آصف جاوید
کمپیوٹر نے انسان کی دنیا بدل کر رکھ دی ہے۔ انٹرنیٹ کےوجود میں آنے کے بعد دنیا ایک گلوبل ولیج میں تبدیل ہوچکی ہے۔ کمپیوٹر اور انٹرنٹ کے ذریعے ، یوٹیوب، لنکڈ اِن ، ٹوئٹر، فیس بک، انسٹا گرام ، سنیپ چیٹ، سکائِپ اور اظہار کے دوسرے ذریعوں نے پوری دنیا کے انسانوں کو ایک دوسرے سے براہِ راست جوڑ دیا ہے۔ اب انٹرنیٹ کی برکات سے ساری دنیا کے عوام سوشل میڈیا کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑ چکے ہیں۔
سوشل نیٹ ورکنگ حیرت انگیز طور پر موجودہ دور کی تیز رفتار زندگی کا ایک حصّہ بن چکی ہے۔ دنیا میں کوئی بھی معمولی سے معمولی واقعہ چند سیکنڈوں میں ایک ٹوئٹ کے ذریعے پوری دنیا میں پھیل جاتا ہے۔ اب دنیا میں کچھ بھی چھپانا اتنا آسان نہیں رہا جتنا پہلے تھا۔ سوشل میڈیا نے عام آدمی کو اس قابل کردیا کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے کسی بھی جبر و تشدّد، ظلم و زیادتی ، ناانصافی کے خلاف ، بڑی آسانی کے ساتھ آواز اٹھا سکتا ہے۔ اپنے اوپر ہونے والے جبر و تشدّد، ظلم و زیادتی ، ناانصافی کو بغیر کسی رکاوٹ اور پابندی کے دنیا کے سامنے لا سکتا ہے۔ احتجاج کرسکتا ہے، دنیا کو بتا سکتا ہے۔
اسے انصاف ملے یا نہ ملے مگر دنیا کو پتا ضرور چل جاتا ہے، کہ کس پر ظلم ہوا؟، کس کے ساتھ ناانصافی ہوئی؟، کس کے حقوق کی پامالی ہوئی؟، کس نے کی؟، کون ذمّہ دار ہے؟۔ ظالم اور جابر کی نشاندہی ہوجاتی ہے، ناانصافی عیاں ہوجاتی ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی ، ظلم، جبر و تشدّد، اظہار رائے پر کنٹرول کرنے والی ریاستوں کو سوشل میڈیا سے بہت زیادہ خطرہ ہے۔
سوشل میڈیا کے وجود میں آنے کے بعد ان ریاستوں کے اپنے شہریوں کے ساتھ تعلّقات، انسانی حقوق کی پامالی ، اظہارِ رائے پر کنٹرول، بلاجواز گرفتاریوں، زیرِ حراست انسانیت سوز تشدّد، ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں، ویرانوں سے مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگیوں، فرقہ واریت اور مذہبی دہشت گرد جماعتوں اور گروپوں کی سرپرستی کے ثبوت بڑی تیزی کے ساتھ منظر عام پر آنے شروع ہوگئے ہیں ۔ گزشتہ کئی سالوں سے پاکستانی ریاست پر بھی یہی تمام الزامات ثبوتوں کے ساتھ سوشل میڈیا پر تسلسل کے ساتھ شیئر کئے جارہے ہیں۔
سوشل میڈیا ، ریاست کے اپنے شہریوں کے ساتھ تعلّقات، انسانی حقوق کی پامالی ، اظہارِ رائے پر کنٹرول، بلاجواز گرفتاریوں، زیرِ حراست انسانیت سوز تشدّد، ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں، ویرانوں سے مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگیوں، فرقہ واریت اور مذہبی دہشت گرد جماعتوں اور گروپوں کی سرپرستی کے ثبوت بڑی تیزی کے ساتھ ایک متوازی میڈیا کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کررہا ہے جس سے پاکستانی ریاست کا چہرہ مسخ ہورہا ہے اور بدنامی الگ ہورہی ہے۔
