش کو‘  تو فطریتصور کيا جاتا ہے، اب تو اس ميں شہری اور فيمنسٹ عورتوں کيلئے بهی بڑیکششنظر آتی ہے۔

۳۔ اس کی زندگی اور موت  ميں مذہبی اور لبرل طبقے دونوں کی پوليٹيکل اکانومی چهپی ہوئی تهی۔ اولذکر کے لئے وه اسلام ، پاکستان اور اخلاقی اقدار کو تباه کرنے والی ايک فاحشہ  تهی جس کی موت جائز تهی اورآخرالذکر کيلئے وه ايک فيمنسٹ، يا  پدرسری سماج کی روايات کے خلاف لڑنے والی نڈر عورت اور يا ايک مظلوم عورت  تهی جو مردانگی کی بربريت کا شکار بنی۔

قنديل کی ہلاکت کے ايک دن بعد صوابی میں عوامی نيشنل پارٹی کے ايک بزرگ راہنما اور سابق رکن صوبائی اسمبلی شعیب خان  کو ان کے حجرے میں قتل کيا گيا۔ اس واقعے کے ساتھ سوشل ميڈيا نے اپنےتعلق کا کوئی اظہار نہيں کيا۔ سوشل ميڈیا پر ميرے دوستوں کی اکثريت لبرل، ليفٹسٹ اور قوم پرست لوگوں کی ہے۔ انہوں نے اس واقعے کو کوئی اہميت نہيں دی۔ عوامی نيشنل پارٹی کے کارکنوں کے علاوه اس واقعے کو کسی نے بهی سنجيده نہيں ليا۔ اس لا تعلقی کی بهی تين بڑی وجوہات ہيں:۔

۱۔ شعيب خان ایک سیاسی کارکن تهے۔ سياست میں اب لوگوں کی دلچسپی نہيں رہی ہے۔ خصوصاً سوشل میڈیا پر دن رات سرگرم لوگوں کا جس طبقے سے تعلق ہے اس کے ذہن ميں سياست ایک فضول اور غيرمقبول قسم کا روزگار بن کے رہی ہے۔ سوشل ميڈيا زياده تر مڈل کلاس کی سماجی اقدار کا عکاس ہے۔ يہ کلاس بڑی نازک مزاج، پاک و صاف، پارسا اورصادق و امين ہے اور يہ کوئی وصف کسی سياستدان ميں تو نہيں پايا جاسکتا۔ عمران خان تو خير ايک ایکسپشنل کيس ہے سياستدانوں ميں۔

۲۔ شعيب خان کا تعلق ايک قوم پرست پارٹی سے تها۔ پاکستان ميں قوم پرستی کو ايک تنگ و تاريک چوکهٹ تصور کيا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ سوشل ميڈيا کے آزاد خيال لوگوں کا بہت کم تعلق بنتا ہے۔

۳۔ انہوں نے گلی کوچوں کی سياست کی تهی۔ وه اپنی سياست کو  ٹيلی وائز نہیں کرسکے تهے۔ ان کا فيس بک پہ لال (میوزيکل بينڈ) جيسا پيج نہيں تها۔

يہ صرف ايک شعيب خان کے ساتھ نہيں ہوا۔ اے اين پی  کےسينکڑوں کارکن دہشت گردوں کے ہاتهوں گزشتہ نو سالوں ميں قتل ہوئے ہيں ليکن کسی کے قتل کی خبر پاکستان کے سوشل ميڈيا بزنس کے ساتھ کوئی خاص تعلق بنانے ميں کامياب نہيں ہو سکی ہے۔

اے اين پی تو خير مين سٹريم کی کوئی بڑی پارٹی نہيں رہی ہے۔ ايم کيو ايم کا حوالہ ہی لے لیں۔ ابهی حال ہی ميں جب فوج نے اس کے کارکنان کو قابو کرنے ميدان ميں اتر آئی  تو سوشل ميڈيا کا اس مسئلے کے ساتھ کوئی خاص تعلق نظر نہيں آيا۔ سوشل ميڈيا پر سرگرم سیاسی لوگوں نے بهی اس مسئلے کو کوئی خاص توجہ نہيں دی۔ اگر کسی نے توجہ دی بهی تو وه الطاف حسین کو غدار ڈکلئير کرنے اور اس کی تنظيم کے خلاف رياست کی کاروائی کو جوا ز فراہم کرنے کے متعلق تهی۔

