ذوالفقار علی زلفی
کراچی کا بلوچ شعور ہمیشہ دو متضاد راستوں کا راہی رہا ہے…انتخابی شعور نے بھٹو کی پیپلز پارٹی کے “روٹی، کپڑا اور مکان” کے راستے چل کر ترقی و خوشحالی تک پہنچنے کی کوشش کی جبکہ سیاسی شعور بلوچ قوم پرستوں کے ہم قدم رہا…جب بھی بھٹو اور قوم پرست پاکستانی مقتدرہ کے تیروں کے ہدف بنے کراچی کے بلوچ مدد کو لپکے…اس متضاد شعور کی انہیں بھاری قیمت چکانی پڑی ، گینگسٹر سر پر بٹھائے گئے، دانستہ پسماندہ رکھا گیا ، کھیلوں بالخصوص فٹبال اور باکسنگ کی بیخ کنی کی گئ، سماجی ،سیاسی اور ثقافتی سرگرمیوں کو پہلے روکنے کی کوشش کی گئی جب نہ رکے تو سرکار ساختہ گینگسٹروں کو ان سرگرمیوں کا روحِ رواں بنادیا گیا افسوس اس “کارِ خیر” میں سوشلزم کی داعی پیپلز پارٹی بھی اپنی مخصوص سمجھوتہ باز فطرت کے تحت کمک کار رہی۔
مقتدر قوتوں کی اس غیر انسانی پالیسیوں کو سمجھنے اور اس کا راستہ روکنے والے گروہوں و افراد کو بزور قوت ہٹانے کی پالیسی بھی خاموشی کے لبادے میں زور و شور سے جاری ہے…کامریڈ واحد بلوچ اس پالیسی کے تازہ شکار ہیں۔
کامریڈ واحد بلوچ ایک باشعور سیاسی و ثقافتی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کے چچا استاد عبدالستار بلوچ ایک بہت بڑے موسیقار مانے جاتے ہیں جنہوں نے متعدد خوبصورت اور یادگار دھنیں ترتیب دیں۔ان کے درجنوں شاگرد گلوکاری و موسیقی کے میدان میں تاحال نہ صرف سرگرم ہیں بلکہ بلوچی موسیقی میں ایک ممتاز مقام بھی رکھتے ہیں۔
ان کے دوسرے چچا استاد عبدالرشید بلوچ بھی اپنے بڑے بھائی استاد عبدالستار بلوچ کے نقش قدم پر چل رہے ہیں…واحد بلوچ کے بڑے بھائی عبدالقادر بلوچ کا بھی لیاری کی ادبی و ثقافتی سرگرمیوں میں ایک نمایاں کردار رہا ہے۔
ایک باشعور خاندان کا باشعور فرد ہونے کے ناطے واحد بلوچ نے بھی ہوش سنبھالتے ہی خود کو تبدیلی کی قوتوں کے ساتھ جوڑ دیا۔زمانہ طالب علمی میں وہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے طلبا سیاست میں فعال رہے۔
عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد انہوں نے بلوچی زبان و ادب کی پسماندگی اور ترقی میں پیچھے رہ جانے کو شدت سے محسوس کیا۔اپنے ہی جیسے ایک اور نوجوان عبدالوھاب بلوچ جو انہی کی طرح ایک علمی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں کے ساتھ مل کر بلوچی زبان کے خدمت گار اور معروف انقلابی شاعر مرحوم آزات جمالدینی کے نام سے ایک اکیڈمی کی سنگ بنیاد رکھی اور اس اکیڈمی کے زیر اہتمام پہلی کتاب “مستیں توار” شائع کی۔یہ کتاب مرحوم عبدالواحد آزات جمالدینی کا شعری مجموعہ ہے ، سرکاری سرپرستی سے محروم بلوچی زبان کے اس بڑے شاعر کا یہ مجموعہ تقریباً “لاپتہ” ہوچکا تھا مگر ان دو نوجوانوں نے اپنی محنت سے اسے بازیاب کروادیا۔
مارکسی فلسفے کے پرچار اور کمیونسٹ دانشوروں کی سنگت کے باعث واحد بلوچ، کامریڈ کے سابقہ سے پہچانے جانے لگے۔
بلوچی زبان کی ترقی و ترویج ان کی زندگی کا اہم مقصد بن گیا…گیس، سونا،چاندی،کوئلہ، سنگ مرمر اور سمندر جیسی دولت سے مالا مال بلوچستان میں چونکہ چھاپہ خانہ کی سہولت نہ تھی (بدقسمتی سے صورتحال تاحال برقرار ہے) اس لیے آزات جمالدینی اکیڈمی کے زیر اہتمام انہوں نے بلوچی کتابوں کی اشاعت کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھالی۔
یہ 80 کی دہائی کے ماہ و سال تھے جب بلوچستان سمیت پاکستان بھر میں ضیا آمریت کو اسلام کا دوسرا نام بنا کر پیش کیا جارہا تھا اور افغانستان پیٹرو ڈالر جہاد کا میدان بنا ہوا تھا۔
کتابوں کی اشاعت “سرمائے” کی محتاج ہے ایک بے روزگار سرپھرا نوجوان بھلا سرمایہ کہاں سے لاتا۔ گرتے پڑتے، لڑکھڑاتے سنبھلتے وہ چلتے رہے…ایک دن قدرت مہربان ہوئی انہیں سول ہسپتال کراچی کے انتظامی شعبے میں اچھی سی نوکری مل گئی…انہیں تو گویا پر لگ گئے۔
