نائجیریا میں نمازیوں پر حملہ ، متعدد ہلاک

0,,18785949_303,00

نائجیریا میں نمازیوں سے بھری ایک مسجد میں ہوئے دو بم دھماکوں کے نتیجے میں کم از کم تیس افراد مارے گئے ہیں۔ اس حملے کی ذمہ داری کے لیے انتہا پسند تنظیم بوکو حرام پر شبہ کیا جا رہا ہے۔

بوکو حرام نامی تنظیم بورنو ریاست میں پہلے بھی حملے کر چکی ہے

خبر رساں ادارے اے پی نے بتایا ہے کہ نائجیریا کے شمال مشرقی شہرمائیدے گورو کے نواح میں واقع ایک مسجد پر یہ حملہ اس وقت کیا گیا، جب نمازی عبادت میں مصروف تھے۔ جمعرات کی رات ہوئے اس حملے کے نتیجے میں کم از کم بیس افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔

نائجیریا کی ایمر جنسی منجمنٹ ایجنسی (این ای ایم اے) کی طرف سے جمعے کے دن بتایا گیا ہے کہ بورنو ریاست میں ایک خود کش حملہ بھی کیا گیا، جس کے نتیجے میں چھ افراد مارے گئے۔ یہ اس خود کش حملے کا مسجد میں ہوئے حملوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے (این ای ایم اے) کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ حملے خواتین خود کش حملہ آور نے کیے۔ اس کارروائی میں سترہ افراد زخمی بھی ہو گئے۔ پولیس نے بتایا ہے کہ ان حملوں کے بعد امدادی کاموں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے اور حقائق جاننے کے لیے تفتیشی عمل کیا جا رہا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ انتہا پسند بوکو حرام کی باغی تحریک نے بورنو ریاست میں ہی جنم لیا تھا۔ اس ریاست کے متعدد علاقوں میں یہ شدت پسند تواتر کے ساتھ حملے کرتے رہتے ہیں۔ مئی میں صدر محمد بخاری کے منصب صدارت سنبھالنے کے بعد بھی اس جنگجو تحریک کے حملوں میں کمی نہیں آئی ہے۔ مئی سے اب تک ایسے ہی حملوں میں کم ازکم ایک ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔

ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ جمعرات کو مسجد پر ہوا حملہ دراصل خود کش تھا لیکن اس بارے میں ابھی تک مکمل تفصیلات موصول نہیں ہو سکی ہیں۔ پولیس حکام نے اس حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد چودہ بتائی ہے۔

این ای ایم اے نے بتایا ہے کہ جمعرات کو مسجد پر ہوئی خونریز کارروائی کے بعد جمعے کے دن اس علاقے کے نزدیک ہی ایک خود کش حملہ کیا، جس میں چھ افراد ہلاک ہوئے۔ پولیس ابھی تک ان دونوں حملوں کے مابین کوئی تعلق تلاش کرنے میں ناکام رہی ہے۔

کسی گروہ نے ابھی تک ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن پولیس کو شبہ ہے کہ ان کارروائیوں میں بوکو حرام کے جنگجو ملوث ہو سکتے ہیں۔ کچھ ذرائع نے ان حملوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد بیالیس بھی بتائی ہے۔

ڈوئچے ویلے

Comments are closed.