 بلوچستان، خيبر پختونخوا اور سندھ کے حوالے سے سياست کی بات اگر سوشل ميڈيا پر ہوتی بهی ہے تو اس کا تعلق کرپشن کی خبروں کے ساتھ ہوتا ہے۔ سیاسی کارکنوں کو روزمره کے معاملات ميں کن مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور اپنی سياسی سرگرميوں ميں رياست کے ساتھ کس تعلق ميں رہتے ہيں،  اس کا اثر سوشل ميڈيا کے چہرے پہ نہيں ہوتا ہے۔ ان ضمنی علاقوں سے کرپشن کے کسی سکينڈل کی خبر سوشل ميڈيا ميں دس بم دهماکوں سے بهی زياده گونج پيدا کرسکتی ہے۔

دس جون کو ايک ٹی وی شو ميں  جمعيت علمائے اسلام سے تعلق رکهنے والے سنيٹر حافظ حمدالله اور ايک لبرل تجزيہ کار ماروی سرمد کے درميان کچھ ناخوشگوار کلماتکا تبادلہ ہوا تها۔ خبر پہنچتے ہی سوشل میڈيا ميں جنگل کی آگ کی طرح پهیل گئی اور ان کلمات ميں شلوار اتارنےکی بات سے  تقريباً ہر کسی کا ايک تعلق نظر آيا جبکہ عین اسی دن بلوچوں کے ايک  بڑے قوم پرست راہنما نواب خير بخش مری کی دوسری برسی تهی جس کے متعلق کوئی قابلِ توجہ بات کم سے کم میرے سامنے موجود سوشل میڈیا  پر نہیں ہوئی۔ اس مسئلے کے کئی پہلو ہيں:۔

۱۔ ايک وقت تها کہ سياست کے معاملات پہ بات خيربخش مری جيسے لوگ کيا کرتے تهے۔ اب يہ مسئلہ حافظ اور ماروی جیسے لوگوں کا ہوکے ره گيا ہے۔ حافظ صاحب کا تعلق بهی اس صوبے سے ہے جس سے خيربخش کا تعلق تها۔ جو بہت بڑا فرق آيا ہے اس کو آسانی سے سمجها جاسکتا ہے۔

۲۔ سوشل ميڈيا استعمال کرنے والے لوگوں کی اکثريت کی پوليٹيکل اکانومی  ٹی وی چینلز پر زيبا اورنازيبا الفاظکے  تبادلے کے ساتھ جڑی ہوئی  ہوتی ہے۔ وه سخت سماجی اور سياسی مسائل جن کو خيربخش جیسے لوگ اٹهايا کرتے تهے وه مسائل سوشل ميڈيا والوں کی نازک جماليات پہ گراں گزرتے ہيں۔ وه بوريت محسوس کرتے ہيں۔

۳۔خیربخش کا تعلق بلوچوں کے ايک  پسماندهاور ناخواندهعلاقے سے تها۔ وہاں پہ لوگ سوشل میڈيا  کا کم اور سياست کا زياده استعمال کرتے ہيں۔ سنا ہے کہ سياست ميں بهی لفظ کم اور ہتهيار زياده استعمال کرتےہيں۔ وہاں پہ سوشل ميڈيا پر اتنے لوگ نہيں مل سکتے جو خيربخش کے حوالے سے کسی پوسٹ پر ہزاروں لائکس دے سکيں يا اس پوسٹ کو سينکڑوں کی تعداد ميں شئير يا ری ٹويٹ کريں۔ بہرحال يہ ايک حقيقت ہے کہ سوشل ميڈيا کی پوليٹيکل اکانومی لائکس، شئيرز اور ری ٹوئٹس کو گننے میں ہے۔