ایک جانب وہ کتابیں چھاپتے اور دوسری جانب بلوچستان و کراچی کے غریب مریضوں کو ڈاکٹر نما قصائیوں کے چنگل سے نکال کر علاج کی مفت سہولیات فراہم کرنے میں جت گئے۔
نوے کی دہائی میں بلوچ بیوروکریٹ اور نامور ادیب و محقق غلام فاروق بلوچ کی درخواست پر انہوں نے ماہنامہ “بلوچی لبزانک” کی ادارت سنھبالی…ان کا گھر ، دفتر بن گیا…کتابوں کی اشاعت، ماہنامے کا اجرا، مریضوں کی دیکھ بھال اور ثقافتی پروگراموں کی ترتیب وہ ایک جن کی طرح بیک وقت یہ سب کام کرتے رہے۔
اسی دوران پروفیسر صبا دشتیاری نے کراچی میں بلوچی زبان و ادب کی قدآور شخصیت سید ظہور شاہ ہاشمی کے نام سے ریفرنس لائبریری بنانے کا انوکھا ارادہ ظاہر کیا…کامریڈ واحد بلوچ ان چند افراد میں سے تھے جنہوں نے اس ناممکن منصوبے کو ممکن بنانے کیلئے صبا دشتیاری کو اپنی خدمات پیش کیں۔
وہ پروفیسر صبا دشتیاری کے ہمزاد کہلاتے تھے…کئی سالوں کی دوڑ دھوپ اور صبر آزما مراحل سے گزرنے کے بعد ملیر میں قائد آباد پل کے قریب “سید ہاشمی ریفرنس لائبریری” کی پرشکوہ عمارت کھڑی ہوگئی…لائبریری کیلئے کتابوں کے بندوبست میں جہاں انہوں نے کراچی کے تقریباً تمام پبلشرز کو قائل کیا وہاں اپنی ذاتی لائبریری سے بھی سینکڑوں کتابیں عطیہ کردیں۔
اسی دوران بلوچستان پر پہاڑ ٹوٹ پڑا۔اسلام آباد میں بیٹھے مغرور جنرل پرویز مشرف نے بلوچوں کو ہٹ کرنے کی دھمکی دے دی۔جیتے جاگتے بلوچ نوجوان یکے بعد دیگرے غائب ہونے لگے۔
“لاپتہ بلوچ” کی اصطلاح عام ہوتی گئی…میڈیا کوریج سے دور ، انسان ہونے کے حق سے محروم دیہاتی بلوچ اپنے پیاروں کی گمشدگی کا کربناک قصہ دنیا کو سنانے نکلے۔بلوچ مرکز تو ہمیشہ سے کراچی رہا ہے ۔سو گمشدگان کے لواحقین نے کراچی سے امیدیں باندھیں ۔ خزاں رسیدہ پتوں کی طرح ٹوٹتے بکھرتے لواحقین جب کراچی پہنچے تو کامریڈ واحد بلوچ نے باد نوبہار کی طرح ان کا استقبال کیا۔
کراچی کے اخباری مراکز کی خاک چھاننے کو بھی انہوں نے اپنے معمولات میں شامل کرلیا۔وہ ہر فورم پر انسانوں کی گمشدگی، زندہ درگوری اور لواحقین کے درد کو بیان کرنے لگے۔
سنہ2011 کو وہ ایک اور صدمے سے دوچار ہوئے…ان کے ہمزاد پروفیسر صبا دشتیاری کوئٹہ کی سڑک پر “نامعلوم” افراد کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔زندگی میں پہلی بار واحد بلوچ کو بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر روتے دیکھا گیا۔وہ کئی روز تک غم سے نڈھال پڑے رہے۔ رورو کر آنکھیں سوج گئیں، پھر ایک دن نہ جانے کیا سوچ کر وہ دوبارہ پلٹ آئے۔
صبا دشتیاری کی محنت اور قومی سرمائے “ریفرنس لائبریری” کو انہوں نے بکھرنے نہ دیا۔ان کے کندھے لائبریری کو پھر مل گئے۔مریضوں کا بے لوث مسیحا ایک بار پھر اپنی جون میں آگیا۔
بہی خواہوں اور دوستوں نے منع کیا کہ اب حالات وہ نہیں رہے۔ یورپ کا ویزہ لگواکر نکلنے کی کریں۔وہ مطمئن تھے کہ سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں میں فعالیت ریاستی پالیسیوں کے سامنے رکاوٹ نہیں مگر یہ شاید ان کی سب سے بڑی بھول تھی۔
چھبیس26 جولائی 2016 کو وہ اپنے قریبی دوست اور بلوچی زبان کے شاعر صابر ناگمان کے ہمراہ عمر کوٹ سے مسافر بس میں خراماں خراماں کراچی آرہے تھے کہ راستے میں، ٹول پلازہ کے قریب “نامعلوم مسلح افراد” نے بس کو روک کر سب کے شناختی کارڈ چیک کیے۔پاکستانی شناختی کارڈ عذاب بن گیا۔طاغوتی طاقتوں نے ان کو بھی “لاپتہ بلوچوں” کی فہرست میں شامل کردیا۔
واحد بلوچ ، زبان و ثقافت سے تعلق رکھتے ہیں،وہ نادار مریضوں کے مسیحا ہیں،وہ درد مند دل کے مالک ہیں،ان پر حملہ اعلیٰ انسانی اقدار و روایات پر حملہ ہے۔بلوچ کلچر کو تاریکی میں دھکیلنا انسانی ثقافتوں کے گلدستے کو تار تار کرنے کے مترادف ہے۔انہیں بازیاب ہونا چاہیے ۔ انہیں آزاد انسانوں کی طرح جینے کا حق ملنا چاہیے۔
♠