آپریشن ضرب عضب اور متاثرین

160726235354_idps_640x360_bbc_nocredit حکومت اور فوج کی جانب سے جو وعدے کیے گئے تھے ان پر عمل درآمد نہیں کیا جارہا

دوسال سے جاری آپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں کی داستانوں پرتو ابھی کئی سوالیہ نشان ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی بے گھر ہونے والوں کے احتجاج نے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ، آئی ایس پی آر، کے اس دعوے کی قلعی کھول دی ہے کہ وہ وہ متاثرین کی بحالی میں مصروف ہیں۔

دو سال پہلے وزیرستان میں شروع ہونے والے آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں تقریباً دس لاکھ کے قریب افراد بے گھر ہونے پر مجبور ہوئے۔

آئی ایس پی آر کی جانب سے وقتاً فوقتاً یہ پریس ریلیز جاری ہوتی رہتی ہیں کہ متاثرین کی بحالی کا کام شروع ہوگیا ہے اور وہ واپس جارہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔لیکن کوئی صحافی یا میڈیا ہاوس آئی ایس پی آر کے دعووں کو چیلنج نہیں کر سکتا۔آپریشن ضرب عضب کے متاثرین کی کیمپوں میں کیا حالت ہے اور وہ کیسی زندگی گذار رہے ہیں یہ پاکستانی میڈیا کا موضوع نہیں ہے۔

لیکن دو دن پہلے شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے متاثرین نے امدادی رقوم میں تاخیر کے خلاف پشاور میں واقع قدرتی آفات سے نمٹنے کے وفاقی ادارے ایف ڈی ایم اے کے دفتر کے سامنے احتجاجی دھرنے کا اہتمام کیا۔

دھرنا پشاور کے علاقے یونیورسٹی ٹاؤن میں واقع ایف ڈی ایم اے کے مرکزی دفتر کے سامنے منعقد ہوا جس میں بنوں سے خصوصی طورپر آئے ہوئے اور پشاور میں مقیم شمالی وزیرستان کے متاثرین نے بڑی تعدا دمیں شرکت کی۔

مظاہرین نے پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جس پر ایف ڈی ایم اے کے ڈائریکٹرجنرل اور سرحدی اور قبائلی امور کے وفاقی وزیر کے خلاف نعرے درج تھے۔

مظاہرین نے اس موقع پر حکومت اور سیفران کے وفاقی وزیر کے خلاف شدید نعرہ بازی بھی کی۔ دھرنے میں وزیرستان کے طلبا اور نوجوانوں کی تنظیموں کے نمائندوں نے بھی کثیر تعداد میں شرکت کی۔ شدید گرمی کے باوجود مظاہرین نے کئی گھنٹے تک ایف ڈی ایم اے دفتر کے سامنے دھرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

مظاہرین نے قبائلی روایات کے تحت ڈھول کی تھاپ پر علاقائی رقص اتنڑ پیش کرتے ہوئے احتجاج میں حصہ لیا۔

اس موقع پر مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے قبائلی ملک خان مرجان نے کہا کہ میرعلی اور میرانشاہ سب ڈویژن سے تعلق رکھنے والے تقریباً دو سے تین ہزار خاندانوں کو حکومت کی طرف سے ابھی تک امدادی رقوم جاری نہیں کی گئی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے علاقوں کو واپس نہیں جاسکتے۔

انھوں نے کہا کہ وزیرستان کے چار دیہات کے متاثرین کی اے ٹی ایم سیمیں بلاک ہوگئی ہیں جس کے باعث وہ بنکوں سے رقم نہیں نکال سکتے۔ ان کے مطابق امداد سے محروم رہنے والے زیادہ تر خاندان بنوں اور بکاخیل کیمپوں میں رہائش پزیر ہیں۔

انھوں نے الزام لگایا کہ ایف ڈی ایم اے کے بدعنوان افسران متاثرین کی رقوم کو ہڑپ کرنا چاہیے ہیں لیکن وزیرستان کے غیور عوام کسی صورت اپنے حق سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

مظاہرے میں شریک وزیرستان طلبا یونین کے ایک نوجوان رہنما رحیم داوڑ نے کہا کہ متاثرین گذشتہ دو سالوں سے کیمپوں میں شدید موسمی حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے ان کا حال بد سے بد تر ہوتا جارہا ہے اور ان میں اب قوت برداشت ختم ہوگئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ حکومت اور فوج کی جانب سے ان سے جو وعدے کیے گئے تھے ان پر عمل درآمد نہیں کیا جارہا جس سے لوگوں میں مایوسی بڑھتی جارہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ وزیرستان کے لوگ فوج کے کہنے پر اپنے علاقوں سے بے گھر ہوئے لہذا اب فوج کو اپنے مہمانوں کا خیال بھی رکھنا چاہیے اور ان لوگوں کے خلاف کارروائی کی جائے جو متاثرین کو رقوم دینے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

BBC/News Desk

 

2 Comments