۴۔ خيربخش جيسے لوگوں کا شمار رياست کے دشمنوں ميں ہوتا ہے شايد اس وجہ سے لوگ لاتعلقی دکهاتے ہوں ليکن ميرے خيال ميں اس سے بهی بڑا مسئلہ يہ ہے کہ سوشل ميڈيا  پہ حاوی جنتا کو يہ پتہ بهی نہیں کہ يہ رياست مخالف لوگ تهے۔

اس جولائی کے مہینے میں دو ہفتوں کے اندر  کراچی ميں دو بڑے  انسان  فوت ہوگئے۔ ايک تو عبدالستار ايدهی تهے جس کی موت پر سوشل ميڈيا والوں نے انسانيت کے ساتھ اپنی محبتکا ايک تاريخیمظاہره کيا۔ دوسرا معراج محمد خان تهے جس کی موت کی خبرنے  سوشل ميڈيا کے انسانی جذبے کو  اظہار کا کوئی موقع فراہم نہيں کيا۔ ميری نسل کے لوگوں کو جو سوشل ميڈيا کا ايک زبردست استعمال جانتے ہيں کو معراج محمد خان جيسے سیاسی کارکنان کی سياسی تاريخ  کا کوئی پتہ نہيں۔ رياست کے بيانيے ميں تو يہ تاريخ اور اس کے کردار سرے سے موجود نہیں ہيں۔ سوشل ميڈيا کا بهی رياست کے علاوه معلومات کا کوئی اور سرچشمہ نہيں۔ سوشل ميڈیا کا بيانيہ بهی رياست کے نصاب، ميڈيا اور دانشوروں کے بيانيے سے تشکيل پاتا ہے۔

مختلف ايشوز کے ساتھ تعلق اور لاتعلقی کا   مسئلہ صرف ايک بڑے غیرسياسیطبقے تک محدود نہيں۔ سياسی جماعتوں کے کارکنوں کی دلچسپی بهی اکثر لوگوں کی زندگی اور موت کے انتہائی سنجيده مسائل کی بہ نسبت کسی کرکٹ ميچ ميں زياده ہوتی ہے۔ سياسی جماعتوں کا تو يہ قصور ہے کہ انہوں نے اپنے کارکنان کيلئے کيوں ترجيحات متعین نہيں کی ہيں لیکن سوال يہ ہے کہ کيا آج کے زمانے ميں کسی سياسی تنظيم کا کنٹرول اپنے کارکنوں پر سوشل ميڈيا سے زياده پايا جاتا ہے؟  سياسی تنظیموں نے خود بهی اب سوشل میڈيا سے تربیت حاصل کرنا شروع کیا ہے اور ان کی اپروچ اس ميڈیا کی طرف ايسی ہے جو وه تعلیم کے بارے میں رکهتی آرہی ہے کہ اس کے بغير اب کوئی چاره نہيں۔

فرينکفرٹ سکول سے تعلق رکهنے والے ایک بڑے سماجی مفکر ہربرٹ مارکوز نے ٹیکنالوجی کے اس دور کے انسانی معاشرے کے خدوخال پر 1964 میں

 (One-Dimensional Man)

  کے عنوان کے تحت ایک شاندار کتاب لکهی ہے جس ميں بنیادی دلیل يہ دی گئی ہے کہ ٹيکنالوجی کی غیرجانبداری ايک مغالطہ ہے ۔ ٹیکنالوجی کو اس کے استعمال سے عليحده نہيں کيا جاسکتا ہے۔ ٹيکنالوجيکل سوسائٹی بالادستی کا ايک نظام ہے جو کہ پہلے سے ٹيکنکس کے تصور اور تشکيل ميں موجود ہوتا ہے۔