پاکستانی ریاست کی ایماء پر عاقبت نا اندیش سیاستدانوں اور نادان عوامی نمائندوں نے عوام کے بنیادی شہری حقوق کی پامالی کی روایات کو قائم رکھتے ہوئے گزشتہ دنوں قومی اسمبلی اور سینیٹ آف پاکستان سے ایک ایسے قانون کو منظور کیا ہے ، جو بظاہر تو سائبر کرائم کنٹرول قانون ہے، مگر اس قانون میں کچھ ایسے ابہامات اور گنجائشیں جان بوجھ کر چھوڑ دی گئی ہیں، جس کی مدد سے ریاست کے لئے نہ صرف اپنے جرائم چھپانا آسان ہوجائے گا ، بلکہ اظہار رائے اور اختلافِ رائے جیسے بنیادی شہری حقوق پر ریاست کا کنٹرول مزید سخت ہوجائے گا اور اب شہری سوشل میڈیا جیسے آسان تر ذریعہ اظہار سے محروم ہو کر ذہنی و فکری پابندیوں کا عذاب جھیلیں گے، اپنے آپ پر ہونے والے جبر و تشدّد اور ظلم و ناانصافیوں کو اپنے اندر ہی اندر جھیل کر گھُٹ گھُٹ کر مریں گے۔
پروٹیکشن آف سائبر کرائم بِل 2015 بظاہر تو سائبر جرائم کی روک تھام کا قانون ہے۔ مگر اصل میں یہ بِل سوشل میڈیا پر ریاست کا کنٹرول ہے۔ اس بِل کے قانون بننے میں اب صرف ایک مرحلہ باقی رہ گیا ہے۔ جس دن یہ بل اسمبلی میں اکثریتی ووٹوں سے منظور ہوکر صدرِ پاکستان کے دستخط حاصل کرلے گا اس دن یہ قانون بن جائے گا۔
قارئین میری یہ بات یاد رکھیں کہ یہ قانون سب سے پہلے اپنے بنانے والوں کو ہی ڈسے گا، قانون میں اتنا ابہام ہے کہ سوشل میڈیا پر کوئی بھی تبصرہ، تنقید، ریاست کے خلاف جرم تصوّر کیا جائے گا۔ بلا جواز گرفتاریاں، قید و بند عوام کا مقدّر بن جائے گی۔ اظہارِ رائے کی آزادی ایک جرم بن جائے گا۔ فکری آزادی ناپید ہوجائے گی۔ آزادیِ اظہار کا گلا گھونٹنے پر پورا ملک پاگل خانے میں تبدیل ہوجائے گا۔ یہ قانون انسانی حقوق کی توہین ہے، یہ کالا قانون ہے۔ ریاست کی ایماء پر حکومت اس بل کے ذریعے سوشل میڈیا کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینا چاہتی ہے۔ اس سے شہریوں کا فیس بک یا ٹویٹر پر اپنی مرضی سے مواد شیئر کرنے کا حق چھینا جا رہا ہے سائبر کرائم کنٹرول بل 2015 کے نفاز کے بعد انٹرنیٹ پر سیاسی تنقید کرنا اب جرم تصور کیا جائے گا جو کہ نہ صرف اظہار رائے کی آزادی کے منافی ہے بلکہ اس سے الیکٹرانک میڈیا کی صحافتی آزادی پر بھی قدغن لگائی جا رہی ہے۔’یہ بل انٹرنیٹ کے صارفین، آئی ٹی کی صنعت اور الیکٹرونک میڈیا کے علاوہ پڑھے لکھے نوجوانوں کے ایک بھیانک قانون ہو گا۔ سائبر کرائم کنٹرول بل 2015 شہریوں کے مقابلے میں ریاست کو زیادہ مضبوط کر رہا ہے جبکہ شہریوں کی انٹرنیٹ استعمال کرنے کی آزادی سلب کی جا رہی ہے۔
انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اختیارات میں اضافہ تو کیا جا رہا ہے مگر اگر اس قانون سازی کے نتیجے میں انھیں اگر استثنیٰ مل جاتا ہے تو یہ مجوزہ سائبر کرائم بل کی روح کے منافی ہے۔ بل کی شق 34 کے تحت پا کستان ٹیلی کمیونکیشن اٹھارتی (پی ٹی اے) کو یہ اختیار دیا جا رہا ہے کہ جو مواد اسے غیر مناسب لگے وہ اس کو پاکستانی صارفین کے انٹرنیٹ سے ہٹا سکتی ہے۔اس بل کے تحت کسی کی رضامندی کے بغیر کسی کو ٹیکسٹ میسیج بھیجنے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر حکومتی اقدامات کو تنقید کا نشانہ بنانے والے کو جرمانے کے ساتھ ساتھ قید کی سزا بھی سنائی جاسکے گی۔
بل مبہم ہے۔ یہ بات سمجھ نہیں آتی ہے کہ عدالت کا کیا اختیار ہے؟ اور تحقیقاتی اہلکاروں کے پاس کیا اختیارات ہوں گے ؟ ملزم کے کمپیوٹر یا انٹرٹیٹ ڈیوائسز سے معلومات جمع کرنے کا اختیار کہیں عدالت کو دیا جا رہا ہے تو کہیں تحقیقاتی افسر کو۔ اس لیے مجھے اس بل میں کافی خامیاں نظر آرہی ہیں۔ اسلام، پاکستان، ملکی سلامتی، دفاع اور بین الاقوامی تعلقات کو بنیاد بنا کر (جن کی واضح تعریف یا حدود متعین نہیں) کسی بھی قسم کا مواد ہٹانے یا بلاک کرنے کے اختیارات ایک ریگولیٹری اتھارٹی کو سپرد کرنا ، شیئر کرنے والے کے خلاف ریاستی قانون کے تحت کارروائی معصوم شہریوں کو خونخوار درندوں کے آگے ڈالنے کے مترادف ہے۔
اس قانون میں پاکستان اور ملکی سلامتی کی سرکاری تعریف سے انحراف کرنے والوں کی زباں بندی کا ایک حربہ بننے کے تمام تر امکانات موجود ہیں۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں ابلاغ عامہ کے ذرائع ملک کے طاقتور حلقوں خصوصاً سیکیورٹی اداروں کے غیر مرئی کنٹرول میں ہیں۔دنیا جانتی ہے کہ کس طرح پاکستان میں ریاستی اداروں کی جانب سے اپنے مخالفین اور ناقدین کی زبان بند کی جاتی ہے ، اور یہ سب کچھ جب کسی بھی قانون کی غیر موجودگی میں ہو تا ہے، تو سوچیے ایک قانون کی موجودگی میں کیا کچھ ممکن ہے۔ ملکی سلامتی کے اداروں، بین الاقوامی تعلقات، عدلیہ اور مذہب پر سوشل میڈیا کےذریعے تنقید کو قابل تعزیر قرار دیا جانا آزادی اظہار رائے کے آئینی حق اور انسانی حقوق کے عالمی چارٹرڈ کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ سائبر کرائم بل کی منظوری میں اب صرف ایک مرحلہ باقی ہے، اگر اس کو نہ روکا گیا تو قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد یہ قانون یقیناً ہمارے سیکیورٹی اداروں کے لیے ایک ایسا حربہ اور ہتھیار بنے گا جو ان کے نقطہ نظر کے خلاف بولنے والوں کی زباں بندی کے لیے بڑی بے رحمی کے ساتھ استعمال کیا جائے گا۔ یہ قانون پاکستان میں سائبر مارشل لاء کی راہ پر پہلا قدم ہے۔
♣