ترک حکام نے ناکام بغاوت کے بعد شروع کے جانے والے کریک ڈاؤن کے سلسلے کو کاروباری شعبے تک وسیع کر دیا ہے۔ تحقیقات کے لیے امریکا میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولن کے حامی تین امیر ترین تاجروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
انقرہ حکومت کا کہنا ہے کہ ترکی میں ہونے والی ناکام بغاوت کے پیچھے امریکا میں مقیم مذہبی رہنما فتح اللہ گولن کا ہاتھ تھا جبکہ وہ اس الزام کی تردید کرتے ہیں
ترکی میں پندرہ جولائی کی ناکام بغاوت کے بعد سے تقریباً سولہ ہزار افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے جبکہ آج اکیس صحافیوں کو بھی استنبول کی ایک عدالت میں پیش کیا گیا۔
دوسری جانب اتنے بڑے پیمانے پر کی جانے والی گرفتاریوں کی وجہ سے ترکی کے خلاف بین الاقوامی تنقید میں شدید اضافہ ہو گیا ہے۔ یورپی یونین نے دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے کے صورت میں ترکی کی یونین میں شمولیت سے متعلق جاری مذاکراتی عمل کو منجمد کر دیا جائے گا۔
یورپی یونین میں توسیع کے شعبے کے کمشنر یوہانس ہان نے کہا ہے، ’’ابھی تک ان حقائق سے پردہ نہیں اٹھایا جا رہا کہ گرفتار ہونے والوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ اگر ذرا سا بھی شک ہوا کہ قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا گیا ہے تو نتائج ناگزیر ہوں گے۔‘‘
دریں اثناء ترک حکام نے کریک ڈاؤن کا سلسلہ کاروباری شعبے تک وسیع کر دیا ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ایسے تمام کاروباری افراد کو گرفتار کیا جا سکتا ہے جو امریکا میں مقیم مذہبی رہنما گولن کی تنظیم کو ترکی میں مالی مدد فراہم کرتے ہیں۔ آج اس سلسلے میں ترک تجارتی دنیا کے تین امیر ترین تاجروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
ترکی کی سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق سکیورٹی فورسز نے آج ’’بوئدک ہولڈنگ کمپنی‘‘ کے سربراہ مصطفیٰ بوئدک سمیت اس کمپنی کے دو اعلیٰ عہدیداروں کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس کاروباری خاندان کے کئی دیگر افراد کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیے گئے ہیں۔
میڈیا اطلاعات کے مطابق اس خاندان کی ملکیتی کمپنیاں ترکی کی کارپوریٹ معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس خاندان کی کمپنیاں فرنیچر، توانائی اور فنانس کے شعبے میں کام کرتی ہیں۔
ترکی میں گولن کے حامیوں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کے تحت عدالتوں، میڈیا، تعلیم اور سول سروس میں کام کرنے والے ہزاروں افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
انقرہ حکومت کا کہنا ہے کہ ترکی میں ہونے والی ناکام بغاوت کے پیچھے امریکا میں مقیم مذہبی رہنما فتح اللہ گولن کا ہاتھ تھا جبکہ وہ اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔ گولن نے1999میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر لی تھی۔
DW