مارکوز کا تصور يہ ہے کہ آج کی سياسی پاور خود کو مشين کے پروسس اور ٹيکنيکل آرگنائزيشن کے اپريٹس کے اوپر رکهنے والے پاور ميں استعمال کرتا ہے۔ ترقی يافتہ اور ترقی پذیر صنعتی معاشروں کی حکومت اپنے آپ کوصرف اس طر ح سے  برقرار اور محفوظ رکھ سکتی ہے کہ وه  صنعتی تہذيب ميں تکنيکی، سائنسی اور ميکانکی پروڈکٹيويٹی کو موبلائز، منظم اور بروئے کار لانے میں کامیاب ہوجائے اور يہ پروڈکٹيويٹی پهر سوسائٹی کو مجموعی طور پر کسی انفرادی اور اجتماعی مفاد سے بالاتر موبلائز کرتی ہے۔

ٹيکنالوجيکل سوسائٹی کے خدوخال اور ٹيکنکس کے تصور اور تشکيل کو سمجهے بغير سوشل ميڈيا کے اثرات،  اس ميں تشکيل پانے والے انسان، اس کی آئيڈیالوجی اور سوشلائزيشن کو سمجهنا مشکل ہوگا۔اس ضمن ميں سوشل ميڈيا کے حوالے سے  چند نکات عرض کيے جاسکتے ہيں:

۔♦۔سوشل ميڈيا ميں جو سوشلہے وه ضروری نہيں کہ واقعی سوسائٹی کی نمائندگی کرسکے۔

 ۔♦۔سوشل ميڈیا تک ایک پڑهے لکهے طبقے کی رسائی ہے۔  اس پڑهے لکهے طبقے کی  اپنی سوشل لائف ، مسائل ، ترجيحات اور زبان ہے۔

۔♦۔ سوشل ميڈيا کے ہر یوزر یا استعمال کنندہ کی کوشش ہوتی ہے کہ وه اس جگہ ميں اپنا سوشل پروفائل بناسکے۔

۔♦۔سوشل ميڈيا کا ہر يوزر کی ايک انفرادی حیثيت ہوتی ہے اور اس ح۔ثيت ميں اپنی سرگرميوں کو زياده تر انفرادی حوالے سے جاری رکهتا  ہے۔

۔♦۔اس يوزر کو اتنا امتياز ضرور حاصل ہوتا ہے کہ وه بات کرسکتا ہے۔ وه جو بات کرتا ہے وه ضروری نہيں کہ وه کہنا بهی چاہتا ہو، اس سے بات کو کہلوايا بهی جاسکتا ہے۔

۔♦۔ سوشل ميڈيا کا استعمال بالادستی کے ميکانزم سے اوپر نہيں ہوتا۔  وه کہيں نہ کہيں کسی کے کنٹرول ميں ہوتا ہے۔ خصوصاً رياست  کے دائره کار سے باہر يہ استعمال شاذ ونادر ہی ديکها جاسکتا ہے۔

۔♦۔ سوشل ميڈيا کا معلومات اور تجزيات کا اپنا کوئی سرچشمہ نہيں ہوتا ہے۔ زياده تر پرائيويٹ اور سٹيٹ ميڈيا  کے معلومات اور تجزيات کو يہاں پہ پهيلايا جاتا ہے۔

۔♦۔  جس کے پاس پاور ہوتی ہے ا س کا سوشل ميڈيا پہ ايک وسيع سوشلپہ بهی قبضہ ہوتا ہے۔

۔♦۔ سوشل ميڈيا کے يوزرز کو بڑی حد تک يہ يقين ہوگيا ہے کہ کوئی ہے جو ان کی سرگرميوں کو مانيٹر کررہا ہے۔  

۔♦۔ سوشل ميڈيا پہ ايسے لوگ بهی ہيں جو پبلک ميں کسی پوسٹ کو لائک يا شئير کرنے کی بجائے پرائيويٹ ميسج ميں اس پوسٹ کو پسند کرنے اور داد دينے کی ذمہ داری ادا کرنا ضروری سمجهتے ہيں۔

۔♦۔ سوشل ميڈيا ميں فيک اکاؤنٹس اگرچہ زياده تر کسی بليک ميلنگ کے مقصد کيلئے بنائے جاتے ہیں ليکن ايسی خواتين، سیاسی  کارکنان اور مذہبی اقليتوںسے تعلق رکهنے والے لوگ بهی ہیں جو ان فيک اکاؤنٹس کے پیچھے سيکورٹی وجوہات سے اپنے آپ کو چهپاتے ہيں۔ يہ ايسا ہے جيسا کبهی آمريتوں کےدورميں سياسی کارکنوں اور لکهاريوں کو مستعار نام سے کام کرنا اور لکهنا پڑتا تها۔

۔♦۔ سمبولزم اگرچہ ايک آرٹ ہے ليکن اس کو آمريتوں کے دور ميں اظہار کا ايک بہترين وسيلہ بهی سمجهاجاتا ہے۔ سوشل ميڈیا کا سمبولزم آمريتوں کے دور کے سمبولزم سے ايک بڑے فرق ميں ديکها جاسکتا ہے۔

۔♦۔ سوشل ميڈيا کی وجہ سے گہرے مطالعے کے کلچر پہ ايک بڑا منفی اثر پڑا ہے۔ اس کے زياده تر يوزرر ٹرينڈ ز چلانے والے ہيں۔ ٹرينڈز کی اپنی پوليٹيکل اکانومی اور جماليات ہوتی ہيں۔ ٹرينڈ بنانے اور چلانے کا اپنا پاپولزم اور کنزيومرزم ہوتا  ہے۔

۔♦۔ ہیش ٹيگ اور ٹرينڈز بنانے والے ہی سوشل ميڈيا کے ہيروز ہوتے ہيں۔ وه اپنے اس ہيروازم کے خول ميں اپنی اس سوشل زندگی کو تصور کرتے رہتے ہيں۔

۔♦۔ اس ميڈيا کے بعض يوزرز کے ذہن ميں يہ بهی ہوتا ہے کہ اس کے ذريعے انقلابات لائے جاسکتے ہيں۔ وه اپنی ہر پوسٹ کے ساتھ يہ تصور کرتے ہيں کہ انقلاب کے پروسس ميں کچھ حصہ ڈال رہے ہیں۔

۔♦۔ سوشل ميڈيا نے لوگوں کو حقيقی سوسائٹی سے خطرناک حد تک عليحده کيا۔ وه جو مارگرٹ تھیچر نے کہا تها کہ سوسائٹی نامی کوئی شے نہيں، صرف افراد ہيں۔ وه بات سوشل ميڈيا اور اس کو استعمال کرنے کے حوالے سے بالکل سچ ثابت ہوتی ہے۔

۔♦۔ سوشل میڈیا پر ايسے لوگ بهی ہيں جو کسی کی پوسٹس کو پڑهنے  يا  کسی کی تصويروں کو ديکهنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں لیکن اس کو فرينڈ ريکويسٹ اس وجہ سے نہيں بھیجتے  کہ اس  سے ان کی سوشل ميڈیا پر پائے جانے والی  عظمتکو نقصان پہنچے گا۔

۔♦۔ اس مخمصے ميں تو زياده لوگ پڑے ہوتے ہيں کہ فرينڈ لسٹ بڑهانے سے کسی کی سوشل ميڈيا عظمتبڑھتی ہے يا اس کو محدود کرنے سے؟

۔♦۔ سوشل ميڈيا ميں ان فرينڈ اور بلاک کرنے کا بهی اپنا ايک کلچر ہے۔ کسی کو ان فرينڈ يا بلاک کرنے سے کسی روئيے کی نمائش کی جاتی ہے ۔ يہ ايک کارنامے کے طور پر ليا جاتا ہے۔

۔♦۔ سوشل ميڈيا کے يوزرز ميں کچھ خاص ماہر بهی ہوتے ہیں جو زبان کی چالاکی تکنيکی حوالوں سے سيکھ چکے ہوتے ہیں تو وه ہر معاملے ميں سبقت لينے کو ہی اپنا مقصد سمجهتے ہیں۔

۔♦۔ پاکستان  کی حد تک تو ميں يقین سے کہہ سکتا ہوں کہ سوشل ميڈيا پر کوئی ايسا علمی گروپ يا پيج نہيں جس سے ہم علمی خوراک حاصل کرسکتے ہیں۔ ايک طرف جہادی حلقے ہیں جو قرارداد مقاصد کی روشنی ميں رياست کی مذہبی ساخت کو بچانے کيلئے سرگرم ہیں اور دوسری طرف ایک محدود لبرل حلقہ ہے جو مُلا کو ساری برائيوں کی جڑ ثابت کرنے کيلئے ہر اس بات کو جائز سمجهتا ہے جس سے مذہبی لوگوں کو دکھ پہنچتا ہے۔

۔♦۔ يہ کہنے ميں زياده مبالغہ نہيں ہوگا کہ ايک وقت کے اردو رسالے علمی بحث و  مباحثے  اور تنقيد کے حوالے سے آج کے سوشل ميڈيا سے کئی گناه شاندار کردار ادا کرتے تهے۔

اگر ہم يہ نکات بڑھاتے جائيں تو اتنے بڑھ سکتے ہيں جتنی سوشل ميڈيا کی پيچدگیاں ہيں ، يا سوسائٹی ميں کچھ خاص طبقات کے تضادات يا اس دور کے نظرياتی تضادات اور يا ٹيکنالوجی کے پیچیدہ تصورات اور تشکيلات۔ اس مضمون کا مرکزی نکتہ يہ ہے کہ سوشل ميڈيا نے سياسی رويے، عمل اور ترجيحات کو بہت بری طرح سے متاثر کيا ہے۔ سياسی سنجيدگی نہ ہونے کے برابر رہی ہے، نظرياتی معاملات پر دانشورانہ مباحثے دور دور تک نظر نہيں آتے،  مجموعی طور پر لوگ اب کوئی سماجی  ذمہ داری قبول کرنے کيلئے تیار نظر نہيں آتے۔

کوئی پوچھ سکتا ہے کہ اگر سوشل ميڈیا اتنا غیرسياسی اور غيرمزاحمتی ہے تو پهر رياست کو سائبر کرائم بل لانے کی ضرورت کيوں پڑی؟ اس کا جواب بہت  آسان ہے۔ سوشل ميڈيا پر اتنے کم لوگ کوئی سنجيده سياست کرتے ہيں جن کی نشاندہی اب ايک سافٹ وئير سے بهی ممکن ہے۔

اگر سوشل ميڈیا کا پورا سوشل چہرهسیاسی ہوتا تو پهر سارے سوشل میڈیا پر پابندی لگانے کا قانون پاس ہوتا۔ جب سوشل چہره سیاسی بن جاتا ہے تو پهر اس ميں افراد کی نشاندہی ايک طرح سے ناممکن ہوجاتی ہے۔ ليکن بدقسمتی سے سوشل ميڈيا کا کوئی داخلی  اصول يہ ہے کہ اس میں افراد ہی کوئی سرگرمی کرسکتے ہيں، کسی اجتماعی عمل کیلئے  اس ميں گنجائش  نہيں۔ بالفاظ ديگر سوشل میڈیا میں کوئی سوسائٹی  نامی شے نہيں ہوتی، اس میں صرف افراد ہوتے ہيں۔ مارگریٹ تھیچر سوشل ميڈيا کی ماں ہے۔

محکوم طبقات کو ايک دوسرے کے قريب لانے کیلئے سوشل ميڈیا کو ایک بہترين ذريعہ سمجهنے والی سوچ  کارل مارکس کی اس سوچ سے زياده مختلف نہيں جو وه ہندوستان میں انگريزوں کے لائے ہوئے ريلوے سسٹم  کے بارے ميں رکھتے تهے کہ اس کے ذريعے محنت کش  تنگ روايتی و وراثتی حدبندیوں سے نکل کر ايک صنعتی معاشرے ميں ایک دوسرے کے قريب آجائینگے۔ 

ان تمام حقائق يا مفروضوں کے باوجود کسی سياسی کارکن کو سوشل ميڈيا ميں موجود گنجائش کو استعمال کرنے اور مزيد گنجائش پيدا کرنے ميں کوئی سستی اور کوتاہی  نہيں کرنی چاہیے۔  

Twitter: @khanzamankakar

8 